یہاں ٹیلرنگ اور خود کش جیکٹ پہننے کی تربیت ہوتی ہے


ماسٹر جی بہت اچھے )ٹیلر( ماسٹر ہیں اور اس بھی کہیں زیادہ اچھے آدمی ہیں۔ شرافت کی اسی مشہوری کی وجہ سے والدین ان پر اعتبار کرتے ہیں اور اپنے بچے ان کے ہاں سلائی کڑہائی کا کام سیکھنے کے لیے بھیجتے ہیں۔ ان کے پاس سلائی کڑہائی کا کام سیکھنے کی غرض سے جتنے بچے آتے ہیں وہ سب غریب گھروں سے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے امیر گھروں کے بچے تو ٹیلرنگ نہیں سیکھتے۔

ماسٹر جی کی دکان اسلام آباد کی چھوٹی لیکن مصروف مارکیٹ میں موجود ہے۔ مناسب سائز کی اس دکان میں ماسٹر جی خود اور درجن بھر بچے ہر وقت کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سارے بچے اپنے چہروں پر غربت اور بے بسی کا سٹکر لگائے ہوتے ہیں۔ ان سٹکرز پر یہ واضح لکھا ہوتا ہے کہ سارا دن سلائی مشین چلانا ان کا شوق نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ سکول جانا، گلی میں دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا تو انہیں بھی اچھا لگتا ہے مگر وہ سب انہیں میسر نہیں ہے۔ انہوں نے محنت کر کے کام سیکھنا ہے۔ پیسے کمانے کے قابل ہونا ہے اور پیٹ پالنے میں والدین کی مدد کرنا ہے۔

میں ان بچوں میں سے ایک کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ اس بچے کے والدین نے تو ضرور اس کا کوئی نام رکھا ہو گا لیکن وہ کوئی جانتا نہیں اس لیے سب لوگ اسے “بے نام” کہہ کر پکارتے ہیں۔ “بے نام” سن نہیں سکتا اس لیے بولنا بھی نہیں سیکھ سکا۔ “بے نام” کی عمر کوئی انیس بیس سال کے لگ بھگ ہو گی۔ آج سے کوئی پندرہ سال پہلے “بے نام” کلر کہار کے قریب ایک چھوٹے سے بس اڈے پر بے یارو مددگار پایا گیا۔ ایک شریف آدمی نے اسے اپنے پاس رکھ لیا اور اپنے چائے خانہ میں کام پر لگا لیا۔ “بے نام” کی زندگی تو جیسے تیسے کٹ رہی ہے اس کے والدین کی کیسی گزر رہی ہو گی یہ اولاد والے یا درد دل رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے مالک کی وفات کی وجہ سے چائے خانہ بند ہو گیا تو “بے نام” معذور بچوں کے ادارے “اظہار کا ارادہ” کے پاس آ گیا۔ ارادہ نے بے نام کو کچھ دن پاس رکھا اور اس کی دلچسپیاں سمجھنے کی کوشش کی اور اسے (ٹیلر) ماسٹر جی کی کے پاس سلائی کڑہائی سیکھنے کے لیے بھیج دیا۔ ماسٹر جی شریف آدمی ہیں انہوں نے بچے کو رکھ لیا اور اس کی ہر طرح سے حفاظت کی ذمہ داری کا یقین دلایا۔

“اظہار کا ارادہ” کے لوگ ہر مہینے بچے کو ملنے اور اس کی خیر خیریت جاننے آتے ہیں۔ بچوں نے “بے نام” کا نام شیر بہادر رکھ لیا ہے۔ لیکن “بے نام” کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ تو سنتا ہی نہیں۔

اب کی بار ارادہ کے لوگ “شیر خان” کو ملنے آئے تو دکان بند تھی۔ یہ بہت حیران کن اور غیر معمولی بات تھی کیونکہ یہ دکان کبھی بند نہیں ہوئی تھی۔ جو بچے دن کو یہاں کام سیکھتے اور کرتے ہیں ان میں سے اکثر اسی دکان میں رہتے ہیں۔ ماسٹر جی کو فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی بند ملا۔ آس پاس کا کوئی دکاندار بھی کچھ بتا نہ پایا۔

کئی گھنٹے کے انتظار کے بعد بچے واپس دکان پر پہنچے۔ ان میں شیر خان بھی تھا۔ ان سب کو خیریت سے دیکھ کر دل کو تسلی ہوئی لیکن یہ تجسس تھا کہ بچے آخر گئے کہاں تھے۔ بچوں نے اس سلسلے میں بات کرنے سے صاف انکار کر دیا کہ ماسٹر استاد جی نے منع کر رکھا ہے، تو تجسس اور پریشانی اور بڑھ گئی۔

شیر خان ملاقات کے دوران اشاروں کی زبان میں تھوڑا سا بتا سکا۔ اس سے یہ پتا چلا کہ بچے مسجد میں تھے۔ لیکن مسجد جانے کو چھپانے کی کیا ضرورت تھی۔ تجسس اور پریشانی اور بڑھتی گئی۔ کوشش کر کے ایک بچے کی منت سماجت کی اور وہ اس وعدے پر بولنے پر راضی ہوا کہ اس کی بات کو راز میں رکھا جائے گا۔

قصہ مختصر یہ کہ بچے اسلام آباد کی ایک مشہور مسجد میں تقریباً پانچ گھنٹے تک زیر تربیت تھے۔ اس دوران وہاں پر انہیں جہاد کی اہمیت پر لیکچر دیا گیا۔ جہاد سے متعلق کئی چھوٹی فلمیں دکھائی گئیں۔ شہید ہونے والے بچوں کے ریکارڈ کیے ہوئے ویڈیو بیان دکھائے گئے۔ اس سلسلے میں کوئی بڑا آدمی تربیت دینے آیا ہوا تھا کیونکہ اس ساتھ بندوق بردار گارڈز تھے جو پورا وقت وہاں موجود رہے۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں سے “جہاد” میں “شہید” ہونے والوں بچوں کی غائبانہ نماز جنازہ پڑہنے کی دعوتیں آئے روز ملتی ہیں۔ نمازیوں میں ایسے اشتہارات کھلے عام تقسیم کیے جاتے ہیں۔

یہ سن کر معلوم ہوا کہ اپنی شرافت کے لیے مشہور (ٹیلر) ماسٹر جی کس دھندے میں شامل ہیں اور اپنے پاس کام کرنے والے بچوں کے والدین کو کون سی خوش خبری دینا چاہتے ہیں۔ شیر خان شاید خود کش جیکٹ کا سب سے پہلے شکار ہو جاتا، اگر ماسٹر جی کی یہ حرکت پکڑی نہ جاتی۔

بدقسمتی سے یہ دکان کوئی اکیلی جگہ نہیں ہو گی جہاں یہ بھیڑیے بے بس اور بے یار و مددگار بچوں کا شکار کرتے ہوں گے۔

جہاں بھی غریب بچوں کے پائے جانے کا امکان ہو وہیں یہ “جہاد” والے پہنچ جاتے ہیں اور ان بچوں کی معصومیت اور والدین سے دوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں خود کش جیکٹ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ کہانی سن کر میں تو سکتے میں ہوں۔ میرا خیال تھا کہ فساد کی تربیت سے ہمارے بچوں کی جان چھوٹ چکی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے میں غلط تھا۔

کاش ہم خود اپنے بچوں کا خیال رکھ سکیں اور انہیں ایسے خطرات سے دور رکھ سکیں۔ ہمارے بچوں کے دکھ نہ جانے کب ختم ہوں گے اور وہ باقی دنیا کے بچوں کی طرح جینا سیکھیں گے نہ کہ موت۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik