ممتاز قادری، سلمان تاثیر اور علما۔۔۔


محمد عمار احمد

\"?\"

ممتاز قادری خاک نشین ہوئے۔ اس نے قتل کیا تھا اور اسلام کا حکم ہے قتل کا بدلہ قتل سو بدلہ لیا جا چکا ہے۔ اب ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے وہ ذات جانے اور اس کا بندہ، ہمیں یقین ہے کہ اس کے جذبے کو شرفِ قبولیت بخشا جائے گا۔ عوام کی بڑی تعداد نے ان کے جنازے میں شریک ہوکر اپنے ذہنی رجحان کا اظہار کھلے لفظوں میں کر دیا ہے۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد مختلف خیالات کے حامل لوگ اپنے نقطہ ہائے نظر بیان کر رہے ہیں، بہت سی باتوں کو خلط ملط کیا جا رہا ہے اور سوالات  اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا سلمان تاثیر گستاخ تھے، اگر تھے تو سزا کا حق ریاست کو ہے یا فرد کو؟ عہدِ رسالت ﷺ اور عہدِ صحابہ میں بھی گستاخوں کو قتل کیا گیا مگر ممتاز قادری نے قتل کیا تو وہ غلط کیوں؟ قتل کے فتوے دینے والے خود قتل کیوں نہیں کرتے اور ترکھانوں کے لڑکے ہی ہمیشہ اس سعادت کو حاصل کرتے ہیں مولوی کیوں نہیں؟ ریمنڈ دیوس کو دیت دے کر آزاد کر دیا جاتا ہے تو ممتاز قادری کو کیوں نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

سلمان تاثیر نے توہینِ رسالت قانون کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا تھا وہ بہت سے لوگ اب بھی کر رہے ہیں جن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا شیرانی جیسے جید عالم بھی شامل ہیں، کیا انہیں بھی گستاخ کہ کر قتل کر دینا چاہئے؟ سلمان تاثیر نے اس قانون کو کالا قانون کہا مگر اس کی سزا بھی قتل نہیں اسی طرح ان کی یہ بہت بڑی غلطی تھی کہ وہ ایک ایسی عورت کو معصوم قرار دے رہے تھے جسے ہماری معزز عدالتیں گناہ گار قرار دے چکی تھیں مگر اس کی سزا بھی یہ نہیں کہ کوئی بھی اٹھ کر انہیں قتل کر دیتا۔ اگر سلمان تاثیر کو ان بیانات کی وجہ سے گستاخ  قرار دیا بھی گیا تو اس کا حل یہی تھا کہ جس طرح آسیہ مسیح پر مقدمہ دائر کیا گیا تھا اسی طرح تاثیر کے خلاف بھی دائر کر دیا جاتا اور معاملہ ریاست کے سپرد کر دیا جاتا، قانون ہاتھ میں لینے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ عہدِ رسالت ﷺ کی جومثالیں دی جا رہی ہیں ان میں آقا ﷺ بطور سربراہِ ریاست یہ حکم فرماتے ہیں کہ فلاں فلاں کو قتل کر دو چاہے غلافِ کعبہ میں بھی چھپے ہوں اور کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا؟ اسی طرح صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک گستاخ کو قتل کرنے والا شخص آ کر بتاتا ہے کہ امیر المؤمنین میں نے فلاں گستاخ کو قتل کر دیا تو آپ بطور سربراہِ ریاست فرماتے ہیں کہ اگر تو نہ کرتا تو میں خود اسے قتل کرا دیتا۔ تو خدارا ریاست اور فرد کے اقدام کو خلط ملط مت کیجئے۔ اسلام نے ریاست کے تقدس کو ہر حال میں مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اگر سلمان تاثیر نے ریاست کے قانون کے خلاف تند و تیز زبان استعمال کی تب بھی مشرف کی طرح اس پر مقدمہ چلایا جا سکتا تھا ایسا بھی نہیں کیا گیا بلکہ قتل کر دیا گیا۔ اس سے نہ ہی شریعت کی پاسداری کی گئی اور نہ ہی اسے شرعی جواز دینے کی گنجائش ہے۔ جہاں تک ممتاز قادری اور ریمنڈ ڈیوس کے کیس کا موازنہ کیا جا رہا ہے تو حضور ریمنڈ ڈیوس نے عبادت سمجھ کر کسی کی جان نہیں لی اورپھر اس کے چاہنے والوں نے اسے چھڑانے کے لئے سو جتن کئے اور دولت و پیسہ لگایا جب کہ ممتاز قادری کے چاہنے والوں نے تاثیر کے گھر والوں سے اس کیس پر بات بھی نہیں کی تو پھر موازنہ کیسا؟

رہی یہ باتیں کہ مولوی فتوے دینے کی بجائے خود قتل کیوں نہیں کرتے اور بات حضرت عطاللہ شاہ بخاری تک لے جائی گئی کہ انہوں نے بھی جوش دلایا تھا اور ترکھان کے پتر نے جا کے گستاخ کا سر قلم کر دیا اور خود بھی پھانسی لگا۔ اسی طرح ہی ممتاز قادری کا معاملہ ہے کہ قریشی صاحب کی تقریر سے متاثر ہو کر یہ قدم اٹھایا۔ قریشی صاحب نے فرطِ جذبات میں آکر بہت کچھ کہا مگر عدالت میں ایک بیان حلفی جمع کرا کے کنارے لگ بیٹھے، وہ ابھی بقیدِ حیات ہیں ان سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ’’سعادت‘‘خود کیوں نہ حاصل کی؟ حضرت عطاللہ شاہ بخاری کی بات سے متاثر ہو کر اگر غازی علم الدین تختہ دار پر جھولے تو امیرِ شریعت کی زندگی بھی زنداں میں گزری۔ مولویوں پر یہ اعتراض غلط ہے کہ خود پیچھے رہتے ہیں اور غریب بچوں کو قربانی کا بکرا بناتے ہیں۔ تاریخ سے آپ مجھ سے بہت زیادہ واقف ہو ں گے، بات اگر حضرت بخاری تک لے ہی گئے ہیں تو تھوڑا اور پیچھے جھانک لیتے ہیں کہ آزادی ہند کے لئے عام لوگوں سے پہلے علما ہی تھے جن کو بوریوں میں بند کر کے،درختوں سے لٹکا کر اور توپ کے گولوں سے شہید کیا گیا،مالٹا کے زندانوں کو انہی مولویوں نے آباد کیا تھا،فرنگیوں کے ظلم و تشدد کو یہ بھی سہتے رہے تھے،بالاکوٹ کے پہاڑوں میں بھی مولوی کے جسم کے ٹکڑے کئے گئے۔ پاکستان میں جتنی مذہبی تحریکیں چلیں ان میں ترکھانوں کے لڑکوں کے ساتھ یہ فتوے دینے والے بھی قدم بہ قدم رہے۔ انہی عطا ء اللہ شاہ بخاری کے فرزند حضرت ابوذر بخاری نے جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت پر صدیوں سے پڑی دھول کو صاف کرنے کے لئے جد و جہد کا آغاز کیا تو انہیں سخت ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا،اگر انہیں ابا جی زنان خانے میں خاص احادیث سناتے رہتے تھے تو جبر وستم کو برداشت کرنے کی تربیت کس نے کی ہو گی؟ مولانا جھنگوی کے آتشیں بیانوں سے متاثر ہو کر سگریٹ کے کھوکھے سے اٹھنے والا غریب اپنے بچوں سمیت مار دیا گیا ہے تو مولانا جھنگوی اور ان کا بیٹا بھی لقمۂ اجل بنے ہیں۔ علامہ احسان الٰہی ظہیرقتل کر دئے گئے۔ لال مسجد کے واقعے میں اگر غریب طلباء و طالبات مارے گئے تو مولوی کی ماں، بھائی اور بیٹا بھی مارے گئے۔ نشتر پارک میں سنی تحریک کی قیادت مار دی گئی،کراچی میں کئی بڑے بڑے علماء کرام اندھی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ایک حد تک یہ بات ٹھیک ہے کہ مذہبی راہنماء خود سکھ سے رہتے ہیں اور کارکن قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر تے ہیں بلکہ اپنا سب کچھ لٹادیتے ہیں مگر بالعموم یہ بات کہنا قطعی درست نہیں کہ ہر بار ترکھان کے پتر ہی کام آتے ہیں اور مولوی زنان خانوں میں بیٹھے رہتے ہیں۔ آج بھی زندہ مثالیں موجود ہیں کہ کارکنوں کے ساتھ ساتھ قائدین بھی قید و بندکی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔  سلمان تاثیر کے معاملے پر جس رویے کا اظہار کیا گیا علماء کو اس طرح اشتعال انگیز بیانات نہیں دینے چاہئیں جنہیں سن کر کوئی شخص ماورائے قانون قدم اٹھا ئے۔ ریاست کو اس کیس کو بھی جلد نمٹانا چاہئے جس کے سبب سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا اور اس طرح کے دیگر کیسز جنہیں عدالتوں سے سزائیں سنائی جا چکی ہیں انہیں جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ موجودہ عوامی اشتعال کو کم کیا جاسکے۔ ریاست اور ریاستی شخصیات کو بھی عوامی رجحان کو مدِ نظر رکھنا چاہئے،اسلام اور مسلمانوں کے مسلمہ معاملات کے خلاف تند و تیز لب و لہجہ اختیار نہیں کرنا چاہئے بلکہ شائستگی اور بات چیت کے ذریعے اپنے تحفظات کا اظہار مناسب فورمز پر کیا جائے۔ اگر کوئی بھی شہری مسلمانوں کے جذبات سے کھیلے تو ریاست فوری طور پر سخت ردِ عمل ظاہر کرے تاکہ پھر کوئی ممتاز قادری نہ بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments