باسٹھ تریسٹھ کا ڈبہ


ایک اور تماشا بند ہوا، ایک اور پتلی کو ڈبے میں بند کردیا گیا۔ کیا کیا جائے، یہی تو ہوتا ہے کہ پتلی تماشے میں، اسی طرح تو ہوتا ہے اس فن میں۔ اگرچہ یہ فن عام ڈرامے سے بہت ہٹ کر ہے۔ پتلی تماشا شروع ہوتا ہے تو بعض اوقات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا بلکہ ایک کے بعد دوسرا تماشا اور ایک کے بعد دوسرا ایکٹ شروع ہوجاتا ہے۔ تماشے کے ایک ایکٹ میں پتلیوں کو سونپے جانے والے کردار ابھی پوری طرح سمجھ بھی آتے کہ اچانک پرانی پتلیوں کی جگہ اسکرپٹ میں نئی پتلیاں نئے کردار کے ساتھ رونما ہوجاتی ہیں۔

تمام پتلیاں ناچتی ہیں، اپنا کردار ادا کرتی ہیں اور چپ چاپ نئے کرداروں کے لئے جگہ چھوڑ دیتی ہیں، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ’’جادوئی‘‘ اثر سے کسی پتلی میں جان پڑ جاتی ہے اور پتلی نئے کرداروں کو جگہ دینے کے لئے اپنی جگہ چھوڑنے سے انکار کردیتی ہے۔ یہ بات اُن انگلیوں کو بہت گراں گزرتی ہے، جن کی زندگی پتلیوں کی ڈوریں ہلاتے گزر چکی ہوتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی تمثیل میں پتلیوں کا یہ ناچ گزشتہ ستر برسوں سے جاری ہے۔ کئی پتلیاں اپنے انجام سے دوچار ہوچکیں، لیکن پتلیوں میں جان پڑنے کا عمل ختم نہیں ہوسکا۔

یوں تو پاکستان میں سیاسی پتلیوں کا ناچ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا لیکن یہ پتلیاں زیادہ تر انگریز کی سدھائی ہوئی پتلیاں تھیں، جن کی زیادہ تر تعداد تاج برطانیہ کے ساتھ ضم ہونے والی نوابی ریاستوں کے تاراج ہوتے نواب زادوں پر مشتمل تھی۔ پہلی ’’میڈ ان پاکستان‘‘ سیاسی پتلی کا خمیر لاڑکانہ کے بھٹو خاندان سے اُٹھا تھا۔ کامل نو برس تک یہ پتلی اشاروں پر ناچتی رہی، لیکن اس مشق کے دوران اس پتلی نے انگلیوں کو نچانا بھی سیکھ لیا تھا۔ مکاری کی حد تک ذہین اس پتلی نے ڈیڈی ڈیڈی کہتے ہوئے ایک جانب ایوب خان کا اعتماد جیتا اور دوسری جانب ناخلف اولاد کی طرح وقت پڑنے پر عالمگیر کی سنت پر عمل کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہ کی۔ آپریشن جبرالٹر سے لے کر معاہدہ تاشقند تک اور پھر سقوط ڈھاکہ تک کا سارا ملبہ کامیابی کے ساتھ ’’انگلیوں‘‘ پر گرا دیا۔ وہ تو اگر یحییٰ خان کا اپنا لالچ اور مجبوریاں آڑے نہ آجاتیں تو گڑھی خدا بخش کی پتلی کا جو انجام 77ء میں ہوا، وہ شاید بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔

محمد خان جونیجو کو پاکستانی سیاست کی سب سے شریف النفس پتلی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی تاثر کی وجہ سے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق نے سندھ سے جونیجو کے سر پر ہما بٹھا کر توقع لگالی کہ سندھڑی آم کی طرح ان کا انتخاب بھی میٹھا نکلے گا، لیکن حلف اٹھاتے ہی محمد خان جونیجو کے پہلے خطاب نے ہی جنرل ضیاء الحق کے حلق میں کڑواہٹ بھر دی ’’اب جب جمہوریت بحال ہوچکی ہے تو مارشل لا اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔ جنرل ضیاء الحق نے اُس روز مارشل لا اٹھانے کی دستاویز پر دستخط تو کردیے لیکن ذہن میں یہ سوال بھی کلبلاتا رہا کہ خاک کی پتلی اور اپنے خاکی آقا کے سامنے یہ جسارت! اوجڑی کیمپ دھماکوں کی تحقیقات اور افغانستان سے روسی افواج کی واپسی کے معاہدے پر جنیوا میں دستخط تو خیر بہت بعد کی بات ہے لیکن جونیجو نامی پتلی کو گھر بھیجنے کا حکم نامہ جنرل ضیاء نے سادہ کاغذ پر پنسل سے لکھ کر اُسی روز جیب میں ڈال لیا تھا۔

اپنے والد کے انجام سے اچھی طرح باخبر ہونے کے باوجود اقتدار کے تماشے میں حصہ دار بننے کے لئے بینظیر بھٹو کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ ایک تابعدار پتلی بن کر رہے، اس کے باوجود آکسفورڈ کی سند یافتہ اس پتلی نے بار بار کوشش کی کہ کسی طرح وہ نچانے والے دھاگے کی زنجیر پاؤں سے اتار پھینکے۔ اپنی اِس کوشش میں بینظیر نے دو مرتبہ اپنی حکومت سے ہاتھ بھی دھوئے اور آخری اقتدار کے آخری دنوں میں اپنے جوان بھائی کا گولیوں سے چھلنی جسم بھی دیکھا۔ 2007ء میں این آر کی صورت میں ایک مرتبہ پھر اس پتلی نے ایک طے شدہ فریم ورک کے مطابق ناچنے کا معاہدہ کیا۔ وطن واپسی پر حالات انگلیوں کے مخالف بھانپ کر اِس پتلی نے جیسے ہی تھرکنا چاہا تو لیاقت باغ کے گرد ایستادہ شکستہ عمارتوں نے ایک اور وزیراعظم کا جسم بے جان ہوتے دیکھ لیا۔

اس دوران میر ظفر اللہ جمالی اور چودھری شجاعت حسین جیسی انتہائی تابعدار اور فرماں بردار پتلیاں بھی تمثیل کا حصہ بنیں، ان پتلیوں نے انتہائی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بساط اور اوقات سے بڑھ کر ’’رقص‘‘ پیش کیا۔ ان پتلیوں کا مخصوص کردار تھا، اس کردار سے زیادہ ادا کرنے کی اِن پتلیوں نے خواہش بھی نہیں کی۔ اِسی لیے تو جیسے ہی انگلیوں کے پیچھے سے اشارہ ابرو پایا تو کورنش بجالاتے ہوئے تمثیل سے فورا الگ ہوگئیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوا کہ لوگ مقامی پتلیوں کے رقص سے بیزار اور اکتاجاتے یا نہیں بور کردیا جاتا تو تفنن طبع اور دل بہلانے کے لئے بیرون ملک سے برآمدی پتلیاں منگوالی گئیں۔ یہ پتلیاں زیادہ تر عالمی ساہو کار اداروں سے منگوائی گئیں۔ انہی پتلیوں میں سے معین قریشی کو ازاربند باندھنا سکھانے کی بجائے پتلون کو سنبھالنے کے لئے ’’گیلے سز‘‘ استعمال کرنے کا راستہ دکھایا گیا تو نستعلیق لہجے میں اردو بولنے والے برآمدی وزیراعظم شوکت عزیزکو اردو سکھانے کے بجائے رومن انگلش میں تقریرلکھ کر سہولت فراہم کی جاتی رہی۔ کسی بڑے کردار کی امید میں نگرانی کا فریضہ سرانجام دینے والی پتلیوں میں مصطفی جتوئی، معراج خالد، محمد میاں سومرو اور میر ہزار خان کھوسو نے جب دیکھا کہ بڑا کردار نہیں ملنا تو محض ’’کورس‘‘ میں شامل ہوگئیں اورتاریخ میں اپنا نام درج کروانے کے لئے چپ چاپ رقص سرشاری میں مگن رہیں۔

پتلیوں پر تجربات کرنے والوں نے خاندانی سیاسی پتلیوں سے اکتا کر 80 کی دہائی میں کاروباری خاندانوں پر تجربہ کرنے کی ٹھان لی۔ امید باندھ لی گئی کہ یہ تجربہ ناکام نہیں ہوگا کہ راولپنڈی جیل میں پھانسی گھاٹ پر جھولتی پاکستانی تاریخ کی سب سے کرشماتی پتلی کا بے جان لاشہ ایک کاروباری پس منظر رکھنے والے نواز شریف کو ہمیشہ اس کی اوقات میں رکھے گا، لیکن پاکستان کے سیاسی تمثیل کا سب سے منفرد روپ ہی یہی ہے کہ جیسے ہی کسی پتلی کو مرکزی کردارملا تو اس نے دھاگے کے دوسرے کنارے پر نچاتی انگلی سے جان چھڑا کر اپنے کردار کو اپنے انداز میں پیش کرنے کی کوشش شروع کردی۔ اسی کوشش میں تاجر برادری کو ہم نوا بنانے والی اس پتلی کا مرکزی کردار جب پہلی مرتبہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو جاتے جاتے اُس نے اسحاق خان کی شکل میں پتلیاں نچانے والوں کی سب مضبوط انگلی بھی کاٹ ڈالی۔ اپنا کردار منوا کر یہ پتلی 1997ء میں دوبارہ تمثیل کا حصہ بنی تو اس نے سارا اسکرپٹ خود لکھنے کا فیصلہ کرلیا، لیکن وہ انگلیاں ہی کیا، جو پتلی کا دھاگہ ڈھیلا کردیں۔ عالمی فنکاروں کی مدد سے اِس پتلی کو 1999ء میں زبردستی دس سال تک ڈبے میں بند کرنے کا معاہدہ کرا لیا گیا۔

گزشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران کئی پتلیاں آئیں لیکن تھیٹر پر اپنا کردار صرف وہی پتلی پورا ادا کرسکی، جس نے انگلیوں سے بغاوت نہ کی۔ جس نے بھی بغاوت کی، اس کے خلاف انگلی کھڑی کرنے کے لئے کسی بہانے کی ضرورت پڑی نہ ہی کوئی تردد کیا گیا۔ اب یہی دیکھیں کہ خطاء کے پتلوں نے 11مئی 2013ء کو جسے اپنی قیادت کے لئے منتخب کیا تھا، تھیٹر لگانے والی انگلیوں نے اُسے آخری پتلی سمجھ کر 28 جولائی 2017ء کو باسٹھ تریسٹھ کے ڈبے میں بند کردیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).