کیا بچوں کے ادب کو اینٹی ہندو ہونا چاہیے؟


آج پاکستان کے ایک ادیب کی تازہ کہانی نظروں سے گزری جو بچوں کے ایک صف اول کے ماہانہ رسالہ کے پاکستان نمبر اگست 2017 کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی کہانی کو فیس پک پر بھی شائع کیا۔ کہانی کا بغور مطالعہ کیا۔ یہ کہانی تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھی گئی ہے اور ہجرت پاکستان کے واقعات کو اس کہانی کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ یہ پاکستان کے بچوں کے لئے کہانیاں لکھنے والے ادیبوں میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، کئی ایوارڈز حاصل کرچکے ہیں اور طویل عرصہ سے بچوں کے ادب کی بےلوث خدمت کررہے ہیں۔ بنیادی طور پر میں ان کی کہانیوں کا بہترین پلاٹ اور تکنیکی اعتبار سے مضبوط ہونے کی وجہ سے بہت بڑا مداح ہوں۔

انکی زیربحث کہانی بھی شاندار انداز میں واقعات کا ترتیب سے احاطہ کرتی نظر آتی ہے، کردار نگاری بے مثال ہے۔ فیس بک پر بھی اس کہانی کو بے مثال پذیرائی مل رہی ہے اور امید ہے رسالہ کے قارئین بھی پسند کریں گے۔ جو بات مجھے کھٹکی وہ کہانی میں ہندو مذہب کو انتہا پسند مذہب بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں یہ لکھا گیا ہے کہ مکاری ہندو قوم کی فطرت میں شامل ہے۔

تقسیم ہند کے حقائق کیا تھے؟ کس نے کس کے ساتھ زیادتی کی؟ کون سچا تھا کون جھوٹا؟ کس نے زیادہ ظلم کیا اور کس نے کم؟ ان باتوں سے قطع نظر میرا پاکستان کے تمام بچوں کے ادیبوں سے صرف ایک سوال ہے کہ اس کہانی کو جب سندھ کا ایک ہندو بچہ پڑھے گا تو اس کے دل پر کیا گزرے گی؟ کیا وہ بچہ پاکستانی نہیں ہے؟ قائد کا یہ پیارا پاکستان جس میں مسلمانوں کے علاوہ بہت سے مذاہب کے افراد بستے ہیں ہم ان کے بچوں کو ایسا احساس کیوں دلانا چاہتے ہیں کہ وہ اس ملک کو بیگانہ سمجھیں۔ اگر اس کہانی میں مذہب سے متعلق یہ پیراگراف نہ بھی ہوتا تو کہانی کو فرق نہیں پڑتا تھا۔

میرا نظریہ یہ ہے کہ مذہبی مباحثات کو بچوں کے ذہنوں سے دور رہنا چاہیے، بچوں میں جذبہ حب الوطنی اور اچھائی اور برائی کی تمیز پیدا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ یہ کام کسی بھی مذہب کو ٹارگٹکیے بنا ہوسکتا ہے۔ اگر بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایسا کیا جاتا ہے تو پورے پاکستان کی طرف سے اس کیمذمت ہوتی ہے، یہی اصول ہمیں خود پر لاگو کرنا چاہیے۔

پاکستان میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے ایک سے بڑھ کر ایک لکھاری موجود ہیں، مگر بدقسمتی سے اکثریت ابھی تک نصابی بیانئے کے سحر سے آزاد نہیں ہوسکی۔ اس بیانئے کو لکھاریوں کے ذہنوں میں مضبوط کرنے میں دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ بچوں کا ادب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ادارہ پاکستان میں بچوں کے ادب کے لئے کام کرنے والا مرکزی اور بڑا ادارہ ہے۔ اس ادارے کی ترجیحات بہت محدود ہیں، اتنی محدود کہ یہ دوسرے مذاہب تو کیا بعض مسالک سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں کو بھی اپنے تربیتی کیمپس اور ورکشاپس میں مدعو نہیں کرتے۔ ایسے حالات میں لکھاری جس سوچ اور نظرئے کا شکار ہوں گے اس کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک وقت خاکسار بھی اس نصابی بیانئے کا شکار تھا، ایک کہانی بھی ایسی لکھی کہ جس کو آج پڑھوں تو شرمندہ ہوں، مگر انسانی زندگی میں سوچ کا ارتقا اشد ضروری ہے۔

پاکستان میں بچوں کے ادب کے یہ لکھاری باصلاحیت ہونے کے باوجود سوچ اور نظریات کے سلسلے میں انجماد کا شکار ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو مذہب کے دائرے تک محدود کرلیا ہےاور قومی و عالمی نظریات تک ان کی رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو چند روشن خیال لکھاری یہاں موجود ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور بچوں کے ادب کے مین اسٹریم میڈیا کے خلاف جانے کی ان میں ہمت نہیں۔

یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ دینی اور اسلامی موضوعات پر کہانیوں پر اعتراض نہیں کیا جارہا۔ بچوں کو ان کے مذہب سے جوڑنا اور بنیادی اخلاقی اقدار سے روشناس کروانا ازحد ضروری ہے اور یہ کام بھی دوسرے مذاہب سے نفرت کا درس دیے بنا ممکن ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).