تعلیم، نصاب اور کارکردگی کی دوڑ


\"zeeshan یہ درست ہے کہ یورپ نے سو فیصد سے زائد شرح خواندگی صرف دو نسلوں میں ہی حاصل کر لی تھی جب حکومتوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ معاشی ترقی کے لئے تعلیم لازم ہے۔ اس یونیورسل شرح خواندگی کے حصول میں میں بنیادی کردار سرکاری تعلیمی اداروں اور سنجیدہ ریاستی پالیسیوں نے ادا کیا۔ اسی طرح حال ہی میں جنگ عظیم دوم کے بعد مشرقی ایشیائی ممالک (تائیوان، سنگا پور، ہانگ کونگ،جنوبی کوریا، اور چین وغیرہ) تقریبا سو فیصد شرح خواندگی حاصل کر چکے ہیں، جاپان نے صرف چالیس سال میں \”میجی بحالی 1868\” کے بعد یہ مقام حاصل کیا، اس کی بھی بنیادی وجہ سرکاری تعلیمی ادارے اور سنجیدہ حکومتی پالیسیاں تھیں۔ بھارت آئندہ چند برسوں میں سو فیصد شرح خواندگی حاصل کر لے گا۔ افریقہ اوسط 63 فیصد سے زائد شرح خواندگی کا حامل براعظم ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لاطینی امریکہ کی اوسط شرح خواندگی اکانوے عشاریہ پانچ فیصد ہے اور مڈل ایسٹ و سنٹرل ایشیا میں بھی اس شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

میرے علم میں کوئی ایسا پرامن ملک نہیں جہاں شرح خواندگی میں سالانہ کمی آ رہی ہو۔ ان ممالک میں شرح خواندگی میں اضافہ کی بڑی وجہ حکومتی پالیساں اور سرکاری تعلیمی ادارے ہیں۔ ہاں، نجی سیکٹر کا بھی اس میں حوصلہ افزا اور بہترین کردار ہے جس کی مثال ہمارے پڑوس میں بھارت ہے۔ مگر میرے علم میں ایسا کوئی بھی ملک نہیں جہاں محض نجی تعلیمی اداروں کے سبب نوے فیصد سے زائد شرح خواندگی حاصل کر لی گئی ہو۔

\"schoolgirls-photo-camp-pakistan_62029_600x450\"پاکستان میں بھی شرح خواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے،مگر اس کی رفتار کم ہے یوں وہ منزل بہت دور دکھائی دے رہی ہے جب یہاں ہر شہری تعلیم کی دولت سے مالا مال ہو گا۔ پنجاب میں شرح خواندگی 63 فیصد ہے جو نسبتا سب سے زیادہ خوشحال صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں سرکاری تعلیمی اداروں اور نجی تعلیمی اداروں کی افادیت پر ایک عوامی بحث موجود ہے۔ آئیے اس کے کچھ نئے پہلوؤں پر غور کرتے ہیں۔

اہم مسئلہ کوالٹی کا ہے۔ جہاں بھی تعلیم سرکاری بندوبست کے تحت ہے وہاں کا سرکاری نصاب ریاستی بیانیہ کو ہی آگے لاتا ہے۔ یوں کلاس اول سے اعلیٰ تعلیم تک ایک طالب علم بار بار ریاستی بیانیہ کو پڑھ پڑھ اور سن سن کر سٹیٹس کو کا نظریاتی حامی بن جاتا ہے۔ یہ عمومی نصاب ہر طالب علم کی ذاتی انفرادی استعداد کے مطابق نہیں بلکہ ایک عام اوسط درجہ کی ذہانت اور نفسیات کو مدنظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے، یوں ان دونوں اسباب کی بدولت طلباء میں تنقیدی و تعمیری صلاحیتوں کی افزائش کا امکان انتہائی کم ہوتا ہے۔ یہی صورتحال ہم افریقی، لاطینی، مشرق وسطیٰ، بھارت، روس، چین سمیت تمام ممالک میں دیکھ سکتے ہیں۔

یہ صورتحال نجی انتظام میں چلنے والے تعلیمی اداروں میں ذرا مختلف ہے۔ نصاب تو یہاں بھی عمومی نوعیت کا ہے جس میں تمام طلباء ایک ہی نصاب سے ہانکے جاتے ہیں۔ مگر ریاستی نظریاتی جبر یہاں نسبتا کم ہے۔ تنقیدی و تعمیری استعداد کی افزائش کے مواقع مثالی نہ سہی مگر سرکاری تعلیمی اداروں سے نسبتا بہتر ہیں۔

\"Pakistani

نصاب میں جدت پسندی بھی یقینا موجود ہے۔ مگر یہاں ایک سنجیدہ مسئلہ بھی ہمیں آڑے ہاتھوں لیتا ہے وہ ہے، تعلیم میں طبقاتی تفریق۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ نجی تعلیمی ادارے اپنی نوعیت میں کمرشل ہیں جن کا اول مقصد نفع کا حصول اور تعلیم میں فروغ ہے، یوں ان کی ایک باقاعدہ انڈسٹری وجود رکھتی ہے۔ انڈسٹری کا یہ اصول ہوتا ہے کہ اس کی اشیاء و خدمات عوام کو ان کی قوت خرید کی بنیاد پر تقسیم کرتی ہیں۔ اس وقت نجی تعلیمی ادارے تین طبقات میں تقسیم ہیں۔

۔ معاشی طور پر طبقہ اعلیٰ کے تعلیمی ادارے

۔ متوسط طبقہ کے تعلیمی ادارے

۔ زیریں طبقہ کے تعلیمی ادارے

یہ تفریق صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا بشمول مغربی ممالک میں بھی ہے۔ معاشی طور پر بلند طبقہ، اور متوسط طبقہ کے تعلیمی ادارے اپنی کارکردگی اور نصاب کی کوالٹی کے اعتبار سے سرکاری اداروں سے بہتر ہوتے ہیں مگر زیریں طبقہ کے نجی تعلیمی اداروں کی کوالٹی و کارکردگی سرکاری اداروں سے بہتر نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات کم ہی ہوتی ہے۔ اس طبقاتی تقسیم سے مواقع کی مساوات کی ثقافت بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ مواقع کی مساوات اپنی بہترین صلاحیت میں تب کام کرتی ہے جب تعلیم و صحت کی سہولیات تمام شہریوں کو بہترین کوالٹی میں حاصل ہوں وگرنہ عدم مساوات کی ثقافت آہستہ آہستہ مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ پالیسی ساز اداروں کے لئے اس نقطہ پر غور و فکر کرنا ازحد ضروری ہے۔

\"pc-donation-north\"امریکہ میں بھی معاشی عدم مساوات کے جو اعداد و شمار ہمیں دستیاب ہیں وہ بتاتے ہیں کہ تعلیمی مواقع میں عدم مساوات معیشت میں عدم مساوات کو جنم دے رہی ہے کیونکہ جب فارغ التحصیل طلباء ذہنی صلاحیتوں اور استعداد میں مختلف ہوں گے تو مواقع کی مساوات فطری طور پر زیادہ باصلاحیت کے لئے راہ ہموار کرے گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسکول اور گھر کسی بھی طالب علم کی ذہنی استعداد و صلاحیتوں کی افزائش میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔

حکومت پنجاب نے سرکاری اداروں کی کارکردگی میں اضافہ کے بجائے زیریں طبقہ کے طلباء کو اوسط طبقہ کے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دلانے کے لئے ایک ادارہ (پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن) قائم کیا جس کی رو سے زیریں طبقہ کے طلبا کی فیس حکومت خود ادا کر رہی ہے۔ مگر یہاں بنیادی محرکات (incentive) میں تبدیلی نے نجی تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو بھی بدل دیا ہے۔ حکومت سے الحاق کے بعد اب یہ نجی ادارے بچوں کے والدین کے بجائے بیوروکریسی کے زیادہ جوابدہ ہو گئے ہیں نتیجہ وہی ہے کہ ان کی کارکردگی آہستہ آہستہ ڈھلوانی راستوں سے اسی مقام پر جا رہی ہے جہاں پر بے لگام سرکاری تعلیمی ادارے پائے جاتے ہیں۔

پالیسی سازوں کو نئے اقدامات سے پہلے اب تک کی پالیسیز کے نتائج پر غور کرنا چاہئے۔ تعلیم و صحت قوم کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہیں۔ ان پر انتہائی سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments