جی ٹی روڈ پر مارچ کی سمت ہی نیت بتا دیتی ہے


اگر جی ٹی روڈ پر لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جائے تو وہ وطن کو خطرات سے بچانے کے لئے ہوتا ہے۔ سمت الٹ دی جائے تو وطن کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ آئیے یہ بات آپ کو تاریخی تناظر میں سمجھاتے ہیں۔

آپ شاید جانتے ہوں کہ جی ٹی روڈ جنوب مغرب میں کلکتے سے شمال مشرق میں پشاور تک جاتی ہے۔ جبکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہزاروں برس قبل سب سے پہلے آریا اس خطے پر حملہ آور ہوئے تھے اور وہ شمال سے لاہور کے روٹ پر مارچ کرتے کرتے پورے برصغیر پر قابض ہو گئے تھے اور وادی سندھ کی عظیم الشان تہذیب کو اس بری طرح مٹا دیا گیا تھا کہ آج اس کی تحریر پڑھنے والا ایک شخص بھی زندہ نہیں ہے۔

اس کے بعد ایرانی بادشاہ کوروش اعظم نے یہی حرکت کی۔ اس کے مارچ کے نتیجے میں موجودہ پاکستان اس کی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔ اس کے دو سو برس بعد سکندر یونانی بھی شمال سے لاہور والے روٹ پر مارچ کرتا ہوا چل پڑا۔ ادھر اس نے پہلی مرتبہ جہلم پر ہاتھی اور پورس دیکھا تو اس کی فوج لاہور کے قریب دریائے بیاس سے آگے جانے سے انکاری ہو گئی کیونکہ اسے پتہ چلا تھا کہ کلکتے کے پاس پاٹلی پتر کے مہاراجہ کے پاس ہزاروں ہاتھی ہیں۔ اس کے ہزار بارہ سو برس بعد محمود غزنوی نے شمال سے جنوب کے روٹ پر سترہ مرتبہ مارچ کیا اور برصغیر سے مال دولت لوٹ کر لے گیا۔ اس کے دو تین سو برس بعد شہاب الدین غوری نے جی ٹی روڈ پر اسی سمت مارچ کر کے دہلی پر قبضہ کر لیا اور ادھر اپنے غلاموں کو بادشاہ بنا دیا تو امید بندھی کہ اب یہ شمال سے لاہور کی طرف مارچ کا سلسلہ ختم ہو گا۔

مگر نہ صاحب۔ اس کے بعد ہر دس بیس برس بعد چنگیز خانی منگول شمال ٹو لاہور براستہ اسلام آباد کے روٹ پر مارچ کرنے لگے۔ منگولوں سے تو دہلی کے ترک غلاموں نے نپٹ لیا مگر امیر تیمور گورگان کو دہلی پہنچنے سے کوئی نہ روک سکا۔ تیمور کے بعد اگلا مارچ اس کی نسل سے بابر نامی تاتاری نے کیا۔ اس وقت تک تاتاری خود کو منگول کہلانے لگے تھے اور منگول عین غین ہونے کی وجہ سے مغل۔

بابر کے بیٹے ہمایوں کے دور میں وطن کے تحفظ کی خاطر بہار سے براستہ لاہور پشاور کی طرف شیر شاہ سوری نے مارچ کیا اور بدیسی مغل حملہ آوروں کو دیس نکالا ملا۔ شیر شاہ سوری نے اس دوران کلکتہ سے پشاور کے اس روٹ کو پکا کرا کر اسے جرنیلی سڑک عرف جی ٹی روڈ کا نام دے دیا۔ شیر شاہ سوری کے فوت ہوتے ہی ہمایوں نے ایرانی فوج کے ہمراہ جی ٹی روڈ پر لاہور کی سمت مارچ کیا اور برصغیر پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد چند سو برس سکون رہا پھر نادر شاہ گڈریے نے جی ٹی روڈ پر لاہور کی جانب مارچ کیا اور دہلی سے تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا اٹھا کر لے گیا۔ ضمنی طور پر اس نے ادھر تین دن کا قتل عام بھی کر دیا۔ اگلی باری احمد شاہ ابدالی کی تھی۔ اس کے مارچ کے نتیجے میں بھی کافی گڑبڑ ہوئی۔ مرہٹوں کا قلع قمع تو اس نے خوب کیا مگر ادھر لاہور کے نواح میں اس نے کافی لوٹ مار کی۔

اس تاریخ سے آپ جان چکے ہوں گے کہ جی ٹی روڈ پر اگر شمال سے لاہور براستہ اسلام آباد مارچ کیا جائے تو اس کا مقصد محض ملک دشمنی اور اس علاقے میں لوٹ مار کے کلچر کو فروغ دینا ہوتا ہے جبکہ لاہور سے شمال کی جانب مارچ محب وطن لوگ کرتے ہیں۔ اس کی شاہد حالیہ تاریخ بھی ہے۔

شیر شاہ سوری کے بعد وطن کو بچانے کی خاطر سب سے پہلے لاہور سے اسلام آباد کی جانب مارچ اور دھرنے ہماری سب سے زیادہ محب وطن، مخلص اور باکردار جماعت نے کیے جسے کوئی ڈالر دے کر بھی خرید نہ سکا۔ جماعت اسلامی کے ان مارچوں کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو کی سیکیورٹی رسک حکومت خطرے میں پڑتی رہی۔ پھر اگلا مارچ میاں نواز شریف نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف کیا تاکہ غاصب پیپلز پارٹی کی حکومت سے تاریخ کے عظیم ترین جج افتخار محمد چوہدری کو بحال کروایا جائے۔ یہ بھی وطن کو مضبوط کرنے کی خاطر تھا۔ اس کے بعد عمران خان اور علامہ ڈاکٹر شیخ الاسلام طاہر القادری صاحبان نے وطن کو لٹیروں سے بچانے کی خاطر لاہور سے اسلام آباد کی جانب جنوباً شمالاً مارچ کیا۔ وہ بھی ہم جانتے ہی ہیں کہ پاکستان کے لئے نہایت مفید تھا۔

اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف نے منگولوں اور دیگر حملہ آوروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شمال سے لاہور کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مارچ اس سرزمین کے لئے بہت برا ہے اور اسے وطن دشمنی سمجھا جانا چاہیے حالانکہ وہ جمہوریت، آئین اور سویلین بالادستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ جبکہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ابھی ایک حالیہ انٹرویو میں بتا چکے کہ وہ آئین وغیرہ کو وطن کے لئے مفید نہیں سمجھتے ہیں اور وطن کی عظمت کی خاطر اسے کوڑے کی ٹوکری میں پھینکنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ جنرل ضیا بھی قوم پر واضح کر چکے ہیں کہ آئین کاغذ کے چند پرزوں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔

میاں نواز شریف اس آئین اور سویلین بالادستی کے نام پر ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور وہ لٹیرے بھی ہیں۔ اس کا ثبوت یہی ہے کہ وہ جی ٹی روڈ پر لاہور سے اسلام آباد کی جانب نہیں، بلکہ اسلام آباد سے لاہور کی طرف مارچ کرنے پر مصر ہیں۔ نیک نیت رکھنے والے سرٹیفائیڈ محب وطن افراد جی ٹی روڈ پر لاہور سے اسلام آباد کی سمت مارچ کرتے ہیں۔ اگر ان کی نیت اچھی ہوتی تو وہ حکومت کو گرانے کی خاطر جی ٹی روڈ پر اسلام آباد سے شمال کی جانب مارچ کرتے۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar