ایک گھناؤنی مخلوق سے چھٹکارے کی داستان


تو بچّو۔ گزرے زمانے کا قصہ ہے، اسی سرزمینِ پاک پر ایک عجیب سی مخلوق بستی تھی۔ لوگ اسے سیاستدان کے نام سے پکارتے تھے۔ آپ لوگوں نے تو شاید یہ لفظ اجنبی ہو۔ مگر اس زمانے میں اس مخلوق کا کردار ایسا گھناؤنا تھا کہ یہ لفظ عیاری و مکاری کا استعارہ بن چکا تھا۔ کسی شخص کی مکاری و عیاری کا بیان کیا جاتا تو کہا جاتا کہ بڑا سیاستی بندا ہے جی۔ کون سا عیب تھا جو اس مخلوق میں نہ تھا۔ دھوکہ دہی، مفادپرستی، موقع شناسی، دروغ گوئی، غلط بیانی اور سب سے بڑھ کے کرپشن۔ ہاں بچّو کرپشن۔ اس اصطلاح سے بھی آپ کی سماعتیں مانوس نہیں معلوم ہوتیں۔ شکر کریں آپ اس زمانے میں پیدا ہوئے ہیں جب کرپشن نامی اس ناسور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اور یہ کیسے اور کس نے کیا، یہ میں آپ کو آگے چل کر بتاؤں گا۔

تو صورتحال کچھ یوں تھی کہ اگرچہ سب عوام اس سیاستدان نامی مخلوق سے تنگ تھے، مگر ےیہ شاطر مخلوق اپنی عیاری کے بل پر اقتدار پر قابض تھی، اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے مغربی ممالک سے ایک کافرانہ نظام مستعار لے کر اس مملکتِ خداد میں نافذ کر رکھا تھا، جسے ہماری قومی زبان میں جمہوریت کا نام دیا گیا تھا۔ خود سوچیے کیا نام تبدیل کر دینے سے کسی کی خصلت تبدیل ہو سکتی ہے۔ سو یہ جمہوریت نامی نظام اسی مخلوق کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنا رہا اور اس کے مضر اثرات اندر ہی اندر ریاست کو دیمک کی طرح چاٹتے رہے۔ بالادست طبقے کی دیکھا دیکھی ان برائیوں کے اثرات عوام تک بھی پہنچنے لگے اور عوام بھی ان عیوب میں مبتلا نظر آنے لگے۔

لیکن بچّو یاد رکھنا، باطل قوتوں کے مقابلے کے لیے خدا خطہءزمین کو کبھی اپنے نیک، باکردار اور جذبہءایمانی سے معمور بندوں سے خالی نہیں ہونے دیتا۔ سو اس سرزمینِ پاک پر بھی کچھ ایسے دردِ دل رکھنے والے افراد موجود تھے جو اس اندھیر نگری میں امید کی کرن تھے۔ وہ اس صورتحال کو دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتے تھے۔ آخر خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ ٹھان لی کہ چاہے جو بھی قیمت چکانی پڑے، وہ ان باطل قوتوں کا قلع قمع کر کے رہیں گے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکے۔

ملک کے چند اور محبِ وطن حلقوں نے بھی اس کارِ خیر میں ان کی اعانت پر کمر کس لی۔ آخر اقتدار کے ایوانوں میں ایک جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ جنگ کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ ان محبِ وطن طاقتوں نے سیاستدان نامی مخلوق کی سرکوبی کے لیے ہر ممکن حربہ اختیار کر دیکھا۔ کئی محاذوں پر کامیابیاں بھی ہوئیں، کئی مرتبہ زمامِ اقتدار ان ظالموں کے ہاتھ سے نکلی اور محبِ وطن مجاہد مسندِ اقتدار پر ممتکن ہوئے، کئی مرتبہ س مخلوق کو رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر خدا ہمیشہ مومنین کی آزمائش کے لیے باطل طاقتوں کی رسی ڈھیلی چھوڑے رکھتا ہے۔ سو اپنی محلاتی سازشوں اور شاطرانہ ہتھکنڈوں کے باعث یہ مخلوق پھر سے اقتدار پر قابض ہو کر اس جمہوریت نامی نظام کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں جت جاتی، تاکہ کوئی بھی ان کی لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کی راہ روکنے کے قابل نہ رہے۔

مگر سچ ہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ آخر ان خیرخواہانِ ملت میں ایک بزرگ ہستی کو کشف کے ذریعے اس حقیقت سے آگاہی حاصل ہوئی کہ جیسے لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے، اور زہر ہی زہر کا تریاق ہے، ایسے ہی اس مخلوق کے خاتمے کے لیے اس کے اندر ہی سے کسی کو چنا جانا چاہیے۔ لالچ اور ہوسِ اقتدار تو یوں بھی اس مخلوق کے وصف ٹھہرے۔ تو کیوں نہ ان ہی میں سے کسی سیاستدان کو اقتدار کے سنہرے خواب دکھا کر اپنا مشن پورا کیا جائے۔ آخر قرعہءفال ایک ہردلعزیز مگر نسبتاً سیدھے سادے سیاستدان کے نام نکلا۔ ان محبِ وطن حلقوں نے اسے اپنی حمایت کا یقین دلایا، اور وہ ہم عصرسیاستدانوں کے مقابل ڈٹ گیا۔

قصہ مختصر، آخر حق غالب آیا اور باطل کو شکست ہوئی۔ سیاستدان نامی کریہہ مخلوق کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ کچھ ملک چھوڑ کر چلے گئے، اور جو مقابلے میں ڈٹے رہے انہیں نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ حمایت یافتہ سیاستدان اپنی کامیابی وکامرانی پر خوشی کے شادیانے بجاتے نہ تھکتا تھا۔ مگر جب تک برائی کا مکمل خاتمہ نہ ہو، اس کے دوبارہ نمو پانے کا خدشہ باقی رہتا ہے۔ پس آخر جیسا کہ سوچا گیا تھا، وہ سیاستدان خود بھی اسی جال میں پھنستا چلا گیا۔

اب آپ سب اس کہانی کا انجام جاننا چاہتے ہوں گے۔ سو انجام آپ کے سامنے ہے۔ آج سیاستدان اور جمہوریت جیسے قابلِ نفرت الفاظ سے آپ کی نسل واقف نہیں۔ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ہر جانب انصاف کا بول بالا ہے۔ ہر شخص صداقت اور امانت کے میعار پر پورا اتراتا ہے۔ امن اور آشتی کے شادیانے بجتے ہیں۔ باطل کے نظام کی بساط لپٹ چکی ہے۔ آئیے ہم سب ہاتھ اٹھائیں اور دعا کریں کہ ان محبِ وطن قوتوں کا سایہ خدا ہمیشہ ہمارے سر پر قائم و دائم رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).