بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے عزت آنی جانی چیز ہے


پانامہ کیس میں سنائے جانے والے 20 اپریل کے فیصلے کے تسلسل میں ایک مکمل فیصلہ 28 جولائی کو سنا دیا گیا جس میں وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف صاحب کو نا اہل قرارد یا گیا، پانامہ کیس میں 20 اپریل سے 28 جولائی تک بہت سے انکشافات سامنے آئے اور کئی دلچسپ واقعات بھی دیکھنے کو ملے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ وزیراعظم کی نا اہلی کے فیصلے کے بعد ایک بہت دلچسپ اتفاق یہ بھی سامنے آیا کہ جس وزیر اعظم کو 1993 میں سسر نے بحال کیا اسی وزیر اعظم کو 28 جولائی کو داماد نے نا اہل قرار دے دیا، قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ 1993 میں وزیراعظم نواز شریف کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کردیا تھا اور نواز شریف کی اپیل پر اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے انہیں بحال کردیا تھا 28 جولائی کو وزیراعظم کی نا اہلی کا فیصلہ سنانے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ مرحوم چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں۔

پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے باہر لگے ڈائس سے دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر جس طرح کیچڑ اچھالا گیا اور اخلاقی حدوں کو پامال کیا گیا لگتا تھا دو فریقوں کے درمیان مغلظات کا مقابلہ ہورہا ہے اور اسی مقابلے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے اسی لئے اسے سنانے کے لئے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ ان تمام تلخ اور ناقابل فراموش باتوں کے باوجود ایک مثبت بات جو دونوں فریقوں کے ارکان میں نظر آرہی تھی وہ یہ تھی کہ عدالت پر ہمیں پورا یقین ہے اور فیصلہ کچھ بھی ہو ہم اسے تسلیم کرینگے، کاش ایسا ہی ہوتا! فیصلہ آنے کے فوری بعد جو رد عمل حکومتی اراکین کے آنے شروع ہوئے اس سے کہیں بھی تاثر نہیں ملتا کہ فیصلے کو تسلیم کیا گیا ہے نہ صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے پاکستانی تاریخ کا بدترین فیصلہ قرار دیا جارہا ہے، افسوس پاکستانی سیاست کی یہ روایت رہی ہے کہ فیصلہ حق میں آنے پر اسے نہایت منصفانہ اور خوش آئیند قرار دیا جاتا ہے جب کہ خلاف آنے پر اسے تعصب پر مبنی اور کسی سازش کا حصہ کہا جاتا ہے۔ گو کہ فیصلے کو تسلیم کرلیا گیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ تھا ہی نہیں اب اگر فیصلے کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ خاموشی اختیار کرلی جائے تو اس بات کا اشارہ ہوگا کہ اعتراف جرم بھی کرلیا گیا ہے تو فیصلے کے خلاف ردعمل سے یہ ظاہر کرنا ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔

وزیر داخلہ چودھری نثار صاحب نے بھی فیصلے سے پہلے جو پریس کانفرنس کی جو ایک بار ملتوی کی گئی اور ایک بار لاہور بم دھماکہ کی وجہ سے موخر ہوچکی تھی اس میں نواز شریف کے گرد خوشامدیوں کا بار بار ذکر کیا اور بارہا اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ فیصلہ کچھ بھی آئے محاذ آرائی سے گریز کیا جائے جب کہ چودھری نثار کا یہ کہنا بھی تھا کہ فیصلہ نواز شریف کے حق میں آئے یا ان کے خلاف میں وزارت سے استفا دے دوں گا ان کا یہ جملہ بہت معنی خیز تھا کیوں کہ اگر فیصلہ نواز شریف کے حق میں آتا تو ان کی بات درست تھی کی وہ استفا دے دیں گے لیکن اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو پھر نواز شریف کی نا اہلی کے بعد وفاقی کابینہ کو تحلیل ہوجانا ہے تو استفا کا کوئی جواز ہی نہیں رہتا اور ایسا ہی ہوا۔ پاکستان کے قانون کی رو سے نواز شریف کے نا اہل ہونے کے بعد وہ پارٹی کی صدارت رکھنے کے بھی اہل نہیں رہے باوجود اس کے انہوں نے پارٹی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے عارضی وزیراعظم خاقان عباسی کو مقرر کیا جنہیں مشرف دور میں طیارہ سازش کیس میں نواز شریف کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ایل این جی کیس میں بھی نامزد ہیں۔ جب کہ چھوٹے بھائی شہباز شریف کا نام مستقل وزیر اعظم کے لئے مقرر کیا جنہیں اب وزیراعلی پنجاب کی نشست سے استفا دلوا کر نواز شریف کے حلقے این اے 120 سے انتخاب لڑوایا جائے گا۔

یہاں سوشل میڈیا اور دیگر میڈیا پر جاری اس خبر نے دم توڑا کہ نیا وزیراعظم چودھری نثار کو بنایا جائے گا وہیں کئی نئے سوالات نے جنم لیا کہ وزارت عظمی شریف خاندان کے جاتی عمرا کی دیواروں سے باہر نا نکل پائی محض کچھ عرصے کےلئے کسی کو بطور امانت سونپنے کا فیصلہ کیا گیا جب کہ مستقل وزیراعظم کے امیدوار شہباز شریف حدیبہ پیپر مل کیس میں اور ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی ہلاکتوں میں بھی نامزد ہیں۔ قارئین کرام اس بات سے بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ گذشتہ عام انتخابات میں این اے 120 سے نواز شریف نے پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو چالیس ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی اور پی ٹی آئی اس حلقے میں دھاندلی کا الزام بھی عائد کرتی رہی ہے اس بار پھر پی ٹی آئی نے اپنی سابقہ امیدوار کو شہباز شریف کے مقابلے میں میدان میں اتارا ہے، اگر شہباز شریف قومی اسمبلی کا انتخاب جیت کر وزارت عظمی کی نشست پر براجماں ہوجاتے ہیں تو کیا حکومت کے مسائل کم ہوں گے میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوگا بلکہ حکومتی پریشانیوں میں مزید اضافہ اس وقت ہوجائے گا جب حدیبیہ پپیر مل کا کیس دوبارہ چلے گا اور 07 اگست کو ڈاکٹر طاہر القادری کی متوقع آمد کے بعد ماڈل ٹاؤن کیس کی تحریک میں شدت آجائے گی۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی فیصلہ قرار دیا جارہا ہے اور ائین کی شق 63، 62 کو نجات دہندہ کہا جارہاہے یہ وہی آئینی شقیں ہیں جنہیں ماضی میں ایم کیو ایم نے جمائماء کیس کے لئے عمران خان کے خلاف استمال کرتے ہوئے انہیں نا اہل قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا اور اس پر رد عمل کرتے ہوئے عمران خان نے اسے ایک آمر کا بنایا ہوا قانون قراردے کر ماننے سے انکار کردیا تھا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے نواز شریف کی نا اہلی پر جشن منایا جارہا ہے جلسے جلوس نکالے جارہے ہیں جب کہ حکومتی اراکین کی نگائیں اب بھی سپریم کورٹ کی جانب ہیں جہاں پی ٹی آئی کے قائدین عمران خان اور جہانگیر ترین کا کیس زیر سماعت ہے حکومتی اراکین کا ماننا ہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف دائر کیا گیا کیس بھی کچھ اسی نویت کا ہے اور عدالت عالیہ مشترکہ نوعیت کے کیس میں دو الگ فیصلے کس طرح دے سکتی ہے، اب دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ کرتی ہے اگر یہ فیصلہ بھی عمران اور جہانگیر ترین کے خلاف آتا ہے پھر حکومتی اراکین یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).