کیا مرد کی کوئی عزت نہیں ہوتی؟


عائشہ گلالئی کے الزامات پرمبنی کہانیاں زبان زدعام ہیں، ایک مرد عورت کو ہوس کانشانہ بناسکتاہے، جنسی طورپر ہراساں کرسکتاہے تو کیادوسری جانب سے ایسا ہونا مشکل ہے؟ ایک عورت کی ذات پر کیچڑاچھالاجائے تو نیک نامی خراب ہوتی ہے، معاشرہ میں رہنے لائق نہیں رہتی لیکن ایک مرد کے بارے کیا خیال ہے کہ جب اس کی عزت کو یوں سرعام اچھالاجائے تو کیا وہ معاشرہ میں رہنے لائق رہتا ہے۔

مولوی صاحب ایک جگہ بہت سے لوگوں کی موجودگی میں بیٹھے لیکچر دے رہے تھے کہ اچانک مودا مراثی کہنے لگا مولوی صاحب دوسروں کو تو نصیحتیں کرتے ہوئے آپ کے پڑوسی بشیرے کی بھینس چوری ہوگئی ہے اور اس کا کھرا آپ کے گھر کی طرف جا رہا ہے اورآپ کا نام لیاجا رہا ہے، یہ بات سنتے ہی وہاں بیٹھے لوگ آہستہ آہستہ اٹھنے لگے، حتیٰ کہ وہاں مولوی صاحب تنہا رہ گئے اسی اثنا میں وہ مراثی دوبارہ آیا بولا “مولوی صاحب معافی چاہتاہوں وہ آپ کے گھر کی طرف کھرا نہیں گیا بلکہ آپ کے گھر سے دوگھرچھوڑکر تیسرے گھر تک گیا ہے”، مولوی صاحب بولے “مودیا! اب تمہاری وضاحتوں سے کیاہونا ہے، پنڈ میں چور مشہور ہونا تھا اب ہوجاؤں گا تم لاکھ وضاحتیں کرتے رہو”، اب ذرا آپ کو اس حوالے سے دوسرا رخ دکھاتے ہیں ۔

کراچی کی ایک کہانی سامنے آئی ہے کہ مسافر خانے میں ایک شخص بس کے انتظار میں کھڑا تھا، اسی دوران بارش برس پڑی ایک خاتون بھیگے کپڑوں کے ساتھ بھی وہیں آ کھڑی ہوئی، وہ نوجوان نسبتاً شرمیلا سا تھا، وہ خوفزدہ ہوگیا کہ ایک نوجوان اوربھیگے جسم والی خاتون اس کے ساتھ موجود ہے۔ اسی دوران اس نے باہرنکلنا چاہا لیکن تیز رفتار بارش راستے کی رکاوٹ بن گئی، وہ کافی دیر تک سر جھکائے کھڑا رہا۔ اس دوران بس آگئی وہ نوجوان پہلے بس میں سوار ہونے کے لئے بھاگا، یہی سوچ لڑکی کی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دونوں ٹکرا گئے۔ لڑکی نے شور مچادیا کہ یہ مسافر خانے میں بھی میرے بھیگے کپڑوں کی وجہ سے مجھے ہوس ناک نگاہوں سے تکتا رہا اور اب جان بوجھ کرمجھ سے ٹکرایا ہے۔ آس پاس کھڑے لوگوں نے اس نوجوان کی اچھی خاصی درگت بنادی، اتفاقاً اسی بس میں اس نوجوان کے محلہ دار خواتین و نوجوان موجود تھے، اس نوجوان کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی یہ رام کہانی اس کے گھرسمیت آس پاس کے گھروں تک پہنچ چکی تھی۔ یوں وہ شرمیلا نوجوان جو برسوں اپنی شرافت کی وجہ سے محلہ میں مشہورتھا ایک ہی دن میں بدمعاش اور آوارہ گرد، لفنگا مشہور کر دیا گیا حتیٰ کہ وہ معمول کے مطابق پانچ وقت نماز کے لئے محلہ کی ہی مسجد میں گیا تو بھی نمازی اسے نفرت آمیز نگاہوں سے تکتے تھے۔

جب صفائی دیتے دیتے تنگ آ گیا تو مجبوراً گھرسے نکلنا بند کردیا اور پھر ہوتے ہوتے مسجد میں جانا چھوٹ گیا۔ پھر۔ کچھ ہی عرصہ بعد جب دوبارہ اس لڑکی سے اس نوجوان کا سامنا ہوا تو لڑکی نے نہایت شرمندگی سے اعتراف کیا کہ کچھ عرصہ قبل اس کی غلط فہمی کی وجہ سے اس نوجوان کو ذلت برداشت کرنا پڑی۔ نوجوان اس لڑکی کی ’سوری‘ کا کیا کرتا کہ جو سلوک معاشرے نے محض ایک الزام پر اس نوجوان سے کیا تھا وہ بذات خود انتہائی شرمناک تھا۔ وہ نوجوان بار بار اس لڑکی سے سوا ل کرتارہا کہ ’مانتا ہوں کہ لڑکی کی عزت، عصمت بہت قیمتی ہوتی ہے لیکن میرے جیسے شخص کی عزت کیا بے مول ہوتی ہے کہ آپ کے ایک ہی الزام سے میں شرافت سے بدمعاشی، آوارگرد بن گیا۔ میری سابقہ اچھائیاں، لوگوں سے خوش اخلاقی تک، سب کچھ رائیگاں چلاگیا‘ وہ لڑکی محض ’سوری‘ کرکے چلی گئی مگر وہ یہ نہ بتا سکی کہ اس کے الزام کی بدولت جو ذلت اس نوجوان کو برداشت کرناپڑی اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

امریکہ میں ایک معروف خاتون سائیکاٹرسٹ شازیہ نواز جو بنیادی طورپر پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان دنوں امریکی کی شہری ہیں، انہوں نے کئی نوجوانوں کے مسائل بیان کیے بلکہ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں بھی بچے ایسے ہی رویے کا شکار ہوتے ہیں تو امریکہ بھی اس معاملہ میں کم نہیں، ان کا کہنا ہے کہ بچپن میں ہونیوالی یہ بدسلوکی زندگی بھر ان کے ذہن پرمسلط رہتی ہے اور جنہیں زبردستی زیادتی کانشانہ بنایا گیا ہو وہ ساری عمر پھر جنس مخالف سے نفرت کرتا رہتا ہے۔ خاتون سائیکاٹرسٹ ویسے تو بہت سی ان دیکھی دنیا کی کہانیاں بیان کرتی ہے عورت ہونے کے باوجود ان کے نظریات میں تبدیلی بھی ایسے ہی رویوں کو دیکھ کر اور ان کے بارے میں جان کر آئی۔ ان کے نظریات اورخیالات کا یہاں لکھنا اس لئے بھی مشکل ہے کہ اخلاقیات اجازت نہیں دیتیں، معاشرہ ایسے کھلے ڈلے تجربات کو کھلے عام اور اخبارات میں بیان کرنے کی بھی اجازت تک نہیں دیتا۔ باتیں بے شمار ہیں جو ہم نے اپنے بہت سے دوستوں سے شیئر کیں اوران سے مشورہ کیا کہ انہیں نوک قلم پر کیسے لائیں کہ اخلاقیات کا دامن بھی تار تار نہ ہو، معاشرہ بھی ’منٹو‘ کی صف میں نہ کھڑا کرے۔ سو ان دوستوں کی مشاورت کے بعد کچھ ڈھکی چھپی کہانیاں بیان کی ہیں یہ تصویر کا وہ رخ ہے جو بہت دکھایا، سنایا جاتا ہے، ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کو برا لگے لیکن یہ بھی معاشرہ کے وہ کردار ہیں جو جیتے جاگتے، سانس لیتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).