کچھ بات ابراہیم جلیس کی


ابراہیم جلیس نام تھا ۔ حیدر آباد دکن کی مٹی تھی اگرچہ انہیں خود خبر نہیں تھی کہ ان کی مٹی کہاں کی تھی ۔ قلم براق اور طبیعت پارہ صفت۔ لکھنے کی چٹیک نے علی گڑھ یونیورسٹی ہی میں آن لیا تھا جہاں سے 1940 میں بی اے کیا ۔کچھ دن سرکاری ملازمت کا بھاڑ جھونکا ۔ یک بینی و دو گوش نکال باہر کئے گئے۔ ابھی بیس برس کے نہیں ہوئے تھے کہ ہندوستان کے بہترین ادبی ماہنامے ساقی میں نمودار ہوئے جس کے مدیر شاہد ساقی تھے۔ اپنی کہانی ”زرد چہرے “ سے د ھوم مچا دی ۔ طنز یہ مضامین کی کتاب ”چالیس کروڑ بھکاری “ شائع ہوئی تو اردو ادب پڑھنے والوں کو معلوم ہوگیا کہ ابراہیم جلیس کے سوز نہاں نے طنز کی پگڈنڈی ڈھونڈ نکالی تھی۔

کچھ روز بمبئی کے فلم نگر میں قسمت آزمانا چاہی جہاں سیٹھ لوگ کہانی اور مکالمے لکھنے والوں کو چوپڑی والا کہتے تھے۔واپس حیدر آباد پہنچے جہاں  1946 میں ترقی پسند مصنفین کے کل ہند اجتماع کا بار اپنے ناتواں کندھوں پر لیا ۔تحریر میں مارکسی رحجانات ،بین السطور ہی نہیں ، بلکہ لفظ لفظ میں جھروکہ درشن دیتے تھے مگر پاﺅں میں وارفتگی کی ایسی زنجیر تھی کہ نظام دکن کے حیدر آباد میں قاسم علی کی تحریک ”اتحاد مومنین “ سے وابستہ ہو گئے ۔ اندر کے مسلمان کی آواز پر ”ترنگے کی چھاؤں میں“ لکھی ۔ 1948ء میں پاکستان پہنچے جہاں باہر کے مسلمان سے واسطہ پڑا تو ”دو ملک ایک کہانی “ لکھی۔ امروز، انجام، جنگ، حریت اور مساوات جیسے مختلف اخبارات سے وابستہ رہے امروز میں سب ایڈیٹر ہوگئے۔ کچھ عرصے روزنامہ انجام کے مدیر بھی رہے اور انہوں نے اپنا ایک ہفت روزہ بھی عوامی عدالت کے نام سے جاری کیا۔ لیاقت علی خان نے وسیع ترقومی مفاد میں پبلک سیفٹی ایکٹ نافذ کیا۔ ابراہیم جلیس نے ”پبلک سیفٹی ریزر “ کے عنوان سے ایسی کاٹ دار تحریر شائع کی کہ پانچ مہینے کےلئے پس دیوار زنداں پہنچ گئے۔

چینی حکومت کی دعوت پر چین کا دورہ کیا اور ایک سفر نامہ لے کر واپس آئے ۔ 1955ءمیں کراچی چلے گئے جہاں مجید لاہوری کی وفات کے بعد روزنامہ جنگ میں ”وغیرہ وغیرہ“ کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا۔ دھوم مچ گئی کہ آبنو سی جلد اور تیکھے خدوخال والی اس مشت خاک میں زعفران کے کھیت بھی تھے اور مزاح کی پھلجھڑیاں بھی۔ 1961ء میں امریکی حکومت نے کئی مہینے کے لئے مطالعاتی دورے پر بلایا ۔ واپس آکر سفر نامہ نہیں لکھا کچھ دیر روزنامہ انجام “ کی ادارت کی ۔ یہ باب انجام کو پہنچا تو”عوامی عدالت “کا ڈول ڈالا ۔ سرمایہ نہیں تھا۔ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا ۔1975 میں پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان روزنامہ ’’مساوات‘‘ کراچی کے مدیر ہو گئے۔ جولائی 1977 میں فلک نے ایک اور انقلاب دکھایا۔ ضیاالحق نے مساوات بند کردیا ۔ ابراہیم جلیس تو بے روز گاری کے عادی تھے مگر اپنے رفقا کی بے روز گاری نہیں دیکھ سکے۔ جگہ جگہ بے روز گارصحافیوں کی دہائی دیتے تھے ۔ یہی کسک 26 اکتوبر 1977ء کو ابراہیم جلیس کے دل تک جا پہنچی۔ اردو کے اس طناز اور صاحب اسلوب ادیب نے 55 برس کی عمر میں آنکھیں موند لیں۔

ابراہیم جلیس ایک بہت اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’رشتہ‘‘ فروری 1943ء میں ’’ساقی‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں زرد چہرے، چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، اوپر شیروانی اندر پریشانی، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابل ذکر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments