فلرٹ اور ہراسمنٹ میں فرق


مجھے ان دونوں الفاظ کے کوئی اچھے اردو متبادل نہیں مل سکے اس لئے میں انگریزی کے ہی لفظوں کا سہارا لوں گی۔ جب مرد اور عورت کسی بھی وجہ سے قریب رہیں تو انہیں ایک دوسرے میں دلچسپی بھی پیدا ہو سکتی ہے، خصوصا اگر وہ پہلے ہی کسی اور کے ساتھ ایک رشتے میں بندھے ہوئے نہیں ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اسی طرح ایک دوسرے کو جاننے اور ایک دوسرے کے قریب آنے کا راستہ کھلے گا۔ مگر وہ کیا باریک لکیر ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ مرد کی عورت میں دلچسپی اور توجہ فلرٹ کرنے کی حد تک اور اس کی تعریف اور توجہ کی حد تک ہے یا وہ ہراسمنٹ کی حد کو چھو رہی ہے۔

ہمارے معاشرے میں سوچ اور نظریات میں یکسانیت نہیں ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے لئے آزادی کی مختلف حدیں مختلف درجوں کو چھوتی ہیں۔ مگر فلرٹ اور ہراسمنٹ میں فرق ہر درجے میں موجود ہوتا ہے۔

میرے گھر کام میں مدد کے لیے آنے والی نوجوان لڑکی بتاتی ہے کہ اس کا ایک کزن اس میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس کے بارے میں ہلکی پھلکی باتیں اس کی چھوٹی بہن سے اونچی آواز میں کرتا ہے اور اس کی پسند یا ناپسند جاننے کی کوشش کرتا ہے جو وہ بس مسکرا کر سنتی جاتی ہے۔ ان لوگوں کی منگنی نہیں ہوئی مگر دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے کشش محسوس کرتے ہیں۔ ان دونوں کے مابین جو نگاہوں، لفظوں یا مسکراہٹ کا تبادلہ ہوتا ہے اس تبادلے کو یہ دونوں ہی پسند کرتے ہیں اور یہ فلرٹ ہے۔ ان لوگوں کی پسندیدگی شادی میں بھی بدل سکتی ہے اور نہیں بھی۔ دونوں معاشی اور سماجی سطح سے ایک برابری کے درجے پر ہیں اور دونوں ہی غیر شادی شدہ ہیں۔ دونوں ہی ایک دوسرے میں دلچسپی لینا پسند کرتے ہیں تو مذہبی لحاظ سے یہ جیسا بھی ہو، سماجی لحاظ سے یہ کسی طور بھی ہراسمنٹ کے درجے میں نہیں آتا۔ اس میں تمام تر دلچسپی اور اس کے اظہار کے باوجود ایک عزت کا پہلو موجود ہے اور یہ لڑکی اس کی پیش قدمی کو مسکرا کر قبول کر رہی ہے۔

ہراسمنٹ تب ہوتی ہے جب ایک انسان دوسرے کی دلچسپی سے ناگواریت محسوس کرے، اس سے گھن کھائے، دوسرا انسان سماجی یا جسمانی لحاظ سے کسی برتر درجے پر ہو اور وہ یہ جانتا ہو کہ اس کی دلچسپی سے دوسرا شخص گھبرا رہا ہے اور گھن کھا رہا ہے مگر وہ یہ حرکت جاری رکھے۔ یا پھر وہ واضح طور پر ایک ایسی حرکت کرے جو نہ تو سماجی لحاظ سے قابل قبول ہو اور اسے یہ بھی اچھی طرح سے معلوم ہو کہ وہ اگلے شخص یا خاتون کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ یہ سب جاننے بوجھنے کے بوجود کوئی بھی ایسا قدم اٹھانا ہراسمنٹ کے زمرے میں آئے گا۔

ہمیں بطور پاکستانی خواتین بے تحاشا مقامات ہر ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگ ہراسمنٹ کا شکار ہونے والی خواتین کو عموما یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ درگزر سے کام لیں اور اس بات کو پی جائیں کیونکہ اگر وہ ہراسمنٹ کا ذکر کریں گی تو مرد کا تو کچھ نہیں جائے گا، لوگ ان کے اپنے کردار پر ہی شک کریں گے۔

گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک خاتون نے آواز اٹھائی جن کو ایک شخص نے اپنی انتہائی ذاتی نوعیت کی تصاویر ارسال کر دی تھیں اور ان خاتون نے وہ تصاویر اس شخص کی فیس بک آئی ڈی سمیت متعدد پلیٹ فارمز پر شئیر کی تھیں۔ مگر لوگوں نے ان خاتون کی اس حرکت کو زیادہ پسند نہیں کیا اور متعدد تبصرے ایسے تھے کہ اگر ایسا پیغام آ ہی گیا تھا تو یہ اسے ڈیلیٹ ہی کر دیتیں۔ سچ یہ ہے کہ ان باتوں کو پی جانا اتنا آسان نہیں ہوتا اور یہ بات درست ہے کہ بہت سی ہراسمنٹ کی صورتوں میں خواتین کا کوئی ایسا نقصان نہیں ہوتا جو آنکھوں سے دکھائی دے سکے مگر ایک ناپسندیدہ حرکت کے ہو جانے کے بعد طبیعیت مکدر ہو جاتی ہے اور بوجھ اور کراہیت سے بھر جاتی ہے اور اس کے نقسیاتی اثرات بہت برے ہوتے ہیں۔ اس کو برداشت کیوں اور کیونکر کیا جائے؟

ہراسمنٹ میں ایک عنصر اس بات کا بھی ہے کہ ایک طاقتور انسان ایک کمزور انسان کی بے بسی کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ چاہے ایک باس اپنی ورکر کو ہراساں کرے یا ایک عام راہ جاتا مرد ایک عورت کو ہاتھ سے چھو جائے۔ اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اگلا انسان بے بس ہے اور وہ اس ہراسمنٹ کے جواب میں کچھ نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ آواز بھی نہیں اٹھا سکتا ۔ مائیکل ڈگلس کی ایک فلم ڈسکلوژر میں ہراسمنٹ کو قوت کے استعمال کے ساتھ مربوط دکھایا گیا ہے اس فلم میں طاقت ایک خاتون کے ہاتھ میں ہے۔ مگر ہمارے پدرسری معاشرے میں تو طاقت ہے ہی عموما مردوں کے ہاتھ میں۔ خود کو طاقتور محسوس کرتے ہوئے ایک بے بس انسان کی مرضی کے خلاف اس سے کسی بھی قسم کا رابطہ ہراسمنٹ ہے، چاہے یہ بول کر ہو، لکھ کر ہو، یا چھو کر ہو۔ یہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے جس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں۔

ہراسمنٹ کا شکار شخص کو خود اس ہراسمنٹ کا ذمہ دار قرار دینے کی بجائے یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ اکیلا نہیں ہے اور اس کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بارے میں آگہی پھیلانے کی بھی ضرورت ہے اور اس سے متعلقہ قوانین کے بارے میں علم بھی ایک عام شہری تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim