دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک


وقت اپنی رفتار سے فراٹے بھرتا ہوا آگے رواں دواں ہوتا ہے مگر بسا اوقات کچھ لوگ ماضی کے دھندلکوں میں زندگی کوبتانا ہی عقلمندی خیال کرتے ہیں۔ حالات میں چاہے جیسی مرضی جوہری تبدیلی رونما ہو جائے۔ دنیا ان کی غلطی پر تھیٹر لگا دے مگر جو اس گمان میں چلا جائے کہ عقل اس پر ختم ہے۔ وہ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ مشتاق احمد یوسفی نے زرگزشت کے عنوان سے اپنی زندگی کے ماہ و سال پر سے کچھ پردہ اٹھایا ہے۔

اپنی بنک میں ہونے والی ملازمت کے لئے دیے گئے انٹرویو کا احوال بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”مسٹر اینڈرسن نے آخری مرتبہ دھیرے سے سوال کیا کہ تم اس پیشے میں کیوں آنا چاہتے ہو۔ میں یہ سوال تمہیں انٹرویو میں فیل کرنے کے لئے نہیں پوچھ رہا اگر یہی منشا ہوتا تو میں یہ بھی پوچھ سکتا تھا کہ بتاؤ اس کتے کے والد کا کیا نام ہے؟ ہو! ہو! میرا تقرر مسٹر ایم اے اصفحانی نے اورینٹ ایئر ویز میں کیا تھا۔ میں سول سروس چھوڑ کر ہندوستان سے کراچی آیا۔ یہاں معلوم ہوا کہ حال ہی ایک ہوائی جہاز گر گیا ہے۔ تم پائلٹ ہو؟ نہیں تو! ایئر کریش میں وفات پانے کے لئے آدمی کا پائلٹ ہونا ضروری نہیں۔ سر مجھے یوں بھی ہوائی جہاز سے سخت نفرت ہے۔ ہم نے جھوٹ بولا۔ ہاہاہا عالی دماغ لوگ ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔ مجھے بھی اس شیطانی ایجاد سے سخت چڑ ہے۔ سمندری سفر سے بہتر کوئی سفر نہیں۔ شاہی سواری صرف ایک ہے۔ اسٹیمر۔ سب سے بڑی خوبی یہ کہ چوبیس گھنٹے کا سفر چوبیس دن میں طے ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ فری ڈرنکس میں تو پچھلے تیس سال سے لندن سے ہمیشہ بحری جہاز سے آتا ہوں۔ “

نتیجتاً مشتاق احمد یوسفی بنک میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ وجہ کیا بنی سوائے مضحکہ خیز ہونے کے کچھ نہیں۔ پیٹھ پیچھے مذاق اڑایا جائے۔ تحریروں میں چٹکلے کے طور پر بیان کیا جائے۔ مگر ایسے افراد پر اثر ندارد ہے۔ اور یہ معاملہ صرف فرد پر انفرادی حیثیت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ماضی میں زندہ رہنے اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے کا خنانس کہیں بھی بھرا ہوتا ہے۔ چاہے وہ باقاعدہ سرکاری ملازمت میں ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان میں بار بار سیاسی نظام کو تہہ بالا ہوتے دیکھا۔ کبھی کسی بہانے کبھی کسی بہانے۔ سیاستدان یا سیاسی عمل کو فارغ کیا جاتا رہا مگر اس سب کے باوجود عملی شکل یہ سامنے آئی کہ جتنے مرضی ایبڈو لگائے کہ نا اہل کیا گیا ہے۔ مگر سیاسی حمایت کو سیاستدان سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ تختہ دار پر لٹکایا گیا مگر سیاست دان کا سحر قبر سے بھی جاری رہا۔ جلا وطن کر دیا گیا مگر اپنے ہوتے ہوئے اپنے زیر نگرانی انتخابات میں سب سے بڑے صوبے میں کامیاب تک ہونے سے نہیں روکا جا سکا۔

دنیا نے اس معاملے کو بھانپ لیا کہ سیاسی بے یقینی یا پس پردہ کھیل سے ماسوائے اپنے ملک کے اور کسی اثاثے کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ جمہوریت میں شعوری ترقی کہ جس کے ثمرات سماجی اور معاشی ترقی کی صورت میں نمود ار ہوتے ہیں۔ ہر اس ملک کی بنیادی ضرورت قرار پائی کہ جن ممالک نے ترقی کی منزلیں سر کر لیں اور جہاں کہیں بار بار جمہوریت کا سر قلم کر کے اس کا خاتمہ یا صرف لیبل تک رہنے دیا گیا وہاں نہ شعوری ترقی ہوئی اور نہ ہی سماجی یا معاشی اعتبار سے کوئی قابل قدر تبدیلی رونما ہوئی۔ وہ اسٹیمر میں بیٹھ کر شاہی سواری کا مزہ لیتے ہوئے چوبیس گھنٹے کا سفر چوبیس دنوں میں فری ڈرنکس کے چکر میں ہی کر رہے ہیں۔ کہ جمہوریت شیطانی ایجاد ہے۔ وطن عزیز میں ایک دوسرا مسئلہ بھی بھر پور طریقے سے موجود ہے کہ سیاسی اختلاف ذاتی دشمنی تک چلا جاتا ہے۔ اور پھر دشمن کو گرانے کے واسطے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔

موجودہ حالات میں تو یہ مخالفت اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک میں بھی زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ جب 1998؁ء میں پاکستان نے ایٹمی دھمکاکے کیے تو راقم الحروف اسلام آباد میں موجود تھا۔ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے شفقت بھرا تعلق تھا جو آج بھی قائم ہے۔ ان سے ملاقات کی غرض سے پہنچا تو اتنے بڑے واقع کے بعد لامحالہ گفتگو بھی اسی پر ہونی تھی۔ ان سے کہا کہ مبارک ہو پاکستان اس مشکل گھڑی سے نکل گیا ہے۔ تو جنرل اسلم بیگ مسکرائے اور کہنے لگے لیکن نوازشریف کی مشکلات کا آغاز ہو گیا۔ اتنے بڑ ے فیصلے کے بعد ان کو اس کی قیمت چکانی پڑ ے گی۔ اور پھر مشرف کی آمریت، طیارہ ہائی جیکنگ کیس اور جلاوطنی کی صورت میں قیمت چکانا پڑی۔

جب سی پیک کے معاملات اپنی حتمی منظوری کو پہنچنے والے تھے تو اس وقت اس کو متنازعہ کرنیکے واسطے مخالفین نے ہر حربہ استعمال کیا۔ یہاں تک کہ چینی صدر کی آمد تک کے حوالے سے انتہائی نامناسب گفتگو تک کی گئی۔ اسلام آباد میں پورا اسٹیج لگا دی گیا۔ مگر ڈرامہ فلاپ ہو گیا۔ لیکن سی پیک کا معاہدہ کرنے کی پاداش میں جو قیمت ادا کرنے کو نوازشریف کے لئے لازم قرار دیا گیا اس تک قدم بڑھتے بڑھتے موجودہ حالات تک آ گئے ہیں۔ اور اب اس سے ملک کو بغیر کسی نقصان نکالنا ہی اصل کامیابی ہو گی۔ مگر مسئلہ یہ بھی ہے کہ جمہوریت کو شیطانی ایجاد قرار دینے والے اور اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقلمند سمجھنے والے اکثر معاملات پر کسی طرح ٹلنے ے لئے تیار ہی نہیں۔ ماضی کے تجربوں میں زندگی گزارے جا رہے ہیں۔ حالانہ یہ تجربے قوم کے لئے بہت تلخ رہے۔

امریکہ کے مقبول شاعر رابرٹ فراسٹ سے کسی نے دریافت کیا وہ کونسا واقعہ ہے جو آپ کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا۔ فراسٹ نے جواب دیا جب میں 12 سال کا تھا تو ایک موچی کے ہاں کام کرتا تھا اور دن بھر منہ میں کیلیں دبائے پھرتا تھا۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں اور جس مقام پر بھی ہوں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ سانس لیتے وقت میں نے وہ کیلیں اور کوکے نہیں نگلے۔ سازش کی کیلیں اور کوکے منہ میں رکھ دیے گئے ہیں۔ کمال یہ ہو گا کہ سانس بھی چلتا رہے اور وقت آنے پر ان کو تھوک بھی دیا جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).