جنگ اور محبت؛ ڈار سے بچھڑی کونجیں


میری کم سنی میں پی ٹی وی سے Cranes are flying نشر ہوئی تھی۔ اردو میڈیم بچے کو اس روسی فلم کا ایک لفظ سمجھ نہ آیا، لیکن تصویر سے کہانی سمجھ لی، اور اس فلم کا تاثر ایسا جما کہ جب کہیں کونجیں دیکھیں، اس فلم کا نام لبوں پر آ گیا۔ کونجوں کا اداسی سے، یا اداسی کا کونجوں سے کیا تعلق ہے، یہ میں نہ سمجھا، نہ آپ کو سمجھا پاوں گا؛ میرا جب جب جی اداس ہوا، لب سے ہمیشہ Cranes are flying کا ورد جاری ہو گیا؛ کیوں؟ یہ نہیں معلوم! کونجوں کو آخری بار کراچی کے ساحل پر اڑتے دیکھا تھا، اس دن بھی من اداس تھا، اب سوچتا ہوں مجھے خوش ہونا چاہیے تھا کہ وہ شہر میں امن کی نوید دیتی گزری تھیں۔

بچپن اور لڑکپن میں دیکھے چہروں، آنکھوں دیکھے واقعات، تصویروں، مناظر، کتابوں میں ناچتے الفاظ کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے جو انسان شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ جب کہیں روح سے روح مل جائے تو دھیرے دھیرے انکشاف ہوتا ہے، اس نے بھی کچھ اپنے جیسا ہی جمع کر رکھا ہے۔ میرے ایک دوست ایسے ہی تھے جو علم میں فنون میں بڑھے ہوئے تھے، مجسمہ سازی، فوٹو گرافی میں میری دل چسپی ان سے دوستی کی طرف پہلا قدم تھا، تو ”گل زار“، ”اجازت فلم کی مایا“، ”یسوع داس“، زرینہ وہاب“، باسوچٹر جی“، بیتھون کی سمفنیاں“، وین گاگ کی محبوبہ“، ”avant۔ garde“، حسین لڑکیوں کی باتیں اور بہت سے ”سنجیدہ مسائل“ پر گفت گو کے علاوہ Cranes are flying کی پسندیدگی نے اس رشتے کو مضبوط کیا۔ یاروں کی ڈار سے بچھڑی یہ کونج برطانیہ جا کے کہیں کھو گئی ہے۔

آپ خوش ہونا چاہیں تو ذرا سی بات بھی خوش کر دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر میرے ایک دوست ہیں، محمد صفی؛ ان کا تعلق پشاور سے ہے، اور یہ پشاوری دلیپ کمار کے پرستار ہیں؛ بھارت جا کے ایک دلیپ سے کیا بہت سے بالی وڈ فن کاروں سے مل آئے۔ پشاور کی کون کون سی نام ور شخصیات گزریں، صفی ان کا انسایکلو پیڈیا ہیں۔ صفی کو فلموں کے بارے میں بہت سی معلومات ہیں؛ مجھے لگتا ہے وہ عالمی ادب کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ صفی عموما ہندستانی سینما کا ذکر کرتے ہیں۔ ”اجازت فلم کی ”مایا“ ان کو بھی مطلوب ہے؛ گل زار بھی پسند ہیں؛ باسو چٹر جی کی فلموں، امول پالیکر، ٹینا منیم، زرینہ وہاب کے بھی دل دادہ ہیں؛ انھیں ریکھا بہت پسند ہیں، اور میں انھیں یہ نہیں بتا پایا کہ مجھے ریکھا کچھ خاص نہیں بھاتیں؛ اس لیے بھی نہیں بتا پاتا، کیوں کہ میں یہ جان گیا ہوں کہ وہ میرے انگلستان میں بس جانے والے دوست کی طرح ہی زود رنج ہیں۔ صفی کو سوشل میڈیا پر ”محب وطن“ پاکستانیوں کی یہ تنقید سہنا پڑتی ہے، کہ وہ پاکستانی ہو کے ہندستانی سینما، اور بھارتی فن کاروں کے گیت کیوں‌ گاتے ہیں۔ یہ فن کے قدر دان کے ساتھ زیادتی ہے۔ وطن کی ایسی جھوٹی محبت کرنے والوں سے کیا بحث کی جائے۔ خیر! گزشتہ روز Cranes are flying کا ذکر ہوا، تو محمد صفی سرحدی پھڑک اٹھے، یہ جان کر کہ میں نے یہ فلم دیکھ رکھی ہے، ان کی حیرانی دو چند ہو گئی؛ کیوں کہ وہ بھی اس فلم سے متاثر ہیں۔ ان سے باتیں کرتے خیال آیا کہ اس فلم کو دیکھے مدت ہوئی، کیوں نہ ایک بار پھر دیکھا جائے؛ سو دیکھی۔

محبت کی یہ کہانی دوسری عالمی جنگ کے پس منظر میں ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار میخایل کانسٹین ٹینووچ کلاٹوچو ہیں؛ 1957ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم روسی سینما کا نشان منزل کہلاتی ہے۔ ناقدین کی نگاہ میں Cranes are flying بے شک و شبہہ post Stalin cinema کی شاہ کار فلم ہے، جس نے روسی سینما کی راہ متعین کی۔ یہ فلم نہ صرف سوویت یونین میں سراہی کی گئی، بل کہ دنیا بھر میں پسندیدگی کے علم گاڑے۔ اور تو اور 1958ء میں Cannes film festival کا سب سے بڑا ایوارڈ (Palme d’Or (Golden palm حاصل کیا۔ فلم کی خصوصیات میں سے ایک، اس کی بہ ترین عکاسی ہے؛ اس فلم کے عکاس ہیں سرگئی یروزوسکی، جن کے کام کو سراہے جانے کے لیے الگ مضمون درکار ہے۔

کہانی کے آغاز میں ماسکو کے دو نوجوانوں بورس اور ویرونیکا کی محبت دکھاتے ہیں؛ بورس کا کزن مارک بھی ویرونیکا کو پسند کرتا ہے، وہ پیانو نواز ہے؛ لیکن ویرونیکا کو مارک میں قطعی دل چسپی نہیں ہے۔ اسی دوران (22 جون 1941ء) جرمنی، سوویت یونین پر حملہ کر دیتا ہے؛ نوجوان بورس رضا کار افواج میں شامل ہو کے محاذ پر چلا جاتا ہے، بعد میں راز کھلتا ہے کہ اس میں مارک کا ہاتھ تھا۔ فوجیوں کو الوداع کیا جا رہا ہے اور ویرونیکا، بورس کو تلاش کر رہی ہے؛ لیکن دونوں کے بیچ میں الوداعی ملاقات نہیں‌ ہو پاتی۔ یہاں کیمرا میں نے جو شاٹ لیا ہے، وہ فلم کے ان شاٹس میں سے ایک ہے، جس کو ناقدین نے بہت سراہا ہے۔ ویرونیکا محبوب کو چٹھیاں لکھ لکھ میدان جنگ کو بھیجتی ہے، لیکن بورس کی جانب سے کوئی جواب نہیں آتا۔ ایسے میں ایک دن جب ویرونیکا محفوظ مقام پر ہے، بم باری سے اس کا گھر تباہ ہو جاتا ہے، اس کے والدین ملبے میں دفن ہو جاتے ہیں؛ تب بورس کے والدین اس کو اپنے گھر لے آتے ہیں۔

ویرونیکا جہاں محبوب کی جدائی کا غم سہ رہی تھی، وہیں ماں باپ کی موت کا دکھ اس کو توڑ کے رکھ دیتا ہے۔ بورس کا کزن مارک، ویرونیکا کی دل جوئی کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ویرونیکا کا صدمہ کم نہیں ہوتا۔ ایک روز مارک پیانو بجاتا ہے، ایسے میں جنگ کے سایرن کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہاں عکاسی، ہدایت کاری اور پس پردہ آہنگ کے تاثرات کا عمدہ امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ ویرونیکا سے محبت کرنے والا مارک، اس کو محفوظ مقام پر لے جانا چاہتا ہے، لیکن ویرونیکا مر جانا چاہتی ہے، اس کو زندہ رہنے میں دل چسی نہیں ہے؛ انھی لمحات میں مارک، ویرونیکا کا ریپ کر دیتا ہے؛ ویرونیکا اتنی شرم سار ہوتی ہے کہ مارک سے شادی کرلیتی ہے، بورس کے اہل خانہ سمجھتے ہیں کہ ویرونیکا نے ان کے بیٹے سے بے وفائی کی ہے؛ لیکن ایسے میں بھی ویرونیکا کو بورس کا انتظار ہے۔ میں اس سے زیادہ فلم کی کہانی نہیں سناوں گا، ورنہ آپ کا یہ شکوہ رہے گا کہ کوئی تجسس نہ رہنے دیا؛ لہاذا جنگ کی مخالفت کرتی یہ فلم دیکھنا، اب آپ پر فرض ہوا۔

میں نے دوبارہ یہ فلم دیکھی تو رومان کی وہ کیفیت نہ پیدا ہوئی، جو پہلی بار دیکھنے پر ہوئی تھی۔ ایک تو یہ کہ کبھی کبھار آپ کا موڈ ویسا نہیں ہوتا، کہ آپ تفریح لے سکیں، لیکن یہ بھی کوئی بات نہیں ہے؛ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ہم فلم سے ویسے لطف اندوز نہیں ہو سکتے جیسے فلم کا ایک عام ناظر؛ بجائے اس کے کہ ہم فلم کا اثر لیں، ہم اس کو ناقد کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ (یہاں ”ہم“ سے مراد فلم کے طالب علم ہیں) میں اپنی بات کہوں تو عکاسی، اداکاری، موسیقی، آرٹ ڈایرکشن، ہدایت کار کی مہارت، اسکرین پلے اور مکالموں کا چناؤ کیسا ہے، اس میں الجھا رہتا ہوں۔ فلم بین ہوتے ایسے فلم دیکھنا عیب گردانا جائے گا۔ اسی لیے کبھی کوئی ناقد یہ نہیں بتا سکتا کہ فلم کام یاب رہے گی، یا فلاپ ہو جائے گی۔ اس کی پیش گوئی پر رتی بھر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ فلم کا فیصلہ فلم بین کرتا ہے۔ یہاں مجھے فرانسیسی فلم Irreversible یاد آ گئی؛ مجھے معلوم نہیں اس فلم کا یہاں ذکر بنتا ہے یا نہیں۔ اس فلم کی ایک کردار ”ایلکس ایم“ (مونیکا بلونچی) اپنے سابق بوائے فرینڈ سے کچھ ایسا کہتی ہے، کہ تم مجامعت کرتے اپنی نہیں، پارٹنر کی خوشی کا خیال رکھتے ہو، ہوش میں رہتے ہو، بے گانے نہیں ہوتے، اس لیے تمھارے ساتھ مباشرت کرتے وہ اطمینان نہیں حاصل ہوتا جو ہونا چاہیے۔ “

Cranes are flying اپنے وقت کی ایک شان دار فلم ہے۔ یہ فرد کی داخلی کیفیت کی ایک ایسی کہانی ہے، جس میں خارجی حالات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سوویت یونین کے سیاسی حالات کو مدنظر رکھیں، جہاں بالشویک انقلاب آ چکا ہے، اور اس کا پھیلاؤ دنیا بھر میں کیا جانا ہے، ایسے میں اس فلم میں وطن (سرحد) کی حفاظت کرتے جان دینے کو سراہا گیا ہے؛ سوویت یونین جہاں اس سے پہلے انقلاب کے رومان کا پروپگنڈا کیا جاتا رہا ہو، وہاں حقیقت بیان کرتی اس فلم کی ریلیز ایک اچمبھا مانا جاتا ہے۔ گرچہ اس فلم میں ”کل انسانیت“ کا درس دیا گیا ہے، جو اس سے پہلے روس کی پروپگنڈا فلموں کا خاصہ رہا ہے، لیکن فلم کے آخر میں اس خیال کو اجاگر کیا گیا ہے کہ ایک فرد وطن کی ناموس پر قربان ہوتا ہے تو کئی ہم وطن امن چین سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

آج دنیا کے حالات دیکھیں تو یہ فلم پرانی نہیں ہوئی، کیوں کہ افغانستان، عراق، شام، کشمیر اور دنیا بھر میں جہاں جہاں وطن یا سرحد کی حفاظت کے نام پر رزم ہے، وہاں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے؛ انسان رسوا ہے؛ انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے۔ لاکھوں لوگ جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں، لیکن امن اک خواب سا ہو کے رہ گیا ہے۔ جنگ ہو تو کونجیں دور دیس چلی جاتی ہیں، آلودہ فضا ہو تو اپنی اڑان بھول جاتی ہیں؛ دوست ہجرت کر جاتے ہیں، فن کے قدر دان سرحدوں میں بٹ جاتے ہیں۔ سنو! جنگ ہولناک ہے؛ اس کا لقمہ بن جانے والے کئی عاشقوں کی، کئی ویرونیکائیں آج بھی اپنے محبوب کی راہ تک رہی ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran