مغربی اور مشرقی تہذیب کا غوغا



اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں،

نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے (اقبال)

ہماری آنکھ کھلنے سے پہلے ہی سے ہمارے بزرگ نئی تہذیب کے پیچھے لٹھ لیے گھوم رہے ہیں۔ ایک زمانے تک اسے فرنگی تہذیب کہا جاتا تھا۔ پھر یہ فیشن ایبل تہذیب ہو گئی، پھر اپوا تہذیب ہو گئی۔ تنگ پائنچے، آدھی آستین اور گلے میں دوپٹے والی ہر لڑکی فیشن ایبل تہذیب کی دلدادہ پر کٹی قرار پائی، مگر کسی نشے میں دھت مرد کے بارے میں کبھی طعنہ نہیں سنا کہ دیکھو یہ جا رہا ہے مشرقی تہذیب کے دامن پر دھبہ نئی تہذیب کا گندا انڈہ (شائد وجہ یہ ہو کہ ہمارے کئی بزرگ ہاف سلیو پہنے بغیر ریاض خیر آبادی کے اشعار پر جھومنے کو مشرق کی تہذیب کا ایک خوشگوار پہلو سمجھتے تھے)۔

جس زمانے میں ہم نے محاورتاً قدرے ہوش سنبھالا۔ اس زمانے میں حسن طارق کی فلم تہذیب بھی ریلیز ہوئی تھی۔ تین دن بعد (تئیس نومبر انیس سو اکہتر) بھارت نے مشرقی پاکستان پر باضابطہ حملہ کر دیا (اس حملے کا فلم کی ریلیز سے کوئی لینا دینا نہیں)۔

فلم سے زیادہ مشہور سیف الدین سیف کا یہ گانا ہوا ’’لگا ہے حسن کا بازار دیکھو، نئی تہذیب کے آثار دیکھو‘‘ … یہ گانا ایک نائٹ کلب کے سیٹ پر رانی پر فلمایا گیا۔ اس کا پہلا مصرعہ دراصل یہ تھا کہ ’’لگا ہے مصر کا بازار دیکھو‘‘ ۔ مگر سنسر بورڈ نے مصر کو حسن سے بدلوا دیا مبادا حکومتِ مصر اپنی توہین پر احتجاج نہ کر دے اور یوں مصر سے وہ تعلقات اور خراب ہو جائیں جو پہلے ہی مغرب دشمن جمال ناصر کے سبب اچھے نہیں تھے۔

پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ فرنگی تہذیب، فیشن ایبل تہذیب اور نئی تہذیب کو مغربی تہذیب کا طعنائی استعارہ مل گیا اور تب سے اب تک یہی چلا آ رہا ہے۔ جب بھی مغربی تہذیب کا استعارہ بطور کوڑا لہرایا جاتا ہے تو اس سے مراد کبھی یہ نہیں ہوتی کہ فلاں شخص سائنس، ٹیکنالوجی، مغربی فلسفے، آرٹ، ادب، تعلیم وغیرہ کا دلدادہ ہے بلکہ اس سے مراد فیشن (بالخصوص زنانہ فیشن)، جینز، مخلوط محافل، ناچ گانا، پینا پلانا، خواتین کے حقوق کے داعی، این جی اوز، موم بتی مافیا، بنا نکاح کے ساتھ رہنا، یورپی شوہر اور بیویاں، ہلو ہائے موا موا وغیرہ وغیرہ ہوتا ہے۔ اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ مغرب میں ہر زن و مرد چوبیس گھنٹے اسی میں سے کسی نہ کسی برائی میں مست ہے (اگر ایسا ہی ہے تو ان لاکھوں جرات مند مسلمانوں پر سلام جو یورپ اور شمالی امریکا میں گناہوں کی اس دلدل کے بیچ خود کو پاک دامن رکھنے کی مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں)۔

اور جب پوچھا جائے کہ مجرا، جوا، لواطت، کاروکاری، ریپ، بد کلامی، کس تہذیب کا حصہ ہیں تو کہا جاتا ہے یہ سماجی بیماریاں، علتیں اور جرائم ہیں۔

ویسے جب ہم کہتے ہیں کہ ہماری تہذیب مشرقی ہے تو اس سے کیا مراد ہے؟ شرم و حیا؟ مگر کس کے لیے؟ صرف عورت کے لیے؟ کسی مشرقی مرد کے بارے میں کیوں نہیں کہا جاتا کہ ندیم صاحب شرم و حیا کا پیکر ہیں۔ یہ جملہ صرف جمیلہ کے لیے ہی کیوں مخصوص ہے۔

غیرت؟ یہ اصطلاح بھی خواتین کے طرزِ عمل کے بارے میں مردانہ ردِعمل کے لیے مخصوص ہے۔ کیا خواتین کو اپنے مردوں کے افعال پر غیرت نہیں آتی؟ اگر آتی ہے تو اس کے لیے متبادل اصلاح اور بیانیہ کیا ہے؟ اگر مرد کو صرف بے غیرت کہنے سے بے غیرتی کی تلافی ہو سکتی ہے تو یہی لفظ عورت کی بے غیرتی کی تلافی کے لیے کیوں ناکافی ہے؟ وہ مار بھی دی جائے تب بھی وہ بری کیوں نہیں قرار پاتی؟

مغربی تہذیب میں لباس، رہن سہن، عقائد، رسوم و رواج کی بنیاد کم و بیش ایک ہی ہے۔ لیکن جب ہم مشرقی تہذیب کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو کیا اس سے مراد ایشیائی تہذیب ہے (کیونکہ ایشیا میں تو چین اور جاپان بھی شامل ہیں اور وہ بذاتِ خود ایک علیحدہ تہذیبی شناخت رکھتے ہیں) یا اس سے مراد جنوبی ایشیا کی گنگا جمنی تہذیب ہے یا خالصتاً مسلمان تہذیب یا پھر عرب یا وسط ایشیائی تہذیب؟ ان میں سے ہر تہذیب کی مقامی سوچ، باقی دنیا کے بارے میں زاویہِ نگاہ، رہن سہن، پہناوا، شرم و حیا کے تصورات، پردے کی تشریح بالکل مختلف ہے۔ لہذا جب ہم پاکستان، بھارت یا بنگلہ دیش میں رہ کر مشرقی اقدار کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو خود کو ایک کنفیوژن میں مبتلا نہیں کرتے؟

تقسیم کے بعد سے یہ بات کہنے میں کیوں شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے نزدیک مشرقی تہذیب کا مفہوم دراصل گنگا جمنی اور اسلامی تہذیب سے لی گئی چنیدہ اقدار ہیں۔ جو نہ خالص جنوبی ایشیائی ہیں اور نہ ہی خالص اسلامی۔ گھونگھٹ صرف جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں تو نہیں ہوتا وہ تو یہاں کے ہندوؤں میں بھی ہے۔ شادی اور سوگ کی مقامی رسومات جنوبی ایشیا کی غالب ہندو اور مسلمان تہذیب کے اجزا کے مجموعے کے سوا کیا ہیں؟

غیرت کا جو مفہوم جنوبی ایشیا میں ہے کیا جنوبی ایشیا سے باہر بھی وہی ہے؟ اور خود جنوبی ایشیا میں بھی غیرت ظاہر کرنے کا کیا خیبر سے راس کماری اور کراچی سے چٹاگانگ تک ایک ہی انداز ہے؟ رہی بات بے پردگی کی تو اب سے سو برس پہلے خواتین پالکی میں سفر کرتی تھیں۔ اب سے پچاس برس پہلے خواتین کی اکثریت برقع یا چادر میں باہر نکلتی تھی۔ آج دو ہزار سترہ میں دیر کی عورت کا ٹوپی برقعہ پہنے بغیر باہر نکلنا بے پردگی شمار ہوتا ہے مگر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کتنی خواتین کسی بھی طرح کے برقعہ میں نظر آتی ہیں اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے پردے کی کیا تشریح ہے؟ ان میں سے آپ کسے شرم و حیا اور مشرقی تہذیب کی کسوٹی پر کیسے پرکھیں گے؟ اور جو لڑکی فائٹر جیٹ اڑا رہی ہے وہ؟

کیا چار دن پہلے کسی کو ماریا تورپکئی کے لباس میں کوئی خرابی نظر آ رہی تھی؟ جب کئی برس پہلے طالبان نے اس بارے میں نشاندھی کی تھی تب کسی نے سنجیدگی سے توجہ کیوں نہیں دی؟ کیوں کسی اینکر یا جوشیلے نے نہیں کہا کہ بہن اسکواش ہی کھیلنا ہے تو چوڑی دار لباس یا شلوار سوٹ میں ہی کھیل لو۔ جو چار دن پہلے پاکستان کی ہیرو کھلاڑی تھی آج وہ تہذیبی ولن کیسے ہو گئی؟ تو پھر عریانیت کہاں ہے؟ دماغ میں، آنکھوں میں یا کپڑوں میں؟

مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کنفیوژن سے نکلنے کے لیے بحث کون کرے؟ فوراً کوئی نہ کوئی لیبل چپکنے کو تیار ہے۔ ہم سب خود کو میدان میں بٹھا کر ایک دوسرے کو پوری طرح سمجھنے کے بجائے دلائل کے اونی کپڑے پہن کر برانڈڈ سوچ کے چشمے لگائے ایک دوسرے کو سمجھانے میں مصروف ہیں۔ بلکہ سمجھانے میں نہیں چپ کروانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جس کی جتنی آواز بلند اس کی دلیل اتنی ہی طاقتور۔

اس تناظر میں عائشہ گلالئی اور عمران خان کے حامیوں کے نظریہِ مغربی تہذیب اور جوابی کیچڑ کی اچھال کو دیکھئے تو سوائے انمل بے جوڑ شور و غوغا کے کیا پلے پڑ رہا ہے۔ کچھ اقدار انسانوں کی مشترکہ میراث ہیں جیسے سچ، رواداری، احترامِ آدمیت اور کچھ برائیاں بھی مشترکہ میراث ہیں جیسے جھوٹ، منافقت، تشدد۔جب ہم ان مشترکہ اقدار یا عیوب کو انفرادی یا اجتماعی طور پر اپنانے یا ان سے پرہیز کرنے کی کوشش کے بجائے انھیں کسی مخصوص تہذیبی، نظریاتی یا علاقائی مرتبان میں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سوائے نفرتی گند کے کیا ہاتھ آتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).