وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے


میں قانون کا طالب علم ہوں۔ یار دوست مجھے طنزیہ طور پر قانون کا مستقل اور تا عمر طالب علم بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے عمر عزیز کا بیشتر حصہ مختلف لاء سکولز میں آتے جاتے گزارا ہے۔ قانون پڑھنے کا آغاز میں نے پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج لاہورسے کیا تھا۔ یہ لاء سکول ان دنوں پاکستان میں قانون کی تعلیم کا اول درجے کا ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت پاکستان کے چوٹی کے قانون دان ہمارے استاد تھے۔ ان میں سے کئی اس وقت پاکستان کی اعلی عدلتوں کے جج ہیں۔ ہمارے ہم جماعتوں میں بھی کئی جج اور کئی چوٹی کے وکیل ہیں۔ پاکستان سے باہر بھی مجھے چند ایک بڑے لا سکولز میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اور پھر کینیڈا کے لاء سکولز میں ایک باقاعدہ طالبعلم کی حثیت سے دوبارہ پڑھنے کی وجہ سے میں نے قانون کی نصابی کتب کو دوبار پڑھا۔

گزشتہ تیرہ چودہ برسوں سے قانون ہی میرا اوڑھنا بچھونا اور ذریعہ معاش ہے۔ چنانچہ پانامہ کیس میں میری گہری دلچسبی ایک فطری بات ہے۔ وکیلوں اور ججوں کی حثیت سے ہمارے کچھ استاد یا ہم جماعت بھی پانامہ کیس سے متعلق ہیں۔ مجھے ان کی رائے کا پورا احترام ہے۔ لیکن قانون کے طالبعلم کی حثیت سے اس کیس میں میرے لیے چندچیزیں حیرت انگیز بلکہ پریشان کن ہیں۔ ان میں پہلی بات ایک معزز جج کے یہ ریماکس تھے کہ وہ ایسا تاریخی فیصلہ کریں گے جو صدیوں تک یاد رہے گا۔ مستقبل میں کیے جانے والے اپنے ہی فیصلے کے بارے میں کسی جج کے یہ ریمارکس ایک طرح کی بھڑک، دھمکی یا پھرخود ستائشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ ریمارکس عالمی سطح پر لیگل کمیونٹی، بنچ اور بار ز کی متفقہ اخلاقیات سے ہٹ کر ہیں۔ مسلمہ اخلاقیات یہ ہے کہ ججز خود نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ یعنی ججز بیان دینے کے بجائے اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں۔

اس طرح کے ہائی پروفائل سیاسی مقدمات میں ہر فیصلہ ہی تاریخی ہوتا ہے اور برسہا برس تک یاد رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس طرح کے جتنے فیصلے ہوے ہوئے وہ تاریخی ہی تھے۔ ہمارے ہاں روزانہ لا ء سکولز کے کلاس رومز اور بارز میں درجنوں بار ان فیصلوں کا ذکرہوتا ہے۔ ان مقدمات میں مولوی تمیز الدین کیس سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کیس تک کئی کیس شامل ہیں۔ ان مقدمات کا فیصلہ کرنے والے جانتے تھے کہ ان کے یہ فیصلے تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے لیکن شاید وہ یہ نہیں جاتے تھے کہ ان کو تاریخ میں کیسے یاد کیا جائے گا۔ کن الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ اور یہ فیصلہ ظاہر ہے خود تاریخ ہی کرتی ہے۔ میرے نزدیک یہ اعلان کر کے کہ یہ فیصلہ تاریخی ہو گا فاضل جج صاحب نے دوسرے لفظوں میں یہ بتا دیا تھا کہ وہ یہ طے کر چکے ہیں کہ وہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ کریں گے۔ چونکہ اگر یہ فیصلہ نواز شریف کے حق میں ہوتا تو اس میں تاریخی والی کوئی بات نہ ہوتی۔

اس فیصلے میں میرے لیے جو دوسری پریشان کن بات ہے وہ بنچ کی تشکیل، ججز کی تعداد تھی۔ سماعت تین ججز نے کی اور فیصلے میں پانچ جج شریک ہوئے، گویا دو ججز ایسے تھے جنہوں نے پوری کارروائی کی سماعت ہی نہیں کی، وہ فیصلے کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں۔ اس فیصلے میں جو تیسری چیز لیگل کمیونٹی یعنی قانونی برادری کے لیے حیران کن ہے وہ وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کی وجہ ہے۔ مقدمے کی ساری کارروائی کا نقطہ ماس کرپشن اور منی لانڈرنگ تھی۔ مرکزی نقطہ یہ تھا کہ وزیر اعظم نے ملک سے نا جائز طریقے سے پیسہ بنا کر غیر قانونی طریقے سے باہر ارسال کیا اور اپنے بچوں کے نام پر مختلف کمپنیاں بنا کر انویسٹ کیا یا محفوظ کر لیا۔ یہ تھا اصل الزام اور کیس۔ یہ کیس عدالت نے نیپ کو ریفر کر دیا۔ اب کیس کا مرکزی نقطہ تو ایک طرف ہو گیا اور اس کی جگہ صادق و آمین کے مسئلے نے لے لی۔ گویا بقول شاعر

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔ وہ بات ان کو بہت ناگوارگزری ہے

صادق اور آمین کے اس مختلف مسئلے کو الگ مقدمے یا الگ بنچ میں سماعت کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کو فیصلے کا مرکزی نقطہ بنا دیا گیا۔ اور جس بنیاد پر یہ اتنا سنگین فیصلہ کیا گیا وہ بنیاد اتنی ٹھوس اور مضبوط نہیں ہے۔ سادہ زبان میں وزیر اعطم کو نا اہل اس لیے قرار دیا گیا کہ وہ اپنے اثاثوں میں اس آمدن کا ذکر کرنے میں ناکام رہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے وصول کرنی تھی۔ یعنی وہ ایسی آمدنی کا ذکر کرتے جو انہوں نے کبھی وصول ہی نہیں کی۔ وزیر اعظم کا اس کمپنی سے یوں تعلق ایک غیر مناسب بات ضرور ہو سکتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ اس وقت تک وزیر اعظم نے اپنے بیٹے سے کوئی ایسی وصولی نہیں کی تھی جسے ڈیکلئیر کیا جاتا۔ اور اگر صداقت اور امانت کو اس طرح کی کسوٹی پر پرکھا جا سکتا ہے تو پھر پاکستان میں کوئی سیاست دان، جج، بیوروکریٹ یا جنرل صادق و امین نہیں ہو سکتا ہے۔ اس طرح، یوں ایک شخص کو سنگل آوَٹ کر کے سزا دینا، جب کہ اپ کے سامنے درجنوں اس سے کئی زیادہ سنگین جرائم کے باوجود دندناتے پھرتے ہوں انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ یہ فیصلہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے پاکستان کے تمام موجودہ اور سابقہ اہم لوگوں یعنی تمام سیاست دانوں، بیوروکریٹس، ججوں اور جرنیلوں کو صادق اور امین کی اسی کسوٹی پر پرکھا جائے ورنہ اس فیصلے سے ذاتی بغض اور عناد کی بو اتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).