اوریا مقبول  جان کے نام ۔۔۔ علامہ اقبال کا مکتوبِ


جنتِ آزادگان
زمان ِخالص

ڈیر اوریا مقبول
مخدومی سر سید احمد خان نے ڈیر کے بجائے برخوردار لکھنے کا حکم دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس مکتوب میں محترم مرزا غالب، مخدومی سر سید احمد خان اور مکرمی مولانا شبلی نعمانی میرے ساتھ ہیں۔

لہذا
برخوردار اوریا مقبول، السلام علیکم

شنید ہے کہ اسلام آباد کے ایک اردو کے غالباً صوفی منش استاد نے اپنے درس میں جنت کے احوال والی قرآنی آیات کے تحت بنیادی طور پر اس قسم کے تصورات کا اظہار کیا ہے:
مولوی سمجھ نہیں سکا، حور سے مراد عورت نہیں ہے۔

اسی طرح لَبَن اور عَسَل سے مراد دودھ اور شہد نہیں ہیں کیونکہ دودھ کتنا پیا جا سکتا ہے ایک گلاس دو گلاس، اور شہد ایسی چیز بہت سے لوگ ہو سکتا ہے کھانا پسند نہ کرتے ہوں۔ یہ نامعقول باتیں ہیں۔
جب خدا اتنا عظیم ہے تو وہ جنت میں اتنی عامیانہ نعمتیں کیوں دے گا۔
پس حور سے مراد کچھ اور ہے۔

دورانِ درس کسی طالبِ علم نے ویڈیو بنائی اور وہ ویڈیو آپ کے ہاتھ لگی، آپ نے اس ویڈیو کو اپنے ٹی وی پروگرام کا حصہ بنایا اور “تعمیر کے نام پر تخریب اور تصوف کے نام پر الحاد” ، اور “درسگاہوں میں چلتی الحاد کی بادِ سموم” جیسی سرخیوں اور “شعائرِ اسلامی کے مذاق سے شروع ہونے والے الحادی درس” وغیرہ جیسے تبصرے کے ساتھ منظر عام پر لائے۔ نتیجةً وہ استاد گذشتہ چند ماہ سے سلاخوں کے پیچھے زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔

محترم مرزا غالب کہہ رہے ہیں:
سنو میاں، کیا ہمارے ان شعروں پر ہمیں بھی ملحد ٹھہرا دو گے؟:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

مخدومی سر سید کی تفسیرالقرآن کے صفحہ 40 تا 48 (البقرة ، تحت آیہ رقم:۲۵) سے کچھ اقتباسات نقل کرنا خالی از فائدہ نہیں:

”جنت یا بہشت کی ماہیت جو خدا تعالیٰ نے بتلائی ہے وہ تو یہ ہے : ﴿ فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرة اعین جزاء بما کانوا یعملون﴾ یعنی کوئی نہیں جانتا کہ کیا ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت چھپا رکھی گئی ہے اس کے بدلے میں جو وہ کرتے تھے۔

پیغمبر خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے جو حقیقت بہشت کی فرمائی، جیسا کہ بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ کی سند پر بیان کیا ہے وہ یہ ہے ، قال الله تعالیٰ: ”اعددت لعبادی الصالحین مالا عین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علی قلب بشر“ یعنی الله تعالیٰ نے فرمایا کہ تیار کی ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے اور نہ کسی کان نے سنی ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گذرا ہے”۔

“پس اگر حقیقت بہشت کی یہی باغ اور نہریں اور موتی کے اور چاندی ، سونے کی اینٹوں کے مکان اور دودھ و شراب اور شہد کے سمندر اور لذیذ میوے اور خوب صورت عورتیں اور لونڈے ہوں ، تو یہ قرآن کی آیت اور خدا کے فرمودہ کے بالکل مخالف ہے کیونکہ ان چیزوں کو تو انسان جان سکتا ہے، اور اگر فرض کیا جاوے کہ ویسی عمدہ چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں اور نہ کانوں نے سنیں تو بھی “ولا خطر علی قلب بشر” سے خارج نہیں ہو سکتیں، عمدہ ہونا ایک اضافی صفت ہے اور جبکہ ان سب چیزوں کا نمونہ دنیا میں موجود ہے تو اس کی صفت اضافی کو جہاں تک ترقی دیتے جاؤ انسان کے دل میں اس کا خیال گذر سکتا ہے۔ حالانکہ بہشت کی ایسی حقیقت بیان ہوئی ہے کہ “و لا خطر علی قلب بشر”

پس بہشت کی جو یہ تمام چیزیں بیان ہوئی ہیں در حقیقت بہشت میں جو “قرة اعین” ہو گا اس کے سمجھانے کو بقدرِ طاقتِ بشری تمثیلیں ہیں، نہ بہشت کی حقیقتیں۔“

” یہ سمجھنا کہ جنت مثل ایک باغ کے پیدا ہوئی ہے، اس میں سنگ مر مر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں، باغ میں شاداب وسرسبز درخت ہیں ، دودھ وشراب وشہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں، ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے ، ساقی وساقنیں نہایت خوبصورت چاندی کے کنگن پہنے ہوئے جو ہمارے ہاں کی گھوسنیں پہنتی ہیں، شراب پلا رہی ہیں، ایک جنتی ایک حور کے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑا ہے، ایک نے ران پر سر دھرا ہے، ایک چھاتی سے لپٹا رہا ہے، ایک نے لبِ جاں بخش کا بوسہ لیا ہے، کوئی کسی کونے میں کچھ کر رہا ہے، کوئی کسی کونے میں کچھ، ایسا بیہودہ پن ہے ، جس پر تعجب ہوتا ہے ، اگر بہشت یہی ہو تو بے مبالغہ ہمارے خرابات اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔“ ( تفسیر القرآن سر سید، ص:44، دوست ایسوسی ایٹس)

“تفسیر کشف الاسرار میں بھی لکھا ہے کہ جنت و نار کی جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ سب تمثیلیں ہیں، نہ حقیقتیں تا کہ جو چیز ہمارے پاس ہے اس سے اس چیز کا جو ہم سے پوشیدہ ہے کچھ خیال ہو”۔ ( تفسیر القرآن سر سید، ص:48، دوست ایسوسی ایٹس)

میں نےاپنے خطبے بنام ” The Human Ego – His Freedom and Immortality” کی آخری سطور میں جنت اور دوزخ کے بارے میں اپنے افکار کا اظہار کیا ہے:

Heaven and Hell are states, not localities۔ Their descriptions in the Qur’an are visual representations of an inner fact, i۔e۔ character۔ Hell, in the words of the Qur’an, is “God’s kindled fire which mounts above the hearts” – the painful realization of one’s failure as a man۔ Heaven is the joy of triumph over the forces of disintegration۔

(جنت اور دوزخ مقامات نہیں کیفیات (احوال) ہیں۔ اور ان کے احوال کی بابت قرآنِ کریم کا بیان انسان کی داخلی کیفیتوں کا تمثیلی اظہار ہے۔ قرآنِ حکیم کے الفاظ میں دوزخ “اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر طلوع ہو گی”ـ ایک انسان کا اپنی شکست پر کرب ناک پچھتاوا دوزخ اور تباہ کن قوتوں پر فتحمند ہونے کی بے پایاں سرخوشی بہشت ہے)۔

مجھ کو یہ خیال ہمیشہ تکلیفِ روحانی دیتا ہے کہ آنے والی مسلمان نسل کے قلوب ان واردات سے یکسر خالی ہیں جن پر میرے افکار کی اساس ہے۔ اختلاف و کثرتِ آرا سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ اسلامی عقائد میں اختلافِ آرا ؤ افکار کی کچھ ناگزیر وجوہات بھی موجود ہیں ان کی جانب اشارہ کرنا از حد ضروری ہے:

بعض مسائل خود بخود ذو وجہین ہیں جیسے مسئلہ جبر و قدر، کبھی لگتا ہے کہ ہم مختار ہیں اور کبھی لگتا ہے کہ ہم مجبور ہیں بلکہ الامر بین الامرین کی تیسری صورت بھی محتمل ہے۔

الفاظِ قرآن کی بابت ظواہرِ الفاظ ہی حجت ہیں یا محاورۀ عرب اور تشبیہ و استعارہ کے ذریعے قرآنی معارف کی وسعتوں سے بہرہ مند ہوا جا سکتا ہے بالخصوص جہاں ظاہری معنیٰ پر عمل کرنے میں قباحت در پیش ہو۔ استواء علیٰ العرش کی بابت متکلمین مدتوں الجھے رہے سلف اور محدثین کے مطابق قرآن و حدیث میں اللہ سبحانہ کے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں تصریحات موجود ہیں لہذا استوا علی العرش ثابت ہے تاہم کیفیتِ استوا ہمارے فہم و ادراک سے باہر ہے اور امام مالک سے یہ جملہ منسوب ہے:

الاستواء معلومٌ، والكيف مجهولٌ، والإيمان بـــه واجبٌ، والسؤال عنه بدعةٌ “۔

استوا معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے لیکن اس پر ایمان رکھنا واجب اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔

لیکن معتزلہ اور حکما اس عقیدے کو عقدہ گردانتے تھے اور لفظ استوا کی تاویل ضروری سمجھتے تھے کیونکہ الفاظ کو ظاہری اور ٹھیٹھ معانی پر محمول کرنے سے سیدھی سیدھی جسمانیت لازم آتی ہے اور جہت، حیز، اور محدودیتِ باری تعالیٰ کی پیچیدہ اور پریشان کن ابحاث کا در وا ہو جاتا ہے۔

جنت و نعمات اور دوزخ و عذاب کے بارے میں بحث بھی کچھ اسی قسم کے مسائل سے دوچار ہے۔ مکرمی مولانا شبلی اپنی کتاب علم الکلام کے صفحہ 159 پر لکھتے ہیں:

“ملاحدہ کا ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ اسلام نے واقعات ما بعد الموت کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے وہ طفلانہ ہوس پرستی ہے۔ مثلاً دودھ اور شہد کی نہریں، نوجوان حوریں، دل ربا غلمان، ہر قسم کے میوہ جات، بڑے بڑے جواہر نگار محل۔ عالمِ آخرت جو سر تا پا عالمِ اقدس ہے اگر وہاں بھی یہی دنیاوی خواہش کے سامان ہیں تو اس کو ہماری اس ذلیل دنیا پر ترجیح کی وجہ کیا ہے؟ اس کے علاوہ بہت سی باتیں ممتنعات اور محالات میں داخل ہیں۔ مثلاً ہاتھ پاؤں کا شہادت دینا، پلِ صراط سے گذرنا، اعمال کا تولا جانا اور دوزخ میں زندہ رہنا وغیرہ وغیرہ۔

ان اعتراضات کے متعلق تین گروہ ہیں۔ اشاعرہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سب واقعات بعینہ اسی طرح وقوع میں آئیں گے اور اس میں کوئی استحالہ نہیں۔ شہادتِ اعضا، وزنِ اعمال ،دوامِ عذاب وغیرہ یہ سب خرقِ عادات ہیں اور خرقِ عادات عموماً جائز ہیں۔

اشاعرہ کے سوا باقی تمام فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ واقعات ما بعد الموت کی اصلی حقیقت کچھ اور ہے۔ لیکن جس طریقہ سے اور جن الفاظ میں ان کی تعبیر کی گئی، اس کے سوا ان کی تعبیر کا کوئی اور طریقہ نہ تھا۔

محدث ابنِ تیمیہ حالانکہ مشہور ظاہری ہیں تاہم اپنے رسالہ شرحِ حدیثِ نزول میں ایک محققانہ تمہید کے بعد لکھتے ہیں:

“پھر خدائے پاک نے قیامت میں جس آرام اور عذاب کا وعدہ کیا اس کی خبر اور ان چیزوں کی خبر دی جو کھانے، پینے، بچھانے اور مقاربت کرنے کی ہیں، تو اگر ہم ان چیزوں کو نہ جانتے جو موعود چیزوں سے مشابہ ہیں تو ہم ان کو سمجھ ہی نہ سکتے، لیکن ہم باوجود اس کے یہ جانتے ہیں کہ وہ موعود چیزیں ان دنیاوی چیزوں کی سی نہیں ہیں یہاں تک کہ حضرت ابنِ عباس کا قول ہے کہ نام کے سوا دنیا اور آخرت کی چیزوں میں کوئی اشتراک نہیں ہے”۔

امام غزالی جواہر القرآن میں عذابِ قبر اور عذابِ آخرت کی یہ تشریح کر کے انسان میں جو رذائل اخلاق ہیں انہی کو سانپ اور بچھو سے تعبیر کیا گیا ہے، لکھتے ہیں:

“اور یہ راز ہے آنحضرت کے اس ارشاد کا کہ یہ تمھارے اعمال ہی ہوں گے جو تمھارے سامنے آئیں گے اور یہی معنی ہیں خدا کے اس قول کے کہ قیامت میں جو کچھ جس نے کیا ہو گا وہ تیار پائے گا بلکہ یہی حقیقت ہے خدا کے اس قول کی کہ اگر تم کو علم الیقین ہوتا تو تم دوزخ کو دیکھ لیتے یعنی یہ کہ دوزخ خود تمھارے دل میں موجود ہے۔ سو اس کو یقین کے ذریعہ سے دیکھ لو قبل اس کے کہ یقین کی آنکھ سے اس کو دیکھو گے۔ بلکہ یہی حقیقت ہے خدا کے اس قول کی کہ کافر لوگ عذاب میں جلدی کرتے ہیں حالانکہ عذاب نے کافروں کو ہر طرف سے چھا لیا ہے یہ نہیں کہا آئندہ چھائے گا۔ اور یہی معنی ہیں اس شخص کے قول کے جو یہ کہتا ہے کہ دوزخ و بہشت پیدا ہو چکی ہے تو اگر تم مطالب کو اس طرح نہیں سمجھتے تو تم قرآن کے مغز تک نہیں پہنچتے بلکہ تم کو صرف چھلکے سے کام ہے۔ جیسا کہچار پایہ کو گیہوں کے مغز سے نہیں غرض ہوتی، بلکہ صرف بھوسے سے غرض ہوتی ہے اور قرآن مجید سب لوگوں کی غذا ہے لیکن اس کا غذا ہونا باختلافِ مراتب ہے (یعنی جو جس درجہ کا ہے اسی قسم کی غذا اس کو ملتی ہے) اور ہر غذا میں اصل اور چھلکا اور بھوسی ہوتی ہے”۔

اگر اس صوفی مزاج استاد کے بنیادی تصورات بعینہ یہی ہیں، لیکن اس کے اپنے الفاظ اور زبان غیر محتاط ہو تو اس پر توبہ و رجوع یا تنبیہہ و سرزنش کی صورتیں موجود ہیں جبکہ وہ پہلے ہی بہت زیادہ سہہ چکا ہے۔

سر سید فرما رہے ہیں اور بجا فرما رہے ہیں:

برخوردار! علمی احتیاط کا دامن تھامو، ادھورے مطالعات اور محض معروف و مروج عقائد و نظریات کی بنا پر کسی غیر معروف عقیدے کو الحاد و زندیقی کا نام دینے میں عجلت سے کام نہ لو۔ اور جس صوفی منش استاد کو تم نے قید و بند کی صعوبتوں اور خطرۀ جاں سے دوچار کیا ہے اب تمہی اس کی داد رسی اور رہائی کی تدبیر کرو کہ کل خدا و رسول کو کیا منہ دکھاؤ گے۔ کیونکہ اس مکتوب کے بعد تم پر حق آشکارنہیں ہوا تو مطالعات اور غور و فکر تمھارا فریضہ ہے تا کہ حق تم پر روشن ہو سکے۔ اور اگر حق روشن ہو گیا ہے تو اس عبدِ خدا کی بابت فوراً اپنے رجوع کا اعلان کرو تا کہ تمھارے لگائے گئے الزامات کے اثرات کسی حد تک ہی سہی زائل ہو سکیں، بصورتِ دیگر افترا ؤ بہتان اور پھر کتمانِ حق و شہادت، جو کسی کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں، معمولی گناہ نہیں۔

ہماری دعا ہے کہ تم حقیقی اسلام دشمنوں اور ملحدوں کے اسلام پراعتراضات کے علمی جواب لکھ سکو کہ یہ الحاد کا اصل توڑ ہے۔ اللہ سبحانہ تمھاری نیک توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ آمین

اسی اثنا میں مخدومی مولانا محمد حسین آزاد کی تشریف آوری ہوئی ہے اور صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے میرے کچھ اشعار ان کی زبان پر جاری ہیں جنھیں یہاں درج کر کے مکتوب تمام کرتا ہوں:

یہیں بہشت بھی ہے حور و جبرئیل بھی ہے
تری نگہ میں ابھی شوخی نظارہ نہیں

تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر

جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر

می دیرینہ و معشوق جوان چیزی نیست
پیش صاحب نظران حور و جنان چیزی نیست

وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات

جنت ملا می و حور و غلام
جنت آزادگان سیر دوام

جنت ملا خور و خواب و سرود
جنت عاشق تماشای وجود

حشر ملا شق قبر و بانگ صور
عشق شور انگیز خود صبح نشور

فرقی ننہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
این جلوت جانانہ آن خلوت جانانہ

از بزم جہان خوشتر از حور جنان خوشتر
یک ھمدم فرزانہ وز بادہ دو پیمانہ

ہر کس نگہی دارد ہر کس سخنی دارد
در بزم تو می خیزد افسانہ ز افسانہ

در دشت جنون من جبریل زبون صیدی
یزدان بہ کمند آور ای ہمت مردانہ

اقبال بہ منبر زد رازی کہ نباید گفت
نا پختہ برون آمد از خلوت میخانہ

مخلص
(محمد اقبال)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).