رشتہ کرانے والیوں کی عیاریاں


برا نہ مانئے گا آپ کی بڑی بیٹی کی تو عمر نکل چکی اب چھوٹی کی فکر کیجئے، رشتہ کرانے والی چٹاخ پٹاخ خاتون نے چبا چبا کر جتانے کے انداز میں فون پر اپنی ایک ذمہ داری سے تو کندھا جھاڑ لیا وہ ذمہ داری جس کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے لئے وہ کئی مواقعوں پر چالیس ہزار روپے وصول کرچکی تھیں، چھ رشتے گھر بجھوائے جن میں سے پانچ نے پسند نہیں کیا ایک نے کیا تو بعد میں معلوم چلا کہ لڑکے کی یہ دوسری شادی ہے۔ اسے لڑکی کے گھر والوں نے مسترد کردیا۔ کیوں کر دیتے وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ اس لڑکے کو جو پہلے سے شادی شدہ اور ایک بچے کا باپ بھی تھا۔ ان کی بیٹی اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ گھریلو لڑکی تھی۔ ادب و آداب سے واقف اور مشرقی روایات اس میں رچی بسی تھیں لیکن وہ کسی کو پسند نہیں آتی تھی۔ جبکہ اس کے نین نقش بھی کوئی عام سے نہ تھے۔ وہ اپنے والدین پر کسی صورت بوجھ نہ تھی لیکن اسے اپنا آپ بوجھ محسوس ہونے لگا کیوں کہ اس کے اردگرد بسنے والوں جس میں اس کے رشتے دار، کزنز، خالائیں، پھپیاں اور آس پڑوس جب بھی اسے دیکھتا جھٹ سے اس کی ماں کو ایک سوال کرتا کب کر رہی ہیں آپ اس کی شادی؟

اسے یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے گھر والوں کو اتنی بھاری نہیں جتنی اس معاشرے کو ہے۔ اس روز جب اس کی یونیورسٹی کی وہ دوست جس کی شادی کو چند ماہ ہوئے اور وہ تمام دوستوں سے ملنے آئی تو لہجے میں غرور اور انداز میں تکبر سجائے اس نے ان تمام دوستوں کو حکم صادر کیا کہ اب تم لوگ بھی شادی کرلو کب تک بیٹھی رہوگی؟ جس پر ایک منچلی سہیلی جس کی زبان کبھی تالو سے نہ لگی تھی اس نے کہہ ڈالا کہ تم یہ جملہ اگر اپنی شادی کے پانچ برس بعد کہتی تو چجتا بھی لیکن ابھی تمہاری زبان سے سن کر یہی لگا کہ تعلیم تمہارا کچھ سنوار نہ سکی۔

ہم ترقی کے جس دور سے گزر رہے ہیں وہاں اب لوگوں کو اتنی سمجھ آچکی ہے کہ لوڈ شیڈنگ تو ختم ہونی نہیں گھر کو یو پی ایس سے منسلک کردینا ہی بہتر ہے، کھانا گرم کرنے کے لئے ہر وقت چولہا کیا جلانا مائیکروویو زیادہ فائدے مند ہے، سمندر پار بیٹھے رشتے داروں سے رابطے پر لینڈ لائن نمبر سے بات کر کے بل کیا بڑھانا اسمارٹ فون پر واٹس ایپ کے ذریعے مفت بات کرنا بہترین ہے۔ کون گھنٹوں ہاتھ سے یا واشنگ مشین سے کپڑے دھو کر کمر درد برداشت کرے جب کہ آٹومیٹک مشین مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ ہم نے ہر سہولت پائی، متبادل بھی ڈھونڈ لئے لیکن سوچ کے معاملے میں تاحال وہی کھڑے ہیں جہاں جمی دلدل کئی عاقلوں کو نگل گئی۔ ہم آج بھی معاشرے کی سنتے ہیں۔ ان کے کہے پر کان دھرتے ہیں، ان کے الفاظ کو دلیل اور فیصلہ مانتے ہیں اور پھر وہی کرتے چلے جاتے ہیں جو وہ ہمیں بتاتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ ان کا کام تو صرف باتیں بنانا ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو آج رشتہ کرنے والیوں کا کاروبار یوں نہ پلتا پھولتا، ایک دہائی میں اس بزنس نے مارکیٹ میں اپنی وہ دھاک بٹھا لی ہے کہ ہر کوئی ان کی خد مات لینے پر مجبور ہے۔ رشتہ کرانے والیاں یہ بزنس کیسے کر رہی ہیں اور ان کے پاس رشتے کیسے آتے ہیں یہ ایک نہ سمجھ میں آنے والی گتھی تھی لیکن سلجھانا بھی ضروری تھا۔ ایک سیاسی جماعت کے ایونٹ کی کوریج میں رپورٹنگ کی غرض سے جانا ہوا تو وہاں ایک بڑے اخبار کے پرانے واقف کار نے اپنی ماسٹرز سے فارغ التحصیل ہوئی بیٹی سے تعارف کروایا میں اسی لڑکی کے ساتھ بیٹھ گئی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ جس اسکول میں ٹیچر ہے وہیں اس کی ایک کولیگ کی شادی طے پاگئی۔ تین روز قبل تمام کولیگس نے مشترکہ تحفہ لیا اور دلہن کے گھر مہندی میں شرکت کی۔ شادی دو روز بعد تھی لیکن اگلے روز معلوم ہوا کہ شادی ختم ہوچکی۔ لڑکے والوں نے مہندی کی رات لڑکی والوں سے ہال کے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ کراچی میں تیز بارشیں ہیں ان کے مہمان بہت دور سے آنے ہیں اور کچھ مہمان وی آئی پیز ہیں اس لئے فوری طور پر کوئی ایئر کنڈیشنڈ بینکوئیٹ بک کروایا جائے جو ہال بک ہے وہ انھیں پسند نہیں۔

شادی کے کارڈز چھپ کر بیس روز قبل تقسیم ہوچکے تھے، لڑکی کا جہیز بھی لڑکے والوں کے گھر جاچکا تھا اور اب ایسے وقت میں ایسی فرمائش کا آنا سمجھ سے بالاتر تھا، لڑکی یتیم بھی تھی اور اس کا کوئی بھائی بھی نہیں تھا چھ بہنوں پر مشتمل یہ گھرانہ ایک بیوہ اور مطلقہ بہن کو سنبھالے بیٹھا تھا دو بہنوں کی شادی کی عمر نکل چکی تھی اور یہ سب سے چھوٹی بہن تھی جس نے ٹیوشن اور ٹیچنگ کر کر کے اپنا جہیز بنایا تھا اور پڑوسن کے کہنے پر اس کی ماں نے رشتے کرانے والی کو اپنی بیٹی کے رشتے کی ذمہ داری سونپی تھی جو پہلے ہی اپنی فیس وصول کر کے کہہ چکی تھی کہ رشتہ کرانا ہماری ذمہ داری اور شادی ناکام ہونا آپ کی قسمت۔ اب تاریک قسمت کے جھکڑ اس گھر پر دستک دے رہے تھے۔ فوری طور پر منت سماجت سے بات شروع ہوئی لیکن سامنے سے سختی برقرار رہی اور پھر جب تک خاندان کے ان بزرگوں اور بڑوں کو شامل کیا گیا جنھوں نے کبھی بھی ان یتیم بچیوں کے سر پر ہاتھ نہ رکھا تھا۔ تب تک دیر ہوچکی تھی، لڑکے والوں کے گھر تالا لگا تھا اور یہ معلوم ہوا کہ وہ کچھ عرصہ قبل ہی شفٹ ہوئے تھے اور کل کہیں اور شفٹ کر گئے ہیں۔

رشتہ کرانے والی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس بھی یہ رشتہ رجسٹریشن کے ذریعے آیا تھا اب وہ ہر کسی کی شخصی ضمانت تو لینے دینے سے رہی۔ واقعہ بہت دل سوز تھا میں سمجھ سکتی تھی کہ اس گھر کی عورتوں پر کیا گزر رہی ہوگی خاص کر اس لڑکی اوراس کی بیوہ ماں پر لیکن یہ تسلی کہ شکر ہے یہ سب شادی کے بعد نہ ہوا اور لڑکی گھر نہیں بھیج دی گئی اس نقصان سے کہیں کم ہے جو رشتہ ٹوٹنے اور جہیز لوٹنے کے واقعے کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ ایک واقعہ ہے اب آتے ہیں اس ہیر پھیر پر جو اگر پکڑی جائے تو کیا ہوتا ہے۔

میری ایک دوست نے مجھے بہت خوشی سے یہ خبر دی کہ اس کی بڑی بہن کی بالاخر بات طے ہوگئی ہے وہ بہن جس سے دو چھوٹی بہنوں کی شادی ہوچکی تھی اور شادی بھی ایسی کہ نہ ہونے کے برابر ایک کا شوہر تین برسوں سے باہر نہیں بلارہا تھا اور ایک کا شوہر کچھ کماتا نہیں تھا اس کی کفالت بھی اس کے میکے کی ذمہ داری تھی۔ اس کی بہن کی نسبت طے پاجانے پر خوشی بہت ہوئی اور اس نے بتایا کہ سادگی سے منگنی کردی گئی ہے جلد شادی کی تاریخ پکی ہوجائے گی۔ لڑکا بینک میں ملازم ہے اور فیملی بھی مختصر ہے ایک بہن شادی شدہ لندن میں مقیم ہے اور والد حیات نہیں صرف وہ اور اس کی والدہ ہیں۔ یہ رشتہ کرانے پر رشتے والی نے رجسٹریشن کے دس ہزار کے بعد پچاس ہزار اور وصول کیے۔ اب شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں اگلے چھ ماہ بعد معلوم ہوا کہ منگنی ٹوٹ گئی ہے، سن کر افسوس ہوا لیکن منگنی ٹوٹی کیوں؟ یہ سوال ذہن میں موجود تھا۔

میری دوست کی کزن اسی محلے میں رہتی تھی اور وہ اس منگنی میں شریک بھی تھی، اسی رشتے دار کی یونیورسٹی فیلو کی بہن کا رشتہ بھی ایک مسئلہ بنا ہوا تھا جب طے ہوا تو دھوم دھام سے خوشی منا کر اس تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ بہن کی رشتے کی خوشی اتنی تھی کہ اس نے اپنی چند دوستوں کو بھی مدعو کیا جس میں ایک یہ بھی تھی جب یہ اس تقریب میں پہنچی تو دیکھا کہ اسٹیج پر وہی لڑکا بمعہ اہل عیال لفافے وصول کر رہا ہے جو اس کی تایا کی بیٹی سے چار ماہ قبل منسوب تھا، اور وہاں اس خوشی میں شریک رشتہ کرانے والی بھی موجود تھی جسے پروٹوکول کے علاوہ جوڑے اور لفافے سے بھی نوازا گیا تھا۔ رشتہ کرانے والی کو بھی وہ ایسے پہچانی کے تائی کی تعریف کے بعد انھوں نے بھی اس کے پاس اپنی بہن کے رشتے کی رجسٹریشن کر دی تھی اور لگاتار رشتوں کی لائن لگ گئی تھی۔ اس لڑکی کے اوسان خطا ہوگئے اور وہ اس خوف سے کہ ہر جانب دھوم دھام منگنی کی تقریب پر لاکھوں کا خرچہ، دھول ڈھمکا اس کی گھبراہٹ کو ختم نہ کرسکا اور اس نے موبائل سے ثبوت کے لئے فوری طور پر تصاویر بنائیں اور خاموشی سے کہ لڑکے والے اور رشتے والی اسے پہنچان نہ لیں تقریب سے نکل کر آگئیں۔ مختصرمیری دوست نے بتایا کہ ایک ہی وقت میں دو لڑکیوں کے ساتھ دھوکہ فراڈ پر ہم دونوں متاثرہ خاندانوں نے ناکوں چنے چبوانے کا انتظام کرلیا ہے اور جو معلومات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ یہ لڑکا رشتے کرانے والی نے پرافیشنل رکھا ہے ہمیں بینک کی نوکری بتائی جو درست تھی لیکن اگلوں کو باہر کا بتایا۔ ہمارے گھر آنے والی ماں حقیقی نہیں تھی اور دوسرے تقریب میں موجود رشتے دار بھی اصل نہیں تھے۔

اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ رشتہ کرتے وقت ٹھیک ٹھاک چھان بین کیوں نہیں کی گئی؟ تو اس نے جو بتایا وہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب ایک گھر میں بیٹیاں زیادہ ہوں اور ان کی عمریں نکل رہی ہوں اور اس پر دور حاضر کے لڑکوں کی ڈیمانڈ بھی منہ زور ہوں تو والدین کمزور پڑنے لگتے ہیں ایسے میں انھیں رشتہ کرانے والی ایک سہارا لگنے لگتی ہے۔ شروع میں جتنے بھی رشتے بھیجے جاتے ہیں وہ بری طرح سے لڑکی کو مسترد کرتے جاتے ہیں جس کے باعث لڑکی کے ساتھ ساتھ دیگر خاندان کے افراد اور والدین بھی اس انکار کو بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں لڑکی پر یہ دباؤ بڑھتا جاتا ہے کہ وہ اس قابل ہے ہی نہیں۔ اور ان سب کو کروانے والی کوئی اور نہیں رشتے کرانے والی ہی ہوتی ہے جو لڑکی کے گھرانے کی نفسیات سے کھیلنا بخوبی جانتی ہے۔

پے در پے مسترد ہونے کے بعد ایک ایسا رشتہ آتا ہے جو عاجزی انکساری کے ساتھ ان کی مسترد کرنے کے داغ لئے بیٹی کو قبول کرتا ہے تو ایسے میں صرف یہ ہوتا ہے کہ کہیں قسمت اپنا دروازہ بند نہ کردے۔ کہیں خدا ناراض نہ ہوجائے۔ کہیں وہ اسے ہمارا تکبرنہ تصور کرے، کہیں دیر نہ ہوجائے یہ احساس دل میں نرمی بھی ڈالتا ہے اور اللہ مالک ہے جیسے جملے کی تسلی کو ہماری صبح شام کی تسبیح بنا دیتا ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ یہ فیصلے اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ ہمیں مشکل سے نکال دیتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایک لڑکی کی زندگی کو اس نہج پر لانے اور اسے سماج کے سامنے بوجھ بنانے سے لے کر مسترد کی سنگ سار کردینے والی سزا بھی ہم ہی دلواتے ہیں۔ بات تلخ ہے لیکن حقیقت پر مبنی ہے۔

ایک بار میں دفتر سے گھر لوٹی تو اپنی امی کو بڑے غصے میں دیکھا۔ چائے سے فارغ ہونے کے بعد جب میں نے محسوس کیا کہ ان کا غصہ کچھ کم ہے تو ان کے خراب موڈ کی وجہ پوچھی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی ایک رشتے کی بھانجی کی زمانے بعد ان کے پاس کال آئی اور پھر قصہ شادی بیاہوں پر جانکلا۔ بھانجی نے فرمایا کہ آنٹی معذرت آپ کی صاحبزادی کی شادی ہو بھی تو کیسے؟ وہ ان لڑکیوں کی طرح ہے ہی نہیں جو آج کل کے لڑکوں کی ڈیمانڈ ہے ہمیں معلوم ہے کہ وہ ماسٹرز ہے گولڈ میڈلسٹ بھی لیکن ہماری ماسیاں اس کے سامنے بہتر ہوں گی اسے میرے پاس کچھ دن کے لئے بھیجیں میں اسے گروم کروں کہ ڈھائی گز کے دوپٹے، اونچی سی پونی ٹیل، سادگی کا منبہ لڑکی نہیں چلے گی۔ میرے پاس آئے تو میں اس کے کسی بڑے سیلون سے کٹنگ کروا کر بال ڈائی کرواوں اور کچھ اسکن ٹریٹمنٹ کروا کر اس کے پہننے اوڑھنے کے اسٹائل بھی ماڈرن کروں۔ پھر دیکھیں کیا کمال ہوتا ہے۔ امی بتاتے ہوئے بھی غصے میں تھیں میں نے مسکراتے ہوئے کہا اگلی بار وہ ایسا کہے تو میری بات کروائے گا میں ان سے پوچھوں گی کہ اگر ماڈرن ہونا چست لباس اور سلیو لیس ہونا ہے یا میک اپ کی تہوں تلے دبے رہنا اور فرفر انگریزی کے چند رٹے رٹائے جملے بولنا ہے تو وہ شادی کو صرف سات سال کیوں چلا پائیں؟ کیونکہ نہ تو وہ ماسی ٹائپ ہیں نہ میری طرح تو پھر ان کا گھر کیوں نہیں بچ سکا؟

وہ تمام والدین اور لڑکیاں جو یہ سوچتے ہیں کہ ان کے گھر شادی کے شادیانے نہیں بج رہے تو اس سے وہ معاشرے کو کیا جواب دیں گے؟ وہ تو اپنا سر اٹھا کر نہیں چل سکتے ان کو چائیے کہ جہیز کی رقم یا منگنی کے لڈو جو وہ عزیز اقارب کے منہ میں ڈال کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ جی بالاخر ہم نے آپ کا جتایا ہوا بوجھ اتارنا شروع کردیا ہے وہ رقم بیٹی کی تعلیم پر خرچ کریں اسے اس قابل بنائیں کہ وہ گول روٹی بنانے کے ساتھ ساتھ اس دنیا کو بھی گول گول گھما سکے۔ وہ لذیذ کھانے بنانے کے ساتھ ساتھ ایسی تخلیق کرے کہ دنیا اس کے صرف کھانوں کے نہیں اس کی صلاحیت کے بھی گن گائے۔ وہ نیلے سبزکنٹیکٹ لینسز سے منافق دنیا کو دیکھنے کے بجائے اپنی آنکھوں یا موٹے فریم کے چشمے سے ہی دنیا کی اصلیت دیکھ سکے اور اس سے لڑ سکے، وہ برانڈڈ کپڑوں میں لپٹ کر احساس کمتری کو چھپانے کے بجائے ڈھائی گز کے دوپٹے، اسکارف یا کرتا جینز پہن کر بھی یہ بتاسکے کہ عورت کو مہنگے کپڑوں سے نہیں اس کی صلاحیتوں اور قابلیت سے چانچنا چائیے۔ اس میں یہ اعتماد پیدا کیجئے کہ گزرتے وقت کے ساتھ بالوں میں سفیدی آتی ہے اسے کسی نام نہاد ماڈرن بھانجی کی صلاح پر ڈائی کرنے سے نہ تو عمر واپس آتی ہے نہ ہی کوئی ماڈ شاڈ امیروں کا رشتہ۔ زندگی کے نشیب و فراز سے لڑنے اور اپنا آپ سنبھالنے کے لئے اس پر خرچ کیا جائے گا تو یقین جانئے وہ زندگی کا جہاز طوفانی تھپیڑوں کے ہوتے ہوئے بھی پر اعتماد انداز میں سمندر کنارے پہنچا دے گی۔ یقین جانئے آپ کی بیٹی بکنے والے ان بیٹوں سے کہیں بہتر ہے جو رشتے کرانے والی کے پاس پائے جاتے ہیں۔ جو اپنی بولی ہر اس گھر پر لگاتے ہیں جو بے حس معاشرے کی لعن طعن سے تنگ آکر اپنی ہیرے جیسی بیٹیوں کو ٹکے میں بکنے والوں کے حوالے کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

کبھی اپنی بیٹی سے پوچھئے تو وہ آپ سے لازمی کہے گی کہ اسے بار بار ٹرالی اور ٹرے لے کر اجنبی گاہک جیسے رشتے لانے والو ں کے سامنے جانا بہت تکلیف دیتا ہے۔ اسے ان کے سامنے بیٹھ کر اپنے اوپر ہر ایرے غیرے کی نظر کا پڑنا اپنی تذلیل لگتا ہے اسے اپنا مسترد ہونا بہت اذیت دیتا ہے وہ اذیت جو آپ کو محسوس ہوتی ہے لیکن آپ رشتے کرانے والی کی یہ بات سنکر کہ اگلی بار جو رشتہ آئے گا وہ اس سے بھی اچھا ہوگا لیکن آپ بھی تو کچھ اور رقم خرچ کریں ناں، شاید یہ آپ کو پہلی اذیت بھلا دیتا ہے لیکن آپ کی بیٹی کے پہلے زخم پر کھرنڈ بنی نہیں ہوتی اورخنجر کی دوسری ضرب لگانے والوں کے لئے وہ ایک اور ٹرالی سجا رہی ہوتی ہے اس بار اذیت کے ساتھ ساتھ گھاؤ رسنے کا کرب اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اسے پھر اپنا آپ بوجھ لگتا ہے ایسا بوجھ جو نہ اترا تو شاید اس کا گناہ اس کے اعمال میں شامل کردیا جائے گا کیونکہ وہ اپنی مرضی سے تو بیٹی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے تجربوں اور رشتہ برائے فروخت سے بچتے ہوئے اپنی بیٹی کو ظالم سماج اور معاشرے سے لڑنے کے خلاف طاقتور بنائیے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar