اب تم ہماری طرح کیوں نہیں سوچتے؟


جان مینارڈ کینز کا شمار بیسویں صدی کے صفِ اول کے ماہر معاشیات میں ہوتا ہے۔ انہیں جدید میکرواکنامکس کا بانی مانا جاتا ہے – ان کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ ان کے ایک ناقد نے سوال کیا کے گذشتہ برسوں میں آپ کے خیالات میں بار، بار بدلاؤ آیا اس کی کیا وجہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا:

جب واقعات میں تبدیلی آتی ہے تو میں اپنی سوچ بدلتا ہوں. آپ کیا کرتے ہیں؟

جب حقائق میں تبدیلی آتی ہے تو میں اپنی سوچ بدلتا ہوں. آپ کیا کرتے ہیں؟

جب میری معلومات میں تبدیلی آتی ہے، تو میں اپنا نتیجہ بدلتا ہوں. آپ کیا کرتے ہیں؟

جب کوئی مجھے کسی بات پہ قائل کرتا ہے کہ میں غلط ہوں، تو میں اپنی سوچ تبدیل کر لیتا ہوں. آپ کیا کرتے ہیں؟

سوچ کوئی جامد چیز نہیں، یہ ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے- بچے کی پیدائش سے لے کے اس کی زندگی کے ابتدائی برسوں تک اس کی جو سوچ بنتی ہے اس میں سب سے زیادہ عمل دخل اس کے خاندان کا ہوتا ہے ، پھر جب وہ سکول جانے لگتا ہے اور اس کا میل جول معاشرے کے دوسرے لوگوں سے بڑھتا ہے اس کی سوچ ان کا اثر بھی قبول کرتی ہے – ہر معاشرے کے ایک عام بالغ انسان کی سوچ اس کے خاندان، اس کے قریبی دوست اور وہ لوگ جن کے اردگرد وہ زیادہ رہتا ہے ان سب کی سوچوں کا تھوڑا، تھوڑا حصہ لے کے تشکیل پاتی ہے – ہماری سوچ کے بننے میں ہماری علاقئی ثقافت اور مذہب کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے- ایک عام انسان کی سوچ ایسی ہی رہتی ہے، جب تک کے وہ اپنی موجودہ سوچ کو چیلنج نہیں کرتا، اپنے آپ سے سوال نہیں کرتا ، اپنی سوچ کا تنقیدی جائزہ لینا شروع نہیں کرتا-

میں جب اپنی اب تک کی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ گذشتہ برسوں میں کئی دفعہ میں نے اپنی سوچ کو بدلا ہے –

جب 1999ء میں پرویزمشرف نے نوازشریف کو وزارتِ اعظمیٰ کے عہدے سے ہٹا کر خود حکومت پے قبضہ کر لیا تو میں اس وقت چودہ سال کا تھا اور مجھے سیاست کی کوئی خاص سمجھ نہیں تھی، میں نے دیکھا کہ میرے ارد گرد لوگ بہت خوش ہیں کہ ظلم کی سیاہ رات کا اختتام ہوا، سو ان کے دیکھا دیکھی میں بھی ان کی خوشیوں میں شریک ہوگیا- جب 2001ء میں ایک متنازع صدارتی ریفرنڈم کے نتیجے میں پرویزمشرف اس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے تو ہمارے ایک استاد جو یہ سمجھتے تھے کہ اس قوم کو صرف ایک ڈنڈے والا ہی ٹھیک کر سکتا ہے بہت خوش تھے کہ اب یہ قوم ٹھیک ہوگی۔ اس قوم کو جمہوریت جیسی فضول چیز راس نہیں، سو میں بھی ان کی باتیں سن کے بہت خوش ہوا۔ بھائی اب تو سب صحیح ہوگا ہمارا مستقبل تو روشن ہی روشن ہے۔

پھر جیسے تھوڑا اور وقت گذرا، چار کتابیں پڑھیں، دنیا کے بارے میں جانا کہ اور دنیا کے لوگ کیسے رہ رہے ہیں- دوسرے ملکوں کے طرز حکمرانی کے بارے میں جانا اور جب ان کا تقابل اپنے ملک کے ساتھ کیا، تو لگنے لگا کہ سب ٹھیک نہیں ہے ،آمریت کوئی اچھا طرز حکومت نہیں۔ جب ایک طویل عوامی دباو کے بعد 8 اگست 2008 پرویزمشرف نے وزارت سے استعفیٰ دیا تو میرے پیارے ہموطنو ں نے اس دن بھی بہت خوشیاں منائیں اور اس دن پھر سے یہی کہا گیا کہ ظلم کی سیاہ رات کا اختتام ہوا-

2008ء کے الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو چلتے ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ ہر طرف سے کرپشن کی صدائیں آنے لگیں۔ کچھ لوگوں کو پھر سے آمریت کے سنہرے دنوں کی یاد ستانے لگی۔ پی پی کی حکومت پہ کئی کاری وار کئے گئے اور بالاخر 26 اپریل 2012 کو جب افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں بننے والے بنچ نے یوسف رضاگیلانی وزیراعظم پاکستان کو “توہینِ عدالت” کے جرم میں سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے وزارتِ اعظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار دے دیا- مجھ سمیت بہت سارے لوگوں کو عدالتِ اعظمیٰ کا یہ عمل بہت دلیرانہ لگا۔ اس دن بھی بہت سارے لوگوں نے مٹھائی بانٹیں اور ایسا لگنے لگا کہ یہ روشن پاکستان جانب بہت بڑا قدم ہے۔

عمران خان کا اکتوبر 2011 کا لاہور جلسہ ان کے سیاسی کیریئر میں ایک بڑے سنگِ میل ثابت ہوا۔ مجھ سمیت بہت سارے لوگوں کو عمران خان کی ذات میں ایک سچا، کھرا، نڈر اور ولولہ انگیز لیڈر نظر آیا۔ روایتی سیاستدانوں سے خائف لوگ عمران خان کو اپنا مسیحا سمجھنے لگے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہونے لگا، اور پھر الیکشن 2013 کا وقت آن پہنچا۔ مجھ سمیت عمران خان کے سب چاہنے والوں کو یہی لگتا تھا کہ پی ٹی آئی الیکشن میں کلین سویپ کر جائے گی- میں نے الیکشن 2013 میں پہلی دفعہ زندگی میں ووٹ ڈالا اور پی ٹی آئی کا سپورٹر ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے ارد گرد کے بہت سارے لوگوں کو قائل کیا کہ وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں، جس میں کافی کامیابی بھی ہوئی- جب الیکشن کا رزلٹ آیا تو مرکز میں زیادہ سیٹیں مسلم لیگ(ن) جیت چکی تھی جس کے نتیجے میں نوازشریف وزیراعظم بن گئے- پی ٹی آئی کا دیرینہ سپورٹر ہونے کی وجہ سے یہ بات مجھے قابل برداشت تو ہرگز نہیں تھی کہ پی ٹی آئی کی جگہ کسی اور کی حکومت بن جائے پر میری اپنی رائے یہی تھی کہ موجودہ حکومت کو کام کرنے دینا چاہیے اور پانچ سال کا وقت پورا کرنے دیا جائے-

الیکشن کے ایک سال بعد ہی اگست 2014 کو پی ٹی آئی  نے الیکشن 2013 میں مسلم لیگ(ن) کی جانب سے مبینہ دھندلی کو بنیاد بنا کر اسلام آباد ڈی چوک میں دھرنا دیا ۔اور پھر وہاں ہزاروں لوگوں کے سامنے اپنا بجلی کا بل جلایا، قوم سے خطاب کرتے ہوے سول نا فرمانی کا حکم دیا اور نوازشریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا – پی ٹی آئی کا دیرینہ سپورٹر ہونے کے باوجود مجھے عمران خان کی ان باتوں سے اختلاف تھا اور اس کا اظہار جب میں نےاپنے دوستوں کے سامنے کیا تو ان کو میری باتیں بالکل پسند نہیں آئیں- میرا نقظہ نظر تھا کہ، سیاسی اختلاف رکھنا اپوزیشن کا حق ہے اور اس کو یہ جائز حق پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال کرنا چاہیے ۔ لیکن صرف اس لئے کہ ہماری حکومت نہیں بن سکی تو ہم تمہیں بھی حکومت نہیں کرنے دیں گے یہ عمل سراسر غلط ہے اور جمہوری اقدار کے منافی ہے- سو عمران خان نے نوازشریف کا سیاسی تعاقب جاری رکھا اور بالاخر 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے نوازشریف کو پانامہ کیس میں جھوٹا قرار دے کے وزارتِ اعظمیٰ کے لئے نااہل قرار دے دیا- اور ستر سال گزرنے کے باوجود بھی ہمارے ملک میں یہ روایت قائم رہی کہ کوئی بھی منتخب وزیراعظم اپنی آیئنی مدت پوری نہ کر سکا-

آج پھر میرے عزیز ہم وطن مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں کہ سب سے طاقتور کو سزا مل گئی میرے دوست پھر خوش ہیں کہ ظلم کی سیاہ رات کا اختتام ہوا۔ لیکن اس بار میں اپنے دوستوں جیسا نہیں سوچ رہا۔ مجھے لگتا ہے کچھ غلط ہو گیا ہے، شاید مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ اصل طاقتور کون ہے، جو ہر دفعہ بچ جاتا ہے اور سزا ہر دفعہ کسی اور کو مل جاتی ہے۔ مجھے ڈر ہے یہ کھیل ایسے ہی چلتا رہے گا جب تک اصلی طاقتور کو سزا نہ ہوئی- میرے دوست کہتے ہیں تم بھی خوشی مناؤ. یہ تم نےکیا فضول باتیں سوچنا شروع کر دی ہیں.

“اب تم ہماری طرح کیوں نہیں سوچتے؟”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).