عائشہ گلالئی کو بولنے دیجیے!


 عائشہ گلالئی جو کہ پی ٹی آئی کی فعال رکن تھیں، اپنی سیاسی جماعت چھوڑ گئیں۔ اس نفاق کی جو وجوہات انھوں نے بیان کیں،وہ جماعت کی مالی کرپشن اور لیڈروں کی اخلاقی پستی تھیں۔

 

مالی کرپشن کے لیے انھوں نے خیبر پختونخوا کے وزیرِاعلیٰ کا نام لیا اور اخلاقی پستی کے لیے تحریک کے سربراہ عمران خان صاحب کو نامزد کیا کہ موصوف مجھے اخلاق سے گرے ہوئے پیغامات بذریعہ ‘بلیک بیری’ بھیجتے رہے او ر اس واقعے کو آج قریباً چار سال ہوتے ہیں۔

 

یہ سب سن کر پہلے تو میں ہنسی، پھر رو پڑی۔ ہنسی اس لیے کہ شکر ہے چار سال بعد ہی سہی عائشہ کو یہ بات کہنے کی ہمت تو ہوئی اور روئی اس لیے کہ اگر یہ بات جھوٹی نکلی تو آئندہ کوئی عورت یہ ہمت نہیں کر پائے گی (ویسے روئی میں اس بات پہ تھی کہ اب عائشہ کی کردار کشی کی مہم شروع ہو جائے گی، جس میں عورتوں کی عمومی تذلیل بھی ہو گی)۔

 

ایک انسان، سیاستدان اور پاکستان کے شہری ہونے کے ناطے انھیں اپنی بات کہنے کا حق حاصل تھا اور انھوں نے یہ حق استعمال کیا۔ وزیرِاعلیٰ کی کرپشن، جو اصل میں عوام کی توجہ کا مرکز ہونا چاہیے تھی کہیں بیانات کی گرد میں دب گئی۔ شور مچا تو اس بات کا کہ وہ پیغامات کیا تھے؟ عائشہ کا کہنا ہے کہ وہ پیغامات ہراسانی کے زمرے میں آتے ہیں۔ جواب میں یہ سوال کیا گیا کہ چار سال تک آپ خاموش کیوں رہیں؟

 

جو گرد اڑائی جا رہی ہے، عائشہ کے خاندان، قبیلے، باپ، بہن اور بھائی کے خلاف جو بھی گفتگو کی گئی وہ بھی میرے نزدیک ہراسانی کے زمرے میں آتی ہے۔ ماریہ تورپیکئی ہمارا فخر ہے اور رہے گی۔ اس کے لباس کے بارے میں بات کرنے والوں کو اپنی نظر کے پردے پہ توجہ دینی چاہیے۔ جب تک عائشہ کے لگائے ہوئے تمام الزامات کی چھان بین نہیں ہو جاتی، تحریکِ انصاف کے حامی ٹیلی ویژن اینکرز، اخبار نویس اور دیگر احباب نادان دوست کی طرح اپنی بدزبانی سے تحریکِ انصاف کاتائثر مزید بگاڑ چکے ہوں گے۔

 

جو حالات چل رہے ہیں انھیں دیکھ کر مجھے ایک بھارتی فلم یاد آ رہی ہے، جس میں ریپ کے جرم کا شکار عورتیں صرف اس لیے عدالت کا رخ نہیں کرتیں کہ وہاں ان سے ایسے سوالات کیے جائیں گے کہ وہ اعصابی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں، جرم کی وہ باریک تفاصیل پوچھی جائیں گی جو جرم ثابت کرنے کے لیے تو ضروری نہیں مگر مدعی کو ہراساں کرتی ہیں۔

 

اب آجائیے اس بات کی طرف کہ عائشہ کو عوامی ہمدردی حاصل کیوں نہ ہوئی۔ اس کے لیے ذرا پیچھے چلتے ہیں۔ ضیا دور میں حدود آرڈینینس پاس ہونے کے بعد، چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے نام پہ شریف مردوں کو خوب ستایا گیا۔ اس میں حیرت کیسی؟ مرد بھی شریف ہو سکتے ہیں۔ موقع پرست خواتین، یا ان کے دلال نما رشتے داروں نے جھوٹے معاملات میں بے شمار شرفا کی پگڑی اچھالی۔

 

دیہات میں یہ ایک عام واقعہ ہے کہ مخالفین کو رسوا کرنے کے لیے ان پہ دست درازی کاالزام لگا دیا جاتا ہے۔ شیشے کی بوتل میں چھنگلی ڈال کر توڑ لی جاتی ہے، ٹانگ میں ایسے گولی ماری جاتی ہے کہ صرف گوشت کو ضرب آئے۔ یہ سب ضربات اور الزامات گو جھوٹے ہوتے ہیں اور لوک دانش کے تحت جج کو بھی فوراً اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے لیکن مقدمہ بھی درج ہوتا ہے اور چھان بین بھی ہوتی ہے۔ اس دوران، معاشرے میں جس شخص کے بارے میں جو رائے موجود ہوتی ہے وہی رہتی ہے۔ لوگ اس قسم کے مقدمات کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہاں مخالفین خوب بغلیں بجاتے ہیں۔

 

لیکن کسی بھی صورت میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص کو اپنی شکایت بیان کرنے سے روکے۔ عائشہ گلالئی کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس کے بعد لاکھوں خواتین جو اس رویے کا شکار ہوتی ہیں خوفزدہ ہو جائیں گی اور اپنی شکایات دبا لیں گی۔ سماجی بھیڑیوں کو پنپنے کا مزید موقع ملے گا۔

 

یہ معاملہ عدالت میں لے جائیے۔ عائشہ کا سچ اور جھوٹ عدالت متعین کرے گی۔ وہی عدالت جو ہفتہ بھر پہلے ملک کے وزیرِ اعظم کو معزول کر چکی ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ جب اتنی مضبوط عدلیہ موجود ہے جس پہ تحریکِ انصاف کب سے واری صدقے جارہی ہے تو ماورائے عدالت کردار کشی کی مہم کا کیا فائدہ ؟

 

ہمارے ذہنوں میں عمران خان کا جو امیج ہمیشہ سے موجود ہے اس پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا، اور ظاہر ہے خان صاحب کے کردار کی مضبوطی کی کون گواہی نہیں دے گا ؟ جہاں تک بات ہے عائشہ کی تو وہ تو ہے ہی کم عقل عورت یقیناً باپ بھائی کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہو گی۔ عائشہ کو بولنے دیجیے، جھوٹی یا سچی کوئی آواز تو سنائی دے رہی ہے، بولنے دیجیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).