میں، عائشہ گلا لئی۔ میں قوم پہ قربان ہو گئی!


عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
فروغِ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

دو دن سے آپ سب میری باتیں سن بھی رہے ہیں اور اپنی اپنی آراء بھی دے رہے ہیں۔ میں آپ کی شکر گزار ہوں۔ میرا تعارف آپ سب جانتے ہیں۔ میں نیشنل اسمبلی کی ممبر ہوں اور یہ اعزاز مجھے بلا شبہ پی ٹی آئی کے پلیٹفارم سے ملا۔ میرا سیاست میں آنے کا مقصد اپنے ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ ہے اور کچھ نہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو ہمیشہ کچھ بڑ ا کر گزرنے کا نہ صرف خواب دیکھتے ہیں بلکہ کر گزرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے کبھی گنواتے نہیں۔ میں اپنے وطن کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے میں یقین رکھتی ہوں۔ جو کچھ میں گزشتہ دو روز سے کہہ اور کر رہی ہوں، یہ اس کا واضح ثبوت ہے۔

آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ میں ثبوت کی بات کر رہی ہوں جس نے اتنے گھناؤنے الزامات لگائے عمران خان اور پی ٹی آئی پر اور ایک بھی ثبوت پیش نہ کیا۔ میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میرا کوئی ثبوت پیش نہ کرنا اپنے اندر ایک دلیل ہے کہ میں نے خود کو، اپنی عصمت کو اور اپنے مستقبل کو اپنی قوم پہ قربان کر دیا۔ شاید اس سے بڑی خدمت میں اپنے پاکستان کی عمر بھر کبھی نہ کر پاتی ( شاید آنے والے سالوں میں بھی نہ کر پاؤں)۔

پی ٹی آئی نے جس طرح نواز حکومت کی کرپشن کو بے نقاب کیا، کسی اور پارٹی میں یہ دم کہاں تھا۔ یہاں تو سب اپنی اپنی کرپشن چھپانے میں لگے تھے۔ ہم نے حقائق کھول کر پوری قوم کے سامنے رکھ دیے۔ آج سب سچ جانتے ہیں۔ اور گزشتہ دو روز سے جو کچھ آپ نے میری زبانی سنا، وہ بھی بڑی حقیقتیں بیان کر گیا۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ میں جن ٹیکسٹ میسجز کا ذکر کر رہی ہوں کہ عمران خان صاحب نے مجھے کیے، اگر ان کو منظرِ عام پہ لانا مناسب نہیں تھا تو کیا ان کی نوعیت بتانا بھی نا ممکن تھا؟ اگر یہ سچ ہوتا تو اس سے بڑھ کر تو کوئی موقع ہی نہ تھا عمران خان کو رسوا کرنے کا۔ جس شخص کے بچوں کی ماں، سابقہ بیوی ہوتے ہوئے آج بھی اسکی ایمانداری کا دم بھرتی ہو، جس کی دوسری (مطلقہ) بیوی کے پاس کوئی ایسی بات نہ ہو کہ عوام میں آ کے اپنی طلاق کا کوئی reasonable جواز دے سکے، اس کے بارے میں کیا ثبوت دکھا کر میں یہ معرکہ سر کر سکتی ہوں؟ جو شخص ایک مقصد کو لے کر میدانِ سیاست میں اترا ہو اور اس بات سے بخوبی واقف ہو کہ اس نے اس راہ میں اب تک صرف دشمنی ہی کمائی ہے، وہ اپنی کوئی ایسی کمزوری کسی کے سپرد کیسے کر سکتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ مخالفین کے لئے عمران خان کی کردار کشی ایک آخری حربہ ہے جو وہ استعمال کرنے میں ہر حد تک جا سکتے ہیں۔ میں آپ سے یہاں یہ کہنے حاضر ہوئی ہوں کہ وہ وقت آن پہنچا ہے۔ میں اپنی اس قربانی سے اپنے عوام کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اب جبکہ عمران خان کے جگائے ہوئے شعور کی بدولت ا س ملک کا بچہ بچہ سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔ جب ہر شخص آواز اٹھانے کے حق کو استعمال کرنا اپنا فرض سمجھنے لگا ہے تو میں یقین رکھتی ہوں کہ بظاہر رذیل نظر آنے والا میرا یہ الزام تراشی کا عمل کسی کی سمجھ سے بالا تر نہ ہو گا۔ آج یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارے روایتی سیاستدان کسی بھی حدتک ’گر‘ اور ’گرا ‘ سکتے ہیں۔

میری تمام باتوں پر ذرا غور کیجئے، سچ آپ کے سامنے خود آ کھڑا ہو گا کہ میں کیسے قربان ہو گئی اپنی قوم پہ۔ اور میری یہ قربانی کیا کیا نہ عیاں کر گئی!
آپ نے میری اور خان صاحب کی بہت سی تصاویر دیکھی ہوں گی اِن دنوں۔ کسی تصویر میں خان صاحب میری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہے۔ میرا ان سے بات کرنے کا انداز آپ کو خود بتا دے گا کہ جس عورت کو کسی مرد سے عصمت دری کا خطرہ لاحق ہو وہ اس طرح بے تکلفی کے ساتھ اسی شخص سے ہم کلام ہو ہی نہیں سکتی۔ میرا عمران خان کی طرف جھکاؤ ان پر اعتماد کی نشانی ہے۔

اور آپ خود ہی بتایئے کون سا باپ اپنی بیٹی کو خطرے کے منہ میں رکھنا چاہے گا ’مصلحت‘ کے نام پر؟ اور وہ بھی چار سال سے زیادہ عرصہ کے لئے؟ جبکہ وہ باپ ایسا روایتی ’غیرت مند ‘ ہو کہ آج ساری دنیا کے سامنے بیٹی کی عزت اچھلنے سے روکنے کو کوئی ’مصلحت‘ اختیار نہ کرتا ہو اور اسے دنیا کے سامنے لا کھڑا کرتا ہو جہاں وہ ہر طرح کے گھٹیا سوال کو اپنے چہرے پہ جھیل رہی ہو۔

کیا میں کسی اور پارٹی میں پہلے شمولیت اختیار نہیں کر سکتی تھی؟ میرے سامنے سارے آپشنز ہمیشہ سے تھے۔ یا کم از کم اس پارٹی کو خیر باد تو کہہ ہی سکتی تھی۔ پھر اس وقت ہی کیوں؟ ذرا سوچئے۔
میں نے جن میسجز کا ذکر کیا ان کو منظرِ عام پہ لا کہ میں تہمت اور بہتان جیسے الزام نہ اٹھاتی بلکہ خود ثبوت پیش کرتی اور قوم کو جھوٹے شخص کا اصل چہرہ دکھاتی۔ بجائے اس کے میں نے یہ بات اسی شخص پر چھوڑ دی جس پر الزام لگایا۔ کیا آپ اس سے بھی نہیں سمجھے؟

میں نے کہا کہ خان صاحب ٹیلنٹڈ لوگوں سے جلتے ہیں۔ اس بیان کا بھی آپ خو د analysis کر لیجیے۔ ا رے، یہی تو وہ پہلا لیڈر ہے پاکستان کا جو اپنی قوم کے نوجوانوں میں شعور جگانے میں کامیاب ہوا ہے اور ہمیشہ یہی پیغام دیتا ہے کہ اپنے اندر کے ٹیلنٹ کو پہچانو اور دنیا میں کمال کر دکھاؤ، میری طرح نا ممکن کو ممکن کر دکھاؤ۔ کبھی آج تک کسی سیاسی لیڈر نے آپ کو اس طرح motivateکیا اپنی مثال سامنے رکھ کہ؟ آپ خود ہی سوچیے کہ ایک کامیاب شخص مجھ جیسی زیرِ تعلیم پارٹی ورکر سے کیوں جلے گا جس کا کریئر ابھی صحیح طرح سے شروع بھی نہیں ہوا؟
جو شخص ماں کے نام پر شوکت خانم جیسا خیر اتی ادارہ قائم کر سکتا ہے جہاں کینسر جیسے مہلک مرض کا پچھتر فیصد علاج مفت ہے، اپنی ماں کے نام ایسا صدقہء جاریہ قائم کر کے جو تاج محل اس نے بنا ڈالا، ایسی کوئی مثال کبھی د یکھی آپ نے؟ ایسا شخص قوم کی ماؤں سے دھوکہ کر سکتا ہے نہ بیٹیوں کو رسوا۔ ہاں بیٹی کے سوال پہ ان کی خاموشی کئی سوال اٹھاتی ہے۔ مگر وہ جو کسی بھی خاتون کی حرمت کے پاسدار ہوں اور جو اپنے کمزور لمحات کے گناہوں کی تشہیر سے گریزاں ہوں، وہ اس خاموشی کا مطلب سمجھنے سے قاصر نہیں۔

کیا میں نہیں جانتی کہ میری اس بات میں کتنا وزن ہو سکتا ہے کہ عمران خان پاکستان میں مغربی کلچر لانا چاہ رہے ہیں۔ کونسا مغربی کلچر؟ یہ مغربی کلچر کہ اس ملک کا ہر بچہ نہ صرف کہ تعلیم حاصل کرے بلکہ بلا تفریق تعلیم حاصل کرے۔ یہ مغربی کلچر کہ آپ کو اپنے گھر کے دروازے پر دنیا کی بہترین تعلیمی ڈگری نصیب ہو سکے۔ یہ مغربی کلچر کہ اس ملک کے اندر یہ سوچ پروان چڑھے کہ خوبصورت اور ملائم سڑکوں کو کسی منزل پر پہنچنا چاہیے ورنہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ جس سڑک یا پل کو طے کر کے آپ ایک مریض کو اچھے ہسپتال نہ لے جا سکیں، جن سڑکوں پر چلتے پھرتے نوجوانوں کی ’بے کاری‘ کے سوا کوئی منزل نہ ہو، ان سڑکوں سے زیادہ وہ منزلیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے جن کے لئے راہیں خود بن جایا کرتی ہیں۔ عمران خان اگر ایسے مغربی کلچر کا خواب دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے وسائل کا استعمال کریں نہ کہ ان کو اپنے ذاتی یا سیاسی مفادات کی خاطر بیچ کھایئں۔ ہم دنیا میں عزّت اور نام کمائیں اور ایک ماڈرن مسلم سپر پاور بن کے ابھریں۔ اگر یہ مغربی کلچر ہے تو جناب، مغرب ہی سے ہم نے یہ بھی سیکھا ہے کہ جب آپ’ خود مختار‘ ہوتے ہیں توآپ میں اپنی اقدار خود قائم کرنے کی اہلیت بھی آ جایا کرتی ہے۔

میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اس مغربی کلچر کے خواب دیکھنے والے عمران خان کی نظریں نیکر پہن کر سپورٹس کرتی لڑکیوں سے بھی خوب سیر ہیں اور مصلحت کا لبادہ اوڑھنے والی، روشن مستقبل کی خواہاں جوینئر کولیگ سے بھی گریزاں۔ جب خواب بڑے ہوتے ہیں نا! توانسان ادنیٰ لذتوں کی طرف مائل ہونے کا اہل ہی نہیں رہتا۔

یہ سب وہ باتیں ہیں جو خود ثبوت اور دلیل ہیں اس بات کا کہ میں نے جو کچھ کہا اور کیا سب، ایک سیاسی کھیل ہے۔ ۔ وہی روایتی سیاسی کھیل جس میں مجھ جیسے کمزور مہرے ہار جایا کرتے ہیں۔ مگر جس طرح ہر کھیل ایک سبق بھی سکھا جاتا ہے اس میں بھی سبق ہے۔ ا س سے بہتر انداز سے ہمارے روایتی سیاسی ہتھکنڈے بے نقاب نہ ہو سکتے تھے جیسا کہ اب ہوئے۔ اور یوں میں اپنی قوم پہ قربان ہو گئی۔ بس کوئی قربانی انسان کو عزت و تکریم عطا کرتی ہے اور کوئی، ذلت و رسوائی!

یہ ایک تخیلاتی تحریر ہے جس کی مصنفہ نبراس سہیل ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).