زندہ قوم یا شرمندہ قوم؟


چاہیے تو یہ تھا کہ ہم آج سیاست پر بات کرتے۔ ملک اس وقت جس صورتحال کا شکار ہے۔ نوازشریف کو نااہل قراردیئے جانے کے بعد قائم مقام وزیراعظم کے طور پر شاہد خاقان عباسی حلف اٹھا چکے ہیں اور جب تک یہ کالم آپ کی نظروں سے گزرے گا کابینہ بھی حلف اٹھا چکی ہو گی۔ ایوان صدرمیں کابینہ کی حلف برداری کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے قائم مقام وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی مشاورت سے ایک کابینہ کی منظوری دے دی ہے اور شنید ہے کہ چھانگا مانگا سیاست کے نتیجے میں بعض اراکین اسمبلی وفاداریاں تبدیل کرکے اس کابینہ کا حصہ بن رہے ہیں۔ سنا ہے وفاداریاں اپنے ضمیر کی آواز پر تبدیل کی جا رہی ہیں۔ اراکین اسمبلی کے ضمیر کی آواز بھی خوب ہوتی ہے جو کبھی کسی دباﺅ کے نتیجے میں اور کبھی کسی چمک کے زیراثر سنائی دیتی ہے۔ ایک کھیل خیبر پختونخواہ میں بھی جاری ہے جہاں پہلا پتھر عائشہ گلالئی نے پھینکا۔ اوراس کا ارتعاش اتنا زیادہ تھا کہ گزشتہ تین روز سے میڈیا کے پاس عائشہ گلا لئی کے سوا کوئی موضوع ہی نہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخواہ میں پرویز خٹک کے خلاف وفاداریاں تبدیل کرانے کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہیں اورعمران خان سے اس صوبے کی حکومت چھین لی جائے گی۔

ان حالات میں سیاست پر لکھنے کے لیے بہت کچھ تھا لیکن جانے کیوں ہمارا جی نہ چاہا کہ اس موضوع پر بات کریں۔ سیاست پاکستان میں ہرروز کا موضوع ہے اوراس پر آنے والے دنوں میں بھی بہت کچھ لکھا جائے گا۔ لیکن یہ اگست کا مہینہ ہے۔ قیام پاکستان کا مہینہ ہے۔ سو اس ماہ کے دوران ہمیں، کم ازکم سال میں ایک بار ہی سہی، اپنا احتساب ضرورکرنا چاہیے۔ اور جب ہم اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں اوراپنا احتساب کرتے ہیں تو ایسی بہت سی باتیں بھی زبان پرآجاتی ہیں جوسننے والوں کو ناگوار گزرتی ہیں کہ سچ ہمیشہ بہت تلخ ہوتا ہے لیکن یہ سچ ہم اگر سال میں ایک بار بھی قبول کرلیں تو شاید احساس زیاں ختم ہوجائے اور شاید آنے والے برسوں میں ہم جو کچھ لکھیں وہ آج کے لکھے سے مختلف بھی ہو اور خوبصورت بھی۔

قوموں کی زندگی میں ایک ایک سال کی بہت اہمیت ہوتی ہے، لیکن پاکستان کی تاریخ پرنظرڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے آزادی کے 70 برس رائیگانی میں ہی گزار دیئے۔ 70 سال کم تو نہیں ہوتے۔ یہ کم وبیش سات عشروں کی کہانی ہے، ایک آزاد ملک نے کیسے خود کو آزاد اور خود مختار بنانے کی کوشش کی اورکیسے وہ مختلف اندرونی وبیرونی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا شکار ہوا یہ ایک طویل کہانی ہے۔

سازشیں توپہلے روز ہی شروع ہوگئی تھیں، یہ  70 سال مختلف المیوں سے عبارت ہیں۔ کئی سانحے ہیں جن پر ہم نے آنسوبہائے، کئی دکھ ہیں کہ جنہیں ہم ہرسال یاد کرتے ہیں۔ عین عالم شباب میں یہ ملک دولخت ہو گیا۔ وہ جنہوں نے آزادی کے خواب دیکھے تھے، وہ جنہوں نے یہ سوچا تھا کہ زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں، ان کے خواب پہلے روز ہی چکناچور ہو گئے۔ آزادی حاصل کرنے والوں کو ابتدا میں ہی معلوم ہو گیا کہ یہ داغ داغ اجالا ہے اور یہ شب گزیدہ سحر ہے۔ وہ جان گئے تھے کہ منزل اُنہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے اور انہیں یہ ادراک بھی ہو گیا تھا کہ وہ ایک غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد بہت سے آقاﺅں کے غلام ہوگئے ہیں۔ ایک زنجیر ٹوٹی تو اس کے بعد انہیں اور بہت سے زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔

ریاستی اداروں نے ہمیں بہت سے بے تعبیرخواب دکھائے، ہرمرتبہ ہماراقبلہ درست کرنے کی کوشش کی گئی اورہمیں بتایاگیاکہ ہم آزادہیں، ہمیں بتایاگیاکہ ہم خودمختارہیں۔ ان 70برسوں کے دوران جب بھی آزادی اورخودمختاری کانعرہ لگا اسی وقت ہماری آزادی بھی سلب ہوئی اور خودمختاری پر بھی آنچ آئی۔ بہت سے خودساختہ ہیرو تیار کئے گئے، قوم کو ذہنی طورپرمفلوج کرنے کےلئے ان ہیروز کی کہانیاں نصاب کاحصہ بنادی گئیں۔ بہت سے حملہ آوروں اورقاتلوں کو ہیرو بنا کر ہمارے سروں پر مسلط کر دیا گیا۔ موت کے سوداگر ہمارے ہیرو بنے، لوٹ مارکرکے مال غنیمت اپنے اپنے ممالک کولے جانے والے بھی ہمارے ہیروقرارپائے اور عزتیں پامال کرنے والے کو بھی ہم نے اپنے ہیروز کی صف میں شامل کرلیا۔ کچھ حکمران ہم پرمسلط ہوئے یا کر دیئے گئے، انہوں نے اپنی مرضی کے نظام بنائے اور پھر خود ہی توڑ دیئے۔ حب الوطنی اورغداری کے معنی تبدیل ہوگئے۔ بہت سے ایسے رہنماﺅں کو بھی غدار قرار دیدیا گیا جو قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک تھے۔ اور بہت سے غداروں کو قومی پرچموں میں لپیٹ کر پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ کبھی سول اور کبھی فوجی ڈکٹیٹر ہمارے آقا بنے۔ سب اپنے اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے اس ملک کے مقدر اوراس ملک کے مستقبل سے کھیلتے رہے۔ وہ لوگ جوآزادی، امن اور خوشحالی کے خواب آنکھوں میں سجائے یہاں آئے تھے مایوسی کا شکار ہو گئے۔ ناانصافی، بے روزگاری اور غربت اس قوم کا مقدر ٹھہری۔ غریب غریب تر ہوتا گیا اور سرمایہ چند خاندانوں کی مٹھی میں آ گیا۔

عالمی قوتوں نے پہلے روزسے ہی اس ملک کو تختہ مشق بنایا، بہت سی جنگیں ہم پرمسلط کر دی گئیں اور کچھ لڑائیوں میں ہم خود فریق بن گئے۔ نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے نام پر مسلح جتھے تشکیل دیئے گئے تو مختلف عالمی قوتوں نے اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان جتھوں کی پشت پناہی شروع کردی اور پھر یوں ہوا کہ وہی جتھے ہماری جان کو آ گئے۔ آج کہنے کو ہم آزاد ہیں، کہنے کو ہم خود مختار ہیں لیکن ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہم کس قدرآزاد ہیں اور کتنے خودمختارہیں۔ عوام کو انصاف اورتحفظ فراہم کرنے والے اداروں کو اس تمام عرصے میں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ طویل آمریتوں کے دوران جمہوریت کے چند وقفے ضرور آئے لیکن اس دوران بھی حکو مت اصل حکمران ہی کرتے رہے۔ سول حکو متوں کو نہ معاشی پالیسی بنانے کااختیارتھا نہ خارجہ امور طے کرنے کی اجازت۔

اس دوران اگر کسی نے آنکھ اٹھا کر بات کرنے کی کوشش بھی کی تو اسے ہی نہیں اس کے خاندان کو بھی عبرت کی مثال بنا دیا گیا۔ آج کہنے کو ہم جمہوریت میں سانس لے رہے ہیں، آج کہنے کو عوام کے منتخب نمائندے حکمران ہیں لیکن چیزوں کو سمجھنے والے بخوبی سمجھتے ہیں کہ اصل حاکم کو ن ہے؟ نظریہ ضرورت کے تحت ایسے ایسے فیصلے دیئے گئے کہ عقل دنگ رہ گئی، ہر آمر نے اپنی غلط کاریوں کو تحفظ دینے کیلئے عدالتوں کا سہارا لیا۔ آج ہم ایک ایسے نظام میں سانس لے رہے ہیں جہاں جمہوریت بھی ہے اور فوجی عدالتیں بھی کام کر رہی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے باوجود دہشت گرد ہمیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ مقننہ خود عدم تحفظ کا شکار ہے۔ بوٹوں کی دھمک اب شاہراہِ جمہوریت پر نہیں بلکہ خود پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں بھی سنائی دیتی ہے اور اس مرتبہ ٹرپل ون بریگیڈ کی بھی ضرورت پیش نہیں آئی سو ہمارے لئے یہی بہت ہے کہ ہم غلام اپنا جشن آزادی ہرسال کی طرح اس مرتبہ بھی پورے جوش وخروش کے ساتھ منائیں گے۔ اور پوری دنیا کو بتائیں گے کہ ہم زندہ قوم ہیں لیکن کبھی اپنے گریبان میں جھانکیں گے توہمیں معلوم ہوگا کہ درحقیقت ہم شرمندہ قوم ہیں۔ شرمندہ ہیں ہم اپنے آباء سے، شرمندہ ہیں قیام پاکستان کا خواب دیکھنے والوں سے، شرمندہ ہیں قیام پاکستان کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں سے، شرمندہ ہیں جمہوریت کے خواب دیکھنے والوں سے، شرمندہ ہیں کوڑے کھانے والوں سے اور شرمندہ ہیں اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر دینے والوں سے۔

بشکریہ: گردوپیش، ملتان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).