شہباز شریف کو اسلام آباد لانے کا ارادہ شائد ترک کر دیا جائے


عمران خان سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا گیا ہے۔ ایک تباہ کن بائولر کی حیثیت میں انہوں نے بائونسر پر بائونسر مارکر بہت عرصے سے کریز پر ڈٹے نواز شریف کو آئوٹ کر دیا ہے۔ نواز شریف کی ٹیم کے بقیہ کھلاڑیوں کو اب پورا موقعہ دیا جائے گا کہ وہ اپنے آخری کھلاڑی تک موجودہ اننگز کو مکمل کریں۔ ہماری ریاست کے تمام دائمی اداروں اور ہمارے معاملات کے بین الاقوامی Stakeholders قبل از وقت انتخابات کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔

چین جو اپنا یار ہے اور جس پر جان بھی نثار ہے اپنے One Belt One Road والے خواب کی تکمیل کی خاطر پاکستان میں عدم استحکام کو روکنے کے لئے خود سے منسلک ’’خاموش سفارت کاری‘‘ سے ذرا زیادہ بڑھ کر اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کو بالکل تیار ہے۔

CPEC کے حوالے سے فی الوقت سب سے اہم وہ منصوبے ہیں جنہیں معاشی ماہرین Early Harvest منصوبے کہتے ہیں۔ ان منصوبوں کی اکثریت کا تعلق بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں سے متعلق ہے۔ یہ کارخانے زیادہ تر پنجاب میں لگائے گئے ہیں۔ چین کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کے اس کاروبار کی مالی جزئیات پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بذاتِ خود مذاکرات کے کئی ادوار کے ذریعے طے کی ہیں۔ اب ان منصوبوں کو ’’شہباز سپیڈ‘‘ کے ساتھ جلد از جلد مکمل کرنا ہے۔ ان ہی اہداف کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں اب بھی یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوں کہ شہباز شریف کو 2018کے انتخابات سے قبل اسلام آباد لانے کا ارادہ ترک کر دیا جائے گا۔

CPEC کی چھتری تلے پنجاب میں چلائے منصوبوں کی بروقت اور خیروعافیت سے تکمیل کے علاوہ پنجاب میں شہباز شریف کی موجودگی کو ’’قومی سلامتی‘‘ کے چند اہم پہلوئوں کے ساتھ بھی جوڑا جا رہا ہے۔ قومی سلامتی کی حساس جزئیات پر نگاہ رکھنے والوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے اور اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پنجاب میں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے پر تلی بیٹھی قوتیں اب فرقہ وارانہ گروہوں میں موجود اپنے Assets کو Activate کریں گی۔

ہمارے کئی ’’لبرل‘‘ حضرات کی اکثریت شہباز شریف کو مذہبی انتہا پسندوں کا خیرخواہ نہ سہی ان سے خوفزدہ ضرور تصور کرتی ہے۔ قومی سلامتی سے جڑے خدشات کے بارے میں فکر مند دائمی اداروں کو مگر اس ضمن میں ’’خادم اعلیٰ‘‘ کی Management سے کوئی زیادہ شکایات نہیں ہیں۔
پنجاب پولیس ’’حساس اداروں‘‘ کی معاونت سندھ اور بلوچستان کی پولیس کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں کام کرتی نظر آتی ہے۔ شہبازشریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ نہ رہے تو ان کے جاں نشین کے لئے معاملات سنبھالنا شاید مشکل ہوجائے گا۔ اس لئے فی الوقت ترجیح Status Quo ہے۔ اس کو ہلانے کے لئے اگر کینیڈا سے کبھی کبھار پاکستان آکر دلوں کو گرمانے والے خودساختہ شیخ الاسلام نے کوئی تحریک وغیرہ چلانے کی کوشش کی تو اب کی بار شاید انہیں واپس کینیڈا جانا بھی نصیب نہیں ہو گا۔ ماضی میں موصوف کو ان کی حیثیت سے کئی زیادہ ’’قیمت‘‘ -جی ہاں میں لفظ ’’قیمت‘‘ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کر رہا ہوں- دے کر خاموش کروایا گیا تھا۔ انہوں نے اب Rate بڑھانے کے لئے ایک اور دھرنا رچانے کی کوشش کی تو گزشتہ مراعات کا حساب کتاب بھی دینا پڑجائے گا۔

اسلام آباد میں شاہد خاقان عباسی کو یقیناً ’’کھلاہاتھ‘‘ دیا جائے گا۔ مری سے آئے اس دھیمے مزاج مگر ثابت قدم اور نواز شریف کے پُرخلوص وفادار کے پاس ایک تاریخی موقعہ ہے کہ وہ قومی اسمبلی کو اس ملک کا متحرک ادارہ بناتے ہوئے کابینہ میں موجود اپنے ساتھیوں کی اجتماعی بصیرت کو بروئے کار لائیں۔ 1985ء سے 1988ء تک محمد خان جونیجو مرحوم کو بھی یہ موقعہ ملا تھا۔ جنرل ضیاء اور ان کے رفقاء مگر تاریخ کے جبر کو سمجھ ہی نہ پائے۔ طیش میں آکر ان کی حکومت کو مئی 1988ء میں فارغ کر دیا۔ اس کے بعد گیم مگر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھ میں بھی نہ رہی۔ وہ فضائی حادثے کا شکار ہوکر اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔

ضیاء اور جونیجو کے بعد 90ء کی پوری دہائی میں سیاسی اتھل پتھل رہی جس کا انجام جنرل پرویز مشرف کے لگائے مارشل لاء کی صورت دیکھنے کو ملا۔ مشرف دور کی پالیسیوں کے نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ 2017ء میں 12 اکتوبر 1999ء کو دہرانا اس ملک کو ثبات ہرگز فراہم نہیں کرے گا۔ مقامی اور غیر مقامی حقائق کا لہٰذا جبر ہے کہ شاہد خاقان عباسی، پارلیمان کو اس ملک کو ایک باوقار ادارہ بنائیں۔ خلقِ خدا کے دلوں میں پارلیمانی جمہوریت کی افادیت کو اجاگر کریں۔
کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کو جس میں عسکری اداروں کو اپنا Input دینے کا آئینی اہتمام میسر ہے، اب اپنے اجلاس بہت تواتر اور باقاعدگی کے ساتھ کرنے ہوں گے۔ ان کا تواتر سول اور عسکری قیادت کے ایک پیج پر نہ ہونے کے تاثر کو دور کرنے میں کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
مذکورہ بالا حقائق اور امکانات مجھ ایسے ازلی مایوس کے دل میں بھی پاکستان میں استحکام کی امید جگا رہے ہیں۔ اس سارے تناظر میں انگریزی والا X-Factor صرف اور صرف نواز شریف صاحب کا آئندہ لائحہ عمل ہو گا۔

حقائق خواہ کچھ بھی رہے ہوں، نواز شریف اور ان کے بے شمار چاہنے والے بہت شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ جذبات سے مغلوب ہوئے ان کے حامیوں کی شدید خواہش ہے کہ وہ عدلیہ بحالی کی تحریک والے افتخار چودھری کی طرح مری سے نکل کر ہزارہ سے پشاور پہنچیں اور پشاور سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور کا سفر کرتے ہوئے دُنیا کو اپنی Populist Base دکھائیں۔

انہیں اس امر سے باز رکھنے کے لئے Fast Track بنیادوں پر ان کی ذات اور بچوں کے خلاف احتساب کے کیس بنائے جانے کے عزم کا اظہار ہوا ہے۔ نواز شریف کو مگر ’’ڈاکٹر عاصم‘‘ نہیں بنایا جا سکتا۔ ممکنہ شو ڈائون سے بچنے کے لئے نواز شریف کو مسلسل یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 10-A کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ سے اپنے لئے Fair Trial کی استدعا کریں۔ وہ اس کے لئے تیار ہو گئے تو شہباز شریف اور خاقان عباسی کو حالات معمول پر لانے کا موقعہ نصیب ہو سکتا ہے۔

مجھے ہرگز خبر نہیں کہ نواز شریف نے اس ضمن میں کیا حتمی فیصلہ کیا ہے۔ سیاستدانوں کو مشورے دینے کی مجھے عادت نہیں۔ آپ کی طرح میں بھی منتظر ہوں کہ X-Factor کس طور ہمارے سامنے نمودار ہوتا ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).