خوشگوار زندگی چاہیے تو مثبت اندازِ فکر اپنائیے!


سوچ اور فکر کا جنم بھی ابنِ آدم تخلیق کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ قدرت نے جب اشرف المخلوقات کو روئے زمین پر اُتارا تو اس کے ساتھ باعث وجہ بنی۔ یہاں سے ایک بات اور چل نکلتی ہے کہ سوچ اور فکر بھی دو طرح کی ہوتی ہیں ایک مثبت سوچ ہوتی ہے اور دوسری منفی سوچ۔ مثبت اور منفی سوچوں کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے سب نے اپنے اپنے امول متعین کیے ہوئے ہیں۔ اور کبھی وہ اصول معاشرتی ہوتے ہیں اور کبھی معاشی، خیر سب کے اپنے اپنے اصول کار فرما ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا ادراک لوگ کرواتے ہیں کہ آپ کی سوچ بڑی مثبت ہے اور بڑی منفی۔ مثبت سوچ کے لوگوں کو تو ہم اکثر بڑا دل کر کے منہ پر کہہ بیٹھتے ہیں۔ اب یہ تعریف ہوتی ہے یا خوشامد۔ سامنے والے سے کوئی مفاد نہ ہو تو اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تعریف تھی ورنہ دوسری صورتحال میں مجھے یہاں لکھ کر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

اب آتے ہیں منفی سوچ کی طرف اس کا اظہارِ خیال ہم اکثر لوگوں کے پیٹ پیچھے کرتے ہیں کیونکہ سامنے والے کا نہ تو اتنا نہ تو اتنا بڑا دل ہوتا ہے نہ سننے کا۔ اور نہ کہنے والے کا اتنا حوصلہ۔ لیکن یہ خیال بار بار ذہن میں ہچکولے لگاتا رہا کہ ہمارے لیے اگر کوئی بات ٹھیک نہیں یا اس میں ہمارا مفاد نہیں ہے تو ہمیں یہ کہنے کا کیا حق حاصل ہے کہ اس کی سوچ کو ہی منفی کہہ دیں۔ مجھے یہ کہنے پر کوئی تامل نہیں ہے کہ قدرت نے کوئی بھی سوچ مثبت یا منفی نہیں بنائی۔ بس ہمارے عمل اسے مثبت یا منفی بناتے ہیں۔ کسی بھی سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے بہت عناصر درکا ر ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ہمارے والدین، گھریلو حالات، دوست احباب، معاشرتی رویہ، اساتذہ کی تربیت یہ سب عوامل سوچ کی تشکیل میں معاونت دیتے ہیں۔ یہاں پر مولانا جلال الدین رومی کی بات کا سہارا لے کر آگے بڑھوں گی کہ تمہاری اصل ہستی تمہاری سوچ ہے باقی تو صرف ہڈیاں اور خالی گوشت ہے۔ مثبت اور اندازِ فکر صحت مندزندگی بسر کرنے کے لیے لازمی جزو ہے۔

یہ بات کوئی افسانوی نہیں ہے کہ منفی اندازِ فکر انسان کو موت کے اور قریب کردیتا ہے۔ بلکہ کچھ عرصہ قبل امریکہ میں ماہر نفسیات اس بات کی تخلیق بھی کرچکے ہیں کہ کائنات کا شاید ہی کوئی بشر ہوگا کہ جس نے کبھی غم کا مزہ نہ چکھا ہوا۔ غم پریشانی، فکر، سوچ ہر انسان کو لاحق ہوتی ہے لیکن فکر کو ہر وقت اپنے اوپر طار ی کرلینا اور سوچ کو ایک ہی نظریے سے دیکھنا کون سی دانشمندی ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ڈپریشن کی وجہ سے شرح اموات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ ایک خاتون ماہر ِ نفسیات کرسٹائن ویر کی بات یاد آرہی ہے کہ اگر انسان مثبت اندازِ فکر کو اپنائے تو نہ صرف وہ مایوسی اور نا اُمیدی کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے بلکہ اپنی صحت کو بھی بہتر بنا سکتا ہے۔

میں اتفاق کرتی ہوں کہ لوگوں کے رویے اور انجانے میں کہی گئی باتیں انسان کی سوچ پر بہت اثر انداز ہوتی ہے۔ لیکن خدارا اپنے اردگرد کے لوگوں کو یہ سمجھنا چھوڑیں کہ وہ آپ کے دُشمن ہیں یا وہ آپ کے خلاف منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اُنہیں اپنا دوست بنائیں ان کی باتوں کو عام انداز میں لیں۔ زمین پر رہتے ہوئے انسان ہی بن کر رہیں۔ خدا بننے کی کوشش میں وقت ضائع نہ کریں۔ وہ واحد اور یکتا ہے۔ شاعر جونِ ایلیاء صاحب فرماتے ہیں کہ آؤ اختلافات پر اتفاق کرتے ہیں لوگوں کی غلطیوں اور باتوں کو معاف کرنا سیکھیں۔ غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں۔ آپ، میں ہم سب سے ہوتی ہیں۔ یقین جانیئے اس کو کرنے میں نہ تو کوئی رقم خرچ ہوتی ہے اور نہ کسی کا نقصان ہوگا۔ آپ کوشش کریں گے تو آپ کو عادت ہوجائے گی اور اچھی عادتوں کو اپنی ضرورت بنائیں۔ کیونکہ عادت وقت کے ساتھ چھوٹ جاتی ہے۔ لیکن ضرورتیں انسان اپنی ہر قیمت پر پوری کرتا ہے۔ اس لیے آپ کو اپنی سوچ کو مثبت بنانے کے لیے اپنا سہارا آپ بننا پڑے گا اور اپنے حال پر خود رحم کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).