راجہ فاروق حیدر کا بیان اور اس پر ردعمل


فاروق حیدر صاحب نے جو بیان دیا ہے وہ در اصل کشمیریوں کو جگانا چاھتے تھے لیکن وہ سب جو ریاست کے وزیراعظم نے کہا وہ، حکومت سمیت سب پاکستانی لیڈرشپ کو ناگوار گزرا۔ مثلاً قائد ریاست یہ بتانا چاھتے تھے کے میاں صاحب نے اپنے اقتدار میں کس طرح کشمیریوں کی نمائندگی کی۔ اپنے ہر غیر ملکی دورے میں وہ کشمیر کے مسئلے سے بات کا آغاز کرتے تھے اور اختتام بھی بھٹو صاحب کے سٹائل میں کرتے تھے بس فرق صرف ایک پرچی کا ہوتا تھا جس پہ عرفان صدیقی کی عبارت درج ہوتی تھی۔

میاں صاحب کے پاس وزارت خارجہ کا عہدہ بھی تھا اس لیے پاکستان نے ان چار سالوں میں کمال درجے کی حکمت عملی سے کام لیا۔ آپ داد بھی وصول کرتے رہے مثلاً مودی بغیر ویزے کے پاکستان اترا اور بادشاہ سلامت کی نواسی کی شادی میں شرکت کی۔ جندال صاحب مری میں میاں صاحب کے ساتھ سری پائےکے مزے لیتے رہے۔ اس سے بہتر خارجہ پالیسی کیا کبھی پاکستان کی ہوئی۔ ایک طرف کشمیری تحریک کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں اور ایک طرف بادشاہ سلامت خلافت شریفیہ کے مزے لوٹ رہا تھا۔ جندال کیا میاں صاحب کو یہ بتانے آیا تھا کہ کشمیر میں بھارت نہتے کشمیریوں پہ ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کر رہا ہے۔

ہمارے کشمیریوں کی غیرت اس وقت کہاں جاتی ہے جب سر حد پار ہمارے نوجوانوں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ خواتین کی عزتیں لوٹ لی جاتی ہیں۔ ہزاروں بچوں کو یتیم کر دیا گیا۔ آج ہمیں فاروق حیدر کی عزت بہت پیاری ہو گئی۔ آج ہمیں کشمیریت یاد آ گئی۔ آج ہم غیرتمند ہو گے۔ آج ہمیں ریاست کا خیال آ گیا۔

ریاست کے غیرت مند بتاہیں کہ چوہدری مجید کیا اس ریاست کا باشندہ نہیں تھا جب اس کو برجیس طاہر نے پہاڑی بکرا کے خطاب سے نوازہ ہے۔ اس وقت ن لیگ نے تالیاں بجائی اور خود فاروق حیدر صاحب نے کوئی مذمت نہیں کی۔

عمران خان کی زبان کو شاہد لگام نہیں لگ سکتا اس کی وجہ ایک خاص لابی ہے جو ان کے پیچھے ہے۔ ان کی غیر اخلاقی حرکتوں کی ایک لمبی داستان جس کی نشاندہی عائشہ گلا لئی نے گذشتہ دنوں اپنی پریس کانفرنس میں کیا اس میں کتنی صداقت ہے یہ آنے والا وقت بتاے گا۔

پاکستان کی لیڈرشپ میں اخلاقیات کی کمی ہے خواہ وہ تحریک انصاف ہو یا ن لیگ پگڑیاں اچھالنے میں یہ ایک دوسرے پہ سبقت لے جاتے ہیں۔
آزادکشمیر کی تمام جماعتوں کو اے پی سی کی کال دینی چاہیے اور وہاں یہ فیصلہ ہو جانا چاہیے کہمسئلہ کشمیر زیادہ اہم ہے یا پاکستان میں موجود اپنی لیڈر شپ کی چاپلوسی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).