مذہب، فلسفہ، سائنس اور انسانی ذہن


پرانی بات ہے عمر بھی چھوٹی تھی کسی چیز سے تنگ آکر میرے منہ سے نکلا ”کیا فائدہ“ وہاں کچھ فاصلے پر میری بہن بھی بیٹھی ہوئی تھی اس کے کان تک میری یہ آواز پہنچی تو وہ بولی ”کوئی بھی چیز بیکار نہیں جاتی اس کا کچھ نہ کچھ کام ضرور ہوتا ہے“ مجھے نہیں پتہ اس نے کس لحاظ سے کہا لیکن یہ بات میرا دماغ میرے ذہن سے نکال نہیں سکا۔ میں اس کو اور بھی کسی طرح لے سکتی تھی لیکن تھوڑی بڑی ہوئی تو فزکس میں تھوڑی بہت دلچسپی تھی وہاں سے نیوٹن کا تیسرا قانون حرکت پڑھا ”ہر عمل کا برابر مگر مخالف ردعمل ہوتا ہے“ اور پھر ان دونوں کو آپس میں ملانے لگی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں کہنا کیا چاہ رہی ہوں۔

انسانی دماغ ارتقائی سفر کرتا آ رہا ہے جو میرے باپ دادا جو سوچتے تھے میں ان سے مختلف سوچتی ہوں اور میری تسکین کا سامان بھی ان سے مختلف ہے جو مجھے مطمئن کرتا ہے۔

اگست کومٹے جنہیں ہم عمرانیات کا والد صاحب کہتے ہیں ان کا سماجی تبدیلی پر تین مرحلے کا نظریہ ہے اگست کومٹے کہتا ہے انسانی دماغ ارتقائی سفر کرتا رہا ہے پہلے وہ دنیا اور ہر عمل کو مذہبی طور پر دیکھتا تھا اور پھر اس نے فلسفانی انداز اپنایا لیکن اس دوران مذہبی تصور بھی رہا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ سائنس نے فلسفے کی جگہ لی اور اب مذہب اور فلسفے کو بھی سائنسی ضرورت درکار ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ روزہ رکھنے کے سائینسی فوائد۔ نماز پڑھنے سے کیا کیا جسمانی فائدہ حاصل ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

لیکن بات تب بگڑتی ہے جب جمود کا راج ہو جائے جمود سے مراد ایسا رویہ ہے جو سماج میں سخت عناصر رائج کرے اور ارتقائی سفر میں خلل واقع ہو یہی وہ رویہ ہے جس وجہ سے ہمارا سماج بنیادی مسائل کا شکار ہے۔ سماجی سسٹم بہت پیچیدہ ہے اس کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔ اچھا، برا، لالچی، یہ سب تو قدرت کا کیا دھرا ہے وغیرہ وغیرہ یہ کہہ کر ہم آسانی سے مسائل سے نجات پا لیتے ہیں لیکن یہ رویہ بھی جمود میں آتا ہے۔

ایک ماہ پہلے بہاولپور میں ایک پٹرول ٹینکر کے دھماکے سے بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں گئی۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی جب سوشل میڈیا پر یہ پڑھنے کو ملا کہ لالچ اس کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ یہ تو ویسے ہی ہوا کہ کلاس میں سب بچے فیل ہو گئے کیونکہ سب بچے بیکار تھے۔ ایسے منہ پھیر لینے سے مسائل حل نہیں ہونے والے، پہلے مسئلے کو مسئلے کی طرح دیکھنا ہوگا کہ واقعی یہ مسئلہ ہے اور یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کہتے کسے ہیں، ابھی میں ٹائپ کر رہی ہوں تو میری ڈکشنری کھلی ہوئی ہے جب کبھی میں مسئلہ کا لفظ استعمال کر رہی ہوں تو دوسرا لفظ کشمیر نظر آ رہا ہے جیسے ہمارے ملک کے سارے مسائل حل ہو گئے ہیں اور چلے ہیں ہم کشمیر آزاد کروانے۔ دن بہ دن ہمارے ملک میں آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور ہمارے پاس اتنے وسائل و ذرائع ہیں ہی نہیں اور ہماری معیشت کا یہ حال ہے کہ ہم اپنے قومی اثاثے فروخت کر رہے ہیں یہ سوچے بغیر کہ مستقبل میں اس کے اثرات کیا مرتب ہوں گے اور دہشت پسندی ہمارے پاس عروج پر ہے ہر خودکش دھماکے کے بعد ہم یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ اس بار کمر توڑ دی ہے ایسے مسائل حل نہیں ہونے والے، دنیا بہت آگے نکل چکی ہے لیکن ہم ہیں کہ اس بات سے لاشعوری اختیار کی ہوئی ہے کہ ہمارے بنیادی ضروریات کیا ہیں اگر ہمیں شعور ہوتا تو اتنی چپ ہرگز نہیں ہوتی۔ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب میں اتنی بڑی ٹیکنالوجی ہاتھ میں لئے ہوئے یہ لکھتی ہو کہ ”غیرت کے قتل میں کوئی غیرت نہیں ہے“۔

یہ سائنس کا دور ہے اور اس دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ ہمیں اپنے رویہ میں لچک لانی ہوگی چیزوں کو سمجھنا ہوگا نہ کہ یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ ہماری یہی روایت ہے۔ کچھ دن پہلے کسی دوست سے بات ہو رہی تھی تو اس نے سوال کیا کہ کیا ترقی پسند سوچ کپڑوں سے دکھتی ہے تو میں نے جواب دیا کہ میرے خیال میں ہر وہ انسان ترقی پسند ہے جس میں لچک ہو ہر تبدیلی کو قبول کرنے کی۔ جب ہم لچک پذیر ہوں گے تو ہم چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور بہت حد تک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم بھی انسانی ترقی میں ہاتھ بٹانے لگیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).