زندگی رقص کرتی رہے گی


 یہ کائنات اسی دن وسعت پذیر ہونا شروع ہوئی جب اس میں زندگی کا جنم ہوا، اور زندگی نے اُس روز وسعت پذیر ہونا شروع کیا جب انسان نے پیار کرنا شروع کیا۔

دو انسانوں نے پیار کیا، اور زندگی وسعت پذیر ہوئی۔۔۔۔۔۔اور جوں جوں زندگی وسعت پذیر ہوتی گئی، اتنی ہی انسانوں کے مابین محبت وسعت پاتی چلی گئی۔

بگ بینگ سے محض زندگی کا جنم ہوا تھا، انسانوں کی محبت نے زندگی کو تسلسل دے دیا۔۔۔

تب سے زندگی مسلسل رقص میں ہے، ایک مسلسل، لامتناہی رقص۔۔۔ جب جب ، جہاں کہیں دو انسان پیار کرتے ہیں، زندگی کا رقص فزوں تر ہو جاتا ہے۔ زندگی مزید ترنگ میں آ کر جھومنے، ناچنے، گانے لگتی ہے، محبت کا ساز بجانے لگتی ہے۔جب جب ‘جہاں جہاں دو انسان ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے لگتے ہیں، زندگی مسکرانے لگتی ہے، حیاتِ نو پانے لگتی ہے۔

اور جب کوئی ہاتھ چھوٹ جائے، کوئی ساتھ ٹوٹ جائے، زندگی کا دم گھٹنے لگتا ہے،گلہ خشک ہونے لگتا ہے، کلیجہ جلنے لگتا ہے، زندگی کا ساز پگھلنے لگتا ہے، جیسے سورج ڈھلنے لگتا ہے، دن اترنے لگتا ہے ۔ ایک ساتھ چھوٹ جانے سے ایک کائنات دم توڑ دیتی ہے، ایک سیارہ ڈوب جاتا ہے، ایک دنیا تاریک ہو جاتی ہے، ایک ذات ویران پڑ جاتی ہے، ایک وجود کملا جاتا ہے، زندگی کا اعتبار دھندلا جاتا ہے۔۔۔

ہم اسی کملائی ہوئی، دھندلائی ہوئی نسل کے لوگ ہیں۔۔۔جن کے پیاروں کے ہاتھ ایک ، ایک کر کے چھوٹتے رہے، ہماری کائنات کے سیارے ایک ایک کر کے ڈوبتے رہے، درخشاں ستارے ٹوٹتے رہے، چھوٹتے رہے۔ ہمارے کلیجوں میں مسلسل آگ رکھ دی گئی ہے، ہمارے خواب اغوا کر لیے گئے، ہماری نیند اڑا لی گئی ، آنکھوں میں مسلسل جاگ رکھ دی گئی۔ ہم رت جگوں کی ماری نسل ہیں، ہم خود اپنے ہی ہاتھوں ہاری نسل ہیں!!۔

ہمارے پیاروں کو کہیں حرص کی فریب کاری کھا گئی، کہیں قبائلیت کی مارا ماری کھا گئی۔ کہیں کوئی ’بوانٹو‘ رات کی تاریکی میں انہیں اٹھا لے گیا، کہیں کوئی بم کا دھماکہ اڑا لے گیا۔ کہیں یہ ایک ہی جسم میں اٹھائیس گولیوں کا نشانہ بنے، کہیں اجتماعی قبروں کا ٹھکانہ بنے۔ جو اس سے بچے تو بیماریوں کے اژدھے کھا گئے۔۔۔بہر صورت‘ ہمارے خواب اڑا لے گئے۔

ہمارے خواب کی اونچی لوذرا دھیمی پڑی تو کیا ظلمتوں کے پالے، کینسر کے رکھوالے، یہ موت کے جیالے، ہماری ہنسی اڑانے لگیں گے؟۔ بے بسی کے سورج کی تپش پل بھر کوبڑھی، تو کیا امید کی چھاؤں دم توڑ دے گی؟۔موت کے وحشی دیو کا ننگا ناچ چلا تو کیا زندگی کا رقص دم توڑ دے گا؟۔

ناں، ناں۔۔۔زندگی کے متوالوں نے یوں کب ہار مانی ہے ۔ موت کا خوف بیچنے والوں کے آگے ہار ماننے کا مطلب ، زندگی بخشنے والی طاقت کی توہین ہے، یہ خود زندگی کی زندگی کی توہین ہے۔ ہم زندگی کی توہین نہ ہونے دیں گے، ہم سانس کے تسلسل کو تھمنے نہ دیں گے، ہم مہر کے تسلسل کو رکنے نہ دیں گے۔

ایک دانی جدا ہوا، تو ہم بلال کو اُس کا عکس بنا لیں گے۔ اس کا سہرا سجائیں گے، دولہا بنائیں گے، گیت گائیں گے۔ مایوسی کے دیو کا منہ چڑا ئیں گے،ناامیدی کے دیوتا کی ہنسی اڑائیں گے۔

ہمارا ایک مری جوان لاپتہ ہوا تو ہم تین ، تین جوانوں (شیراللہ، تمبیل، امریز) کے سر پہ دولہے کی دستار سجائیں گے،نڑ سُر گائیں گے، ڈھول کی تھاپ پہ رقص کناں ہو جائیں گے۔۔۔ رات کی تاریکی میں جوانوں کو اٹھا لے جانے والے ’بوانٹو‘ کی نامردی کا جشن منائیں گے۔۔۔ خوب ناچیں گے، گائیں گے، آگے بڑھتے جائیں گے!!۔

اور، یہی کیا ہم نے گزشتہ دو، چار دنوں میں۔ ہمارے ہاتھوں سے سعید گوہر کا سیارہ چھوٹا تھا، کینسر کے ہاتھوں طریر دانیال جیسا چمکتا ستارہ ٹوٹا تھا۔ مری خاندان کے جوان کہیں جنگ کی لپیٹ میں آئے، کہیں گمشدگی کی جھپیٹ میں آئے۔۔۔۔۔۔ زندگی کا دم گھٹنے لگا تھا، سانس تھمنے لگی تھی، نبض رکنے لگی تھی۔ زندگی کے متوالوں نے مگر اپنے جوانوں پہ زندگی تنگ نہ ہونے دی، ان کی زندگیوں میں زہر نہ گھو ل دیا، بلکہ تازہ ہوا کا ایک روزن کھول دیا۔ تاکہ ہمارے جوانوں کو لگے کہ زندگی محض جنگ نہیں، یہ کائنات اتنی تنگ نہیں، مایوسی ان کا نصیب نہیں، پُژمردگی ان کا حاصل نہیں۔ زندگی پر انہیں دسترس حاصل رہے، ان کے حصے کی خوشیوں پہ ان کا حق حاصل رہے۔

دانیال ہوتا تو اتنڑ کھیلتا اور زندگی کی بانہوں جھوم جھوم جاتا. اور اپنے ماما کے بقول, حسین و ہمہ وقت متحرک مہر گل اگر غائب نہ ہوتا تو اپنے ماما کے گھرانے کی شادی میں نے اتنا ناچتا، اتنا ناچتا اور رقص کے دوران ڈھول اور پیر کی تھاپ سے ہم آہنگ اس طرح بولتا، نعرے لگاتا، غراتا، چنگھاڑتا کہ ایک ہفتے تک وہ تھکان میں چور چور جسم کے لیے پیناڈال اور مکمل بند گلے کے لیے strepsil کھاتا۔

تو پیارے دولہو، دلہنو! زندگی کی بانہوں میں جھول جاؤ۔۔۔ سارے غم بھول جاؤ۔

بھول جاؤ کہ غم تم پہ حاوی آ سکتا ہے، بھول جاؤ کہ دکھ تم سے زیادہ طاقت ور ہے۔ بھول جاؤ کہ موت کا وحشی سایہ بڑھتا جائے گا۔۔۔ ۔۔۔جب جب غم کی لپیٹ میں آؤ، بس اتنایاد رکھو کہ یہ وقت بھی آخر گزر جائے گا۔

اور یاد رکھو کہ کہ محبت فاتح عالم ہے۔ یاد رکھو کہ انسان محبت کے خمیر سے جنما ہے۔ یاد رکھو کہ محبت ہی کو دوام ہے، یہ ناتمام ہے۔چھاؤں بن کر تمہارے چہار سو جو پھیلا ہے، یہ محبت ہی کا سایہ ہے، باقی سب مایا ہے!!۔

جب خوشی ملے،اسے بانٹ لو۔ جہاں مشکل ہو ، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لو، خود کو بھول جاؤ، ایک دوسرے کا نام لو، صبح اور شام لو۔ ہر انسان ایک مکمل سیارہ ہے، تمہیں ایک نئے سیارے کی ’دریافت ‘کا سفر مبارک ہو، کہ یہیں سے تم نے ایک نئے سیارے کی تخلیق کے عمل سے بھی گزرنا ہے۔ زندگی کا سب سے خوب صورت، سب سے حسین، سب سے پیارا، سب سے مقدس عمل؛ دو انسانوں کی محبت کے نتیجے میں زندگی کے تسلسل کا عمل، کائنات کی وسعت پذیری کا عمل۔

بس،یہ عمل جاری رہنا چاہیے، محبت کا پھل جاری رہنا چاہیے۔۔۔۔۔۔

کائنات کی آغوش میں نئے سیاروں کا عکس جاری رہے، زندگی کا رقص جاری رہے!!۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).