جنس پرستی اورجنسی ہراسانی کا سیاسی کلچر


عائشہ گلالئی کی طرف سے تحریک انصاف کے چئیرمین پر جنسی ہراسانی کا الزام اور پارٹی میں موجود جنس پرستی کے خلاف أواز اُٹھانے کا کیس ہمارے سماج میں نہ پہلا اور نہ ہی آخری کیس ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اِ س کیس کا میڈیا پروفائل نمایاں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ کیس مستقبل میں کیسے کھلتا ہے، اور اس میں کیا دوسرے درپردہ عوامل اور طاقتیں منظر عام پر أتیں ہیں، اِس کیس کی خبر نے جس طرح ہمارے سماج کے گٹر کا ڈھکن کھول دیا ہے، وہ ہی اس کیس میں اہم بات ہے۔ جس طرح پڑھے لکھے مڈل کلاس عورتوں اور مردوں کی طرف سے سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر عائشہ گلالئی اورانکی بہن کی تذلیل کی گئی، خاص طور پر بِلا تفریقِ پارٹی پشتونوں کی طرف سے اور پاکستان بھر سے تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے، یہ ہمارے سماج کے اندر بھرے ہوئے پدر شاہی تعفن کا اظہار ہے، جو ایک بار پھر ملالئی کے کیس کے بعد اب عائشہ گلالئی کیس کے بہانے پھر سے پھوٹ پڑا ہے۔ رہی سہی کثر تحریک انصاف کی خواتین رہنماؤں نے عائشہ گلالئی کے خلاف پریس کانفرنس کرکے پوری کر دی۔

جس سماج میں ہم رہتے ہیں وہ ہر طرح کے استحصال، امتیاز، تعصب، جبرو تشدد اور ہراسانی سے بھرا پڑا ہے اور انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال اور تذلیل ہمارا روزمرہ کا تجربہ ہے۔ کوئی طبقاتی بنیادوں پر، تو کوئی قومی ونسلی بنیادوں پر، کو ئی مذہبی تو کوئی صنفی اور جنسی بنیادوں پر ان تمام مظالم میں ملوث ہے یا ان کا شکار ہے۔ اور یا بیک وقت ملوث اور شکار دونوں ہے۔

جنس پرستی، جنسی ہراسانی، جنسی بدسلوکی اور جنسی تشدد، اورجنسی کاروبار ہمارے ملک کے اندر اور ہمارے پورے سماج کے اندر نہ صرف تاریخی طور پر عام رہے ہیں بلکہ اسے باقاعدہ سماجی، ثقافتی اور ریاستی تحفظ بھی حاصل ہے۔ تقریباً سب ہی عورتیں، خواجہ سرا، اور صنفِ آزاد زندگی کے بیشتر حصے میں اس کا شکار رہتے ہیں، خاص طور پر پدر شاھانہ، میل شاونسٹ اور قدامت پرست مردوں کے ہاتھوں۔

میں سمجھتی ہوں کہ سرمایہ دار ی اور جاگیر داری نظام کی وہ مادی بنیاد جس کے اوپر پدر سری نظام (عورت پر مرد کی بالا دستی کا نظام) کھڑا ہے، عورت کی محنت، تولیدی طاقت اور جنس پر مرد کی بالا دستی کو قائم رکھے ہو ئے ہے۔ صنفِ آزاد اور خواجہ سرا بھی پدر شاہی مظالم کا ہی شکار ہیں۔ اِن مظالم کی ایک لمبی تاریخ ہے اور چونکہ یہ ہمارے سماج کی ذہنییت اور رواج میں رچ بس چکے ہیں اور جہاں کہ اس کیمادی و سماجی بنیادیں بھی کافی گہری اور مضبوط ہیں، اس لئے بِلا تفریقِ طبقہ اور قوم، سیاسی پارٹیوں کے ممبران بھی اس طرح کے نظریات اور رویوں کو پارٹی کے اندرلا کرپارٹی کو خطرات اور انتشار سے دوچار کر تے ہیں، جن کا ادراک اور ہر ممکنہ حد تک پارٹیوں کے اندر اور باہر خاتمہ کرنا ضروری ہے۔

پارٹی کے ممبران جس سماجی تبدیلی اور انقلاب کے لئے بظا ہر جدو جہد کر رہے ہوتے ہیں، اُس انقلاب اور سماجی انصاف کی جھلک پارٹی کی سیاسی و سماجی ثقافت اور پارٹی کے انقلابی کارکنوں کی طرزِ معاشرت میں بھی ضرور نظر آنی چاہیے۔ ورنہ تو پارٹی دھوکہ کر رہی ہوتی ہے۔

سماجیات کے عظیم سائنسدان، انقلابی مفکر اور فلسفی کارل مارکس کے مطابق ’سماجی انقلاب تاریخ کا انجن ہوتا ہے‘، اور بقولِ لینن مظلوم اور استحصال زدہ عوام الناس کے لئے سماجی انقلاب جشن ہوتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق سیاسی زندگی میں وسیع عوامی حلقوں کی سرگرم شرکت کی وجہ سے واقعات اور تاریخ کی رفتار تیز تر ہو جاتی ہے۔ اسی لئے ہم انقلابی پارٹیاں تشکیل دیتے ہیں۔ اگرتو ہم نے تاریخ کا وہ انجن بننا ہے، جشن منانا ہے، اور تاریخ کا پہیہ آگے بڑھانا ہے تو یہ کارِ عظیم ہم عورتوں کی سرگرم شرکت کے بغیر نہیں کر سکتے کیونکہ عورتیں کل سماج کا نصف حصہ ہیں۔ اگر ہم سیاسی پارٹیوں میں عورتوں کے ساتھ یہ برتاؤ رکھیں گے تو عورتیں سیاست میں نہیں أئیں گی، اور سماج انقلاب کھبی نہیں برپا نہیں ہو سکے گا۔

عورتوں اور دوسرے پِسے ہوئے صنفوں کے خود اپنے لئے، اور پارٹیوں میں بے خطر عورتوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں پارٹیوں کے اندر ایک ایسے سماجی و سیاسی ثقافت اور ماحول کو ترویج دینا ہوگا جہاں کہ سب پِسے ہوئے طبقات، اور خاص طور پر عورتیں آزادنہ اور بے خوف و خطرسیاست کر سکیں۔ ہمیں عورتوں کو سیاست کا حامی بنانے کے لئے پارٹیوں کے اندر محفوظ سیاسی فضا بنانے کے علاوہ کئی اوراقدامات کرنے ہوں گے۔

فی الوقت تو پولٹیکل پارٹیز ایکٹ اور پیپلز رپریزنٹیشن ایکٹ میں ترمیم کر کے جنسی ہراسانی اور جنس پرستی پر پالیسی سازی کو پارٹی رجسٹریشن کے لئے لازمی قرار دیاجائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).