NA260 کا نتیجہ، کس کے لیے نوشتہ دیوار


15 جولائی کو قومی اسمبلی کے حلقہ260پر ضمنی انتخاب ہوا۔ نتائج سب کے سامنے ہیں۔ لیکن یہ نتائج اتنے سیدھے اور سادہ بھی نہیں کہ دوسرے حلقوں کے ضمنی انتخاب کی طرح سن کر بھلا دیے جائیں۔ یہ ضمنی انتخاب بہت کچھ اپنے ساتھ لے گیا اور بہت کچھ لا کر دے بھی گیا۔ یہ نتائج سمجھنے والوں کے لیے بہت ساری نشانیاں بھی واضح کر گیا۔ آنے والے انتخاب تو کیا گزرے ہوئے الیکشن کو بھی سمجھانے میں مدد دے گیا۔

یہ حلقہ جناب عبدالرحیم مندوخیل کی وفات کی وجہ سے خالی ہوا تھا۔ جس کا تعلق پشتونخوا میپ سے تھا۔ اس حلقے میں ووٹوں کی تعداد تو چار لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ ہے لیکن اگر اس کے طول و عرض کو دیکھیں تو رقبے کے لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا حلقہ ہو گا۔ یہ حلقہ کوئٹہ کم چاغی کم نوشکی کم مستونگ کہلاتا ہے۔ اس کو مزید سمجھنے کے لیے حلقہ NA259کا جائزہ ضروری ہے۔ 259کوئٹہ کینٹ اور کوئٹہ میونسپل کارپوریشن پر مشتمل ہے جس سے مارچ 2013میں لوڑ کاریز کم ایسٹرن بائی پاس اور کچی بیگ کم رجب بھی نکال کر 260میں شامل کر دیے گئے تھے۔
2013کے الیکشن کے نتائج پر نظر ڈالیں تو تفصیل کچھ یوں بنتی ہے کہ عبدالرحیم مندوخیل نے 30338ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ دوسرے نمبر پر جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار جناب منظور احمد مینگل تھے جنہوں نے 26019ووٹ حاصل کیے۔ تیسرے نمبر پر بی این پی کے آغا حسن بلوچ صاحب رہے جن کو 25104ووٹ ملے۔ اس کے علاوہ عمر گورگیج نے 15857، محمد یوسف نے 14441اورجمعیت نظریاتی کے حافظ فضل محمد بڑیچ نے11003ووٹ حاصل کیے۔ اس کے علاوہ زیادہ ووٹ حاصل کرنے والوں میں عرفان عزیز کرد8692، کریم داد7653ووٹ لے کر شامل ہیں۔ اس انتخابی مہم میں شدید تنقید کا نشانہ بننے والی(تفصیل آگے لکھوں گا) عوامی نیشنل پارٹی کے نیک محمد کاکڑ نے547ووٹ لیے تھے۔ اس فہرست میں کل ملا کر 40امیدوار شامل ہیں جنہوں نے پانچ ہزار تک ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس طرح گزشتہ عام انتخابات میں اس حلقے میں کل 176425ووٹ پڑے تھے جن میں7032ووٹ مسترد ہوئے تھے اور 169393درست قرار پائے تھے۔

جب ضمنی انتخاب کا اعلان ہوا تو تقریباً تمام جماعتوں نے اپنے امیدوار میدان میں اتارے۔ بعد میں معمول کی انتخابی اتحاد بنتے گئے اور امیدواروں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ انتخابی مہم کے دوران گہما گہمی رہی۔ بظاہر مقابلہ بی این پی، پشتونخوا میپ اور جمعیت کے درمیان آ رہا تھا، لیکن پورے الیکشن کمپئین میں سب سے زیادہ عوامی نیشنل پارٹی موضوع بحث بنی رہی چائے وہ پشتونخوا میپ کی جانب سے تنقید ہو یا پھربلوچ قوم پرستوں اور ہزارہ برادری کی جانب سے تائید۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے بہت سوں کے غرور یا خواہشات کو ایک طرف مٹی میں ملا دیاتو دوسری جانب محکوم سیاسی کارکنوں کے لیے امید کی ایک کرن ثابت ہوئی۔ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی طویل فہرست میں صرف ایک پشتون امیدوار جمال ترکئی تھے جن کا تعلق پشتونخوا میپ سے تھا باقی سارے امیدوار بلوچ تھے۔ اس بات نے بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئیاں اور تجزیے جھٹلا دیے کہ بلوچ کا ووٹ تقسیم ہو رہا ہے اور پشتون کی جیت یقینی ہے۔

یاد رہے رحیم مندوخیل کی وفات سے دو تین دن پہلے عوامی نیشنل پارٹی نے کوئٹہ میں ہونے والے 23مئی کا جلسہ سیکورٹی کلیرنس نہ ملنے پر ملتوی کر دیا تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک دفعہ اپنا جلسہ ملتوی کر چکے تھے۔ جلسہ ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہونا تھا پشتونخوا میپ کے کارکن سوشل میڈیا پر وارد ہوئے اور اصغر خان اچکزی کو اصغر مینگل کا خطاب دے ڈالا کہ ڈرکی وجہ سے انہوں نے یہ جلسہ ملتوی کر دیا۔ ہمارے سوا کسی اور کی کیا مجال کہ وہ کوئٹہ میں کامیاب جلسہ کرے۔ ، وغیرہ وغیرہ۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا دو تین دن بعد رحیم مندوخیل انتقال کر گئے اور اسی حلقے میں ضمنی انتخاب کا علان ہوا تو انہیں اصغر خان (جس کو وہ اختر مینگل سے سیاسی تعلق کی وجہ سے اصغر مینگل پکارتے رہے) کی نہ صرف یاد آئی بلکہ ضرورت بھی پڑی۔ لیکن اس کے باوجود سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کہ کر سکے اور بات چیت کے لیے اپنے امیدوار جمال کو بھیج دیا، دوسری دفعہ کچھ رہنما ان سے ملنے گئے۔ لیکن محمود خان اچکزئی نے اصغر خان یا اے این پی کو اس قابل نہ سمجھا کہ خود ان سے بات کرتے تو شاید کوئی مثبت جواب ملتا، (خیر یہاں سیاسی سے زیادہ ذاتی وجوہات بھی تھیں)۔

دن گزرتے گئے اور اے این پی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بی این پی نے مل کر انتخاب میں جانے کا فیصلہ کیا اور دونوں جماعتوں نے بی این پی کے امیدوار کی حمایت کی۔ یہ اعلان کیا ہونا تھا کہ پشتونخوا میپ نے اس الیکشن کو پشتونوں کی زندگی اور موت کا کیس بنا دیا۔ بلوچ پشتون تعصب کو ہوا دی اور وہ بھی محمود خان جیسے سیاست دان نے۔ جس سے جو ہو سکا، اس نے انتخابی مہم اور سوشل میڈیا پر اے این پی اور اصغر خان کی تضحیک کی، ایسی گالیاں دی گئیں جن کا لکھنا یہاں میرے لئے ممکن نہیں، حتیٰ کہ خان عبدالولی خان کو بھی معاف نہیں کیا گیا، باچا خان کو بھی بیچ میں بار بار لاتے رہے۔ اس میں محمود خان بذات خود پیش پیش رہے۔ کارکنوں کا کیا حوالہ دینا، لیکن محمود خان کا لہجہ اور سیاسی فہم ضرور ملاحظہ کریں۔ انتخابی مہم کے دوران ایک تقریب میں کہنے لگے کہ ’’حاضری نہ دینے پر کچھ قوتیں ناراض ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ جب بھی بلائیں ان کے در پر حاضری دی جائے‘‘۔ اگلے روز اصغر خان نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’حاضری نہ دینے والوں کو یہ بات سمجھ لینی چائیے کہ حاضری لینے والوں نے آپ سے کام لے لیا اور اب آپ کو چھوڑ دیا ہے۔ اب شاید آپ ان کے کام کے نہیں رہے۔ آپ نے زمینیں، جائیدادیں اور بینک بیلنس تو ضرور بنائیں لیکن پشتونوں میں اپنا مقام کھو دیا۔ ‘‘

ایک جگہ فرمانے لگے کہ ’’پشتون قومی صوبہ کی تشکیل کے لیے ضمنی الیکشن میں پارٹی امیدوار کو کامیاب بنائیں۔ پشتون غیور ملت کی ملی وحدت اور حدہ قومی صوبہ پشتونخوا کی تشکیل، قومی شناخت کی بحالی اورپشتونخوا وطن میں عوام کی قومی جمہوری اقتدار اور ملک کے دیگر اقوام اور عوام کی قومی برابری اور حق حکمرانی اور ملک میں جمہوری نظام کے یے پشتونخوا میپ کی جدوجہد اور قربانیاں سب پر واضح ہیں۔ ‘‘

ان سے الیکشن کے دن پشتون ووٹروں نے پوچھ لیا کہ جس جماعت کے پاس صوبے کی گورنرشپ ہے۔ تین ایم این ایز اور اتنے ہی سنیٹرز ہیں، 14ایم پی ایز ہیں جن میں پانچ اہم وزارتوں پر براجمان ہیں۔ کوئٹہ شہر کی مئیرشپ ہے۔ اور چار سال گزرنے کے بعد پشتونوں کو ملی وحدت نصیب نہیں ہوئی تو باقی11مہینے کی مدت میں ایک ایم این اے ایسا کیا تیر مارے گا، یوں پشتون ووٹروں نے 15جولائی کو اپنا جواب ان کو تمھا دیا۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ گھر گھر مہم کے دوران ان کوایسے صورت حال کاسامنا بھی کرنا پڑا جن کا انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

میپ کی سیاست میں خان عبدالولی خان کی مخالفت روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ محمود خان نے اس مہم کے دوران کہا کہ’’ ہماری تمام قربانیوں کے باوجود نیشنل عوامی پارٹی کے اکابرین نے پارٹی منشور اور اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پشتونوں کی متحدہ قومی صوبے اور پشتون ملی تشخص کی بحالی اور ملی وحدت کی بحالی حق کو تسلیم نہیں کیا۔ ستم بالا ستم یہ ہوا کہ پشتونخوا وطن کے سیاسی اکابرین نے تاریخی جنوبی پشتونخوا سابقہ چیف کمشنر صوبہ کو ملی وحدت کا حصہ بنانے کے بجائے ہمارے عوام پر غیر فطری صوبہ مسلط کیا۔ جس میں پشتون بلوچ کی قومی برابری اور اقتدار میں مساوی شراکت کی کوئی آئینی ضمانت فراہم نہ کی گئی۔ ‘‘ایک ہی فقرے میں متضاد چیزوں کو اکٹھا کرکے سادہ لوح لوگوں کو ورغلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ لوگ اب تک یہ سمجھتے ہیں کہ ون یونٹ تو ان کی کوششوں سے ختم ہوا لیکن نئے صوبے خان عبدالولی خان نے بنائے۔ بلوچوں کے ساتھ قومی برابری اور اقتدار میں مساوی شرکت کا ان سے کوئی پوچھے کی جمہوریت اسی کو کہتے ہیں۔ ہاں اگر یہی جمہوریت ہے تو پھر اپنے آبائی ضلع قلعہ عبداللہ اور دوسرے پشتون ضلعوں کو بھی برابری کی بنیاد پر رکھیں۔ ان کا آبائی ضلع پشتون بیلٹ کا وہ واحد ضلع ہے جوکہ قومی اسمبلی کا ایک حلقہ بھی ہے۔ باقی تمام نشستیں دو اور تین تین اضلاع پر مشتمل ہیں۔ یہاں ان کو برابری کیوں نظر نہیں آتی۔ یہ کہ ان پر غیر فطری صوبہ مسلط کر دیا گیا۔ 70ء کی دیہائی میں جانے کی ضرورت نہیں، وہ صرف یہ جواب دیں کہ ان کے بھائی محترم اس غیر فطری صوبے کے غیر فطری گورنر کیوں بنے بیٹھے ہیں۔

پچھلے دنوں صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی جوکہ موصوف کے بھائی بھی ہیں کا ایک اخباری بیان نظر سے گزرا جس میں اس نے اس بات کا دعوی کیا کہ ’’ہم دو قومی صوبے میں پشتون بلوچ برابری لانے میں کامیاب ہو گئے۔ آج اگر صوبے کا وزیر اعلیٰ بلوچ ہے تو گورنر پشتون ہے۔ ‘‘ اگر یہی پشتون بلوچ برابری ہے تو اس برابری کا کریڈٹ آپ نہ لیں بلکہ یہ تو 70ء کی دہائی سے ہوتا آ رہا ہے۔ کیا وہ جنرل رحیم الدین خان، سردار فاروق شوکت خان لودھی۔ کے کے آفری، سردار گل محمد خان جوگیزئی، سردار عبدالرحیم درانی، میاں اورنگ زیب، سید فضل آغا اور اویس غنی کو پشتون نہیں سمجھتے۔

میپ نے شعوری اور دانستہ طور پر اس حلقے کو بلوچ پشتون ووٹروں میں تقسیم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جسے عوامی نیشنل پارٹی بلخصوص جمعیت علما اسلام نے بری طرح ناکام بنا دیا۔ پشتون ایریا کے پولنگ اسٹیشن اس کے گواہ ہیں۔ ان کے ایم پی اے منظور کاکڑ کا ابائی علاقہ ہنہ اور جمال ترکئی کے آبائی علاقہ نواں کلی کے نتائج میپ کے لیے غور طلب سوال چھوڑ گئے ہیں۔
افسوس ناک پہلو نتیجہ آنے کے بعد دیکھنے کو ملا۔ جو لوگ پشتونوں کو بلوچوں کے مدمقابل کھڑا کرنے کی سعی کر رہے تھے، وہ پشتونوں کو زئی اور خیلی میں تقسیم کر گئے۔ نتیجہ کے بعداسے من و عن تسلیم کر لینے کی بجائے وہ اس حلقے میں رہائش پذیر ان پشتون قبیلوں کے پیچھے پڑ گئے جن کے پولنگ اسٹیشنوں پر میپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں پشتونوں کو بلوچوں کے خلاف متحد کرنے کی کوشش میں پشتونوں کے اتحاد پر ضرب لگا گئے۔ تب سے کوئٹہ کے پڑھے لکھے سنجیدہ افراد سوشل میڈیا پر اس بحث میں الجھے ہوئے نظر آ رہے ہیں، جو کسی بھی صورت خوش آئند بات نہیں۔

میپ کے اندرونی حلقوں نے ٹکٹ کے اعلان کے اگلے ہی دن اسے مسترد کر دیاتھا۔ یہ نظریاتی و تنظیمی کارکن دوسرے الفاظ میں اکرم شاہ کا گروپ کہلایا جاتا ہے۔ اکرم شاہ اور محمود خان کا اختلاف پارٹی کو اندر سے دو واضح اور تیسرے غیر واضح گروپ میں تقسیم کر چکا ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ جمال ترکئی کی دولت اور قبیلہ بتایا اور اسے ایک شخص (محمود خان) کا فیصلہ قرار دیا۔ اس کا ثبوت بھی نتیجہ کے بعد اس گروپ کی جانب سے کھل کر سوشل میڈیا پر اظہار رائے ہے۔ یہ افراد شکست کی جو وجوعات بتا رہے ہیں ان میں اکثر کا تعلق پارٹی کے اندرونی معاملات سے ہے۔ کچھ اسے صوبائی حکومت کی چار سالہ کارکردگی، سی پیک پر مبہم پالیسی اور فاٹا کے معاملے کو قرار دے رہے ہیں۔ یہ رائے کسی اور کی نہیں، میپ کے سنجیدہ پڑھے لکھے کارکنوں کی رائے ہے جو ہماری رائے سے زیادہ وزن رکھتی ہے۔

یہ نتیجہ سب کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی الیکشن جیت گیا تو سیاست ہار گیا۔ کوئی سیاست جیت کر الیکشن ہار گیا۔ بد قسمت وہ رہے جو الیکشن اور سیاست دونوں ہار گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).