عمران خان کی پاپولسٹ سیاست اور نوجوان


آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حید کے اس بیان پر تو اکثریت کی طرح میں بھی چونکا تھا کہ اب آزاد کشمیر کا کس ملک سے الحاق ہو اس بارے میں سوچنا پڑے گا۔ تاہم گمان یہی تھا کہ وہ اپنی کہی بات کی تردید کر دیں گے۔ مگر یہ عمران خان کا ہی حوصلہ ہے کہ سرعام کسی اہم شخصیت کو نہ صرف ”ذلیل کمینہ“ جیسے معیوب دشنام سے پکارا بلکہ لوگوں کو مشورہ دیا کہ آزاد جموں کشمیر کے وزیراعظم کے گھر کا گھیراؤ کر لیں۔ گھیراؤ تو خیر کسی نے نہیں کیا البتہ یہ ضرور ہوا کہ گمان کے مطابق مخصوص فقرہ ”میری بات کو درست نہیں سمجھا گیا، پریس میں میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا“ کہہ کرجان چھڑا لی گئی۔

سیاسی شخصیات کے خلاف رکیک زبان کا استعمال عمران خان کا شیوہ رہا ہے۔ ”اوئے نواز شریف!“ تو وہ پہلے بھی اکثر کہتے رہے تھے۔ اوئے کہنا خالصتاً بازاری انداز بیان ہے۔ یہی انداز ان کے حواریوں نے اپنا لیا تھا۔ عمران خان کو کسی نے پاپولسٹ سیاست کرنے کا مشورہ دیا ہوگا مگر تفہیم نہیں کی ہوگی کہ پاپولسٹ پالیٹکس کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے۔ انہوں نے گلی بازار کی زبان استعمال کرکے سوچا ہوگا کہ اس طرح وہ عوام میں مقبول ہو جائیں گے۔ وہ کسی حد تک خاص حلقے میں مقبول تو ہوئے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ زبان اس معاشی معاشرتی طبقے کے نوجوانوں کو سکھا دی جن کے آباء نے ہر طرح کے حربے اختیار کرکے دولت کمائی تھی یوں گلیوں محلوں سے نکل کر پوش کالونیوں میں گھر بنائے، بچوں کو اچھے، بہتر یا بہترین سکولوں اور تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی تاکہ جیسی گلیوں کی چھاپ ان پر تھی کہیں ان کے بچوں پر نہ پڑ جائے مگر ایک بار ورلڈ کپ جیتنے والے اور اس زمانے کی جوان لڑکیوں کے دلوں کی دھڑکن بڑھا دینے والے کی ”فین شپ“ میں بندھے یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جب ملک میں موجود بدعنوانی کو، جس کا سہارا لے کر ان کے آباء نے دولت اور جائیداد بنائی، ختم کرنے کے نکلے تو ان کے رہنما نے انہیں وہی انداز گفتگو ودیعت کر دیا جس سے بچانے کے لیے ان کے والدین نے ان پر پیسہ لگایا تھا۔

یہ وہ نوجوان تھے جو کہتے تھے ”دیکھیں جی اگر پولیس ہمیں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے“۔ ان بچوں نے تو اگر سنی تھیں تو باپ کی دبی دبی گھرکیاں چنانچہ ان کے لیے پولیس کی لاٹھی، تھپڑ اور گالی برداشت کرنا توہین تھی۔ اس لیے یہ گھروں میں کمپویٹروں کے سامنے بیٹھ گئے۔ پھر کونسا ایسا صحافی، دانشور، سیاستدان یا پی ٹی آئی کا مخالف تھا جو ان کی فحش گوئی کا نشانہ نہ بنا ہو۔ اس وجہ سے عمران خان کی پاپولسٹ سیاست کو بریک لگنا شروع ہوئی۔

پھر بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور پانامہ لیکس منظر عام پر آ گئیں۔ عمران خان نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور تین مزید افراد کے ساتھ مل کر نواز شریف کے خلاف پانامہ لیکس کی بنیاد پر مقدمہ دائر کر دیا۔ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے وزیر اعظم کو صادق اور امین نہ ہونے کی وجہ سے نا اہل قرار دے ڈالا۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اس فیصلے کو اپنی ایک بڑی فتح سمجھتے ہیں۔ حالانکہ نہ نواز شریف اور ان کی فیملی کے اراکیں کی جائیداد قرق ہوئی، نہ ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد ہوئے اور نہ ہی ان کی دولت کو کسی نے چھیڑا۔

جس طرح افغانستان میں معاہدے کے تحت آئی سوویت یونین کی فوج نے معاہدے کی مدت تمام ہونے کے بعد رضاکارانہ طور پر انخلا کردیا تھا تو مجاہدین سمجھے تھے اگر بزعم خود ان کے جہاد کے باعث سوویت یونین جیسی طاقت شکست سے دوچار ہو سکتی ہے اور انجام کار منہدم۔ اسی طرح وہ امریکہ کو بھی توڑ ڈالیں گے لیکن دنیا کے دیکھا کہ ہوا اس کے برعکس۔ بعینہ عمران خان بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کو گزند پہنچا دیا اب وہ زرداری، خاقان، شہباز اور مولانا فضل الرحمان کو بھی نا اہل کروا سکتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خود خان صاحب نا اہل ہو جائیں اور نواز شریف بحال۔ چلیں ایسا نہ بھی ہو لیکن جو چھری انہوں نے تیز کروا لی ہے اس سے ہر طرف کے سیاست دان کٹتے چلے جائیں گے اور بقول عاصمہ جہانگیر کے ملک چلانے کے عمل میں سیاستدانوں کا کردار محدود سے محدود تر ہوتا جائے گا۔

پاپولسٹ سیاست دوسرے سیاستدانوں کے نقائص اجاگر کرنے کی بجائے لوگوں کے مسائل کو سامنے لا کر کی جاتی ہے۔ خاص طور پر ان مسئلوں کو اٹھایا جاتا ہے جو زبان زد عام و خاص ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ مسئلہ صرف ایک ہی ہو جبکہ عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کے نعرے کو اپنی سیاست کا محور بنایا ہوا ہے۔ ہم اپنے گزشتہ مضمون بعنوان ” بدعنوانی کا عفریت“ میں بتا چکے ہیں کہ کرپشن نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ اسباب کی پیداوار ہوتی ہے۔ کرپشن محض پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ تاحتٰی کئی یورپی ملک بھی اس لعنت کا شکار ہیں۔
پاپولسٹ طرز کی سیاست کرنے کی خاطر عوام کو بھڑکایا نہیں جاتا بلکہ لوگوں کو عارضی نوعیت کا مختصر شعور دیا جاتا ہے۔ نعرے عوامی مسائل کے حل کے دیے جاتے ہیں نہ ہی کہ مقتدر افراد کو ہٹائے جانے اور ان کے اعمال کا ٹھٹھہ اڑائے جانے کی غرض سے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے لوگوں کو جس نہج پر لگا دیا ہے وہ نہج ”بیک فائر“ کر سکتی ہے۔ اگر بفرض محال عمران خان کی پارٹی کسی نہ کسی طریقے سے برسر اقتدار آ بھی جائے تو یہی تیز کی گئی چھری ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف استعمال کی جا سکے گی۔

عمران خان کی صفوں میں جس قبیل کے لوگ رہنما بن کر شامل ہیں ان میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو دھلا ہوا ہو۔ خود کرپشن کے زور پر آگے آئے ہوئے لوگ کرپشن کا بھلا کیوں خاتمہ کرنے لگے اور کیوں کرنے لگے؟ وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے عمران خان کی مقبول شخصیت کا استعمال کر رہے ہیں جو اگر بظاہر بے دست و پا دکھائی نہ بھی دے مگر زود یا بدیر عمران خان کی شخصیت پر وہ بری طرح اثر انداز ہوتے دکھائی دیں گے۔ دماغی استعداد کو تیز کرنے والا مادہ جب استعمال ہونا رک جائے گا تو دماغ اسی تیزی سے مختل ہونا شروع ہو جاتا ہے، یہ بات سب کو یاد رکھ لینی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).