پاکستانی مردوں کو طوائف اخلاقیات کا لیکچر دے


کیلیان ایلزبتھ کانوے نے ایک بار کہا تھا کہ ہراسمنٹ کو ثابت کرنا اسی طرح ناممکن ہے کہ جیسے اس کو جھٹلانا۔ بدمعاش مرد گلالئی کی ہراسمنٹ کو جھٹلانے کے لئے پہلے اسے پنڈ کی معصوم دوشیزہ مس عمران کے غیرت مند گھبرو اینکر بھائیوں نے مسلم لیگ نون کا ثابت کیا اور ناکام ہوگئے۔

پھر ثابت کیا گیا کہ عائشہ گلالئی کے پاس جو میسجز ہیں، وہ کسی سافٹ ویئر کی مدد سے بنائے گئے ہیں مگر نعیم الحق کے ٹویٹ نے عمران خان کے وکیل اینکروں کے اس مفروضے کو بھی غلط ثابت کردیا۔

پھر اب یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ عائشہ گلالئی کا کیس ہراسمنٹ نہیں بلکہ فلرٹنگ کا ہے یعنی عائشہ گلالئی بھی عمران خان کے ساتھ انوالو تھی اور اسے یکطرفہ محبت ہوگئی تھی، شادی سے انکار سننے کے بعد گلالئی نے انتقام لیا گویا وکیل اینکر عمران خان اور گلالئی کے کبوتر بھی تھے جنہیں وہ سب تو ضرور پتہ ہے جس سے عمران خان کو فائدہ ہو۔

عمران خان کے وکیل اینکروں کے پہلے اور حالیہ موقف تک کے سفر سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بنی گالا کے اس بادشاہ کو بچانے کے لئے جو کہانی گھڑی جارہی ہے، اس میں کتنے جھول ہیں۔

ایک جانب وکیل اینکر توجیہات تراشتے گئے تو دوسری جانب عمران خان نے عائشہ احد کو لانچ کرکے یہ ثابت کردیا کہ سیاست میں عورتوں کے استعمال میں وہ کوئی عار نہیں سمجھتے، عائشہ احد کو لانچ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ حکومت گلالئی کے حوالے سے تحقیقات میں پیش رفت کے حوالے سے دباؤ میں آئے۔

یہاں یہ سب ہورہا تھا مگر ایک دوسرے منظرنامے میں عائشہ گلالئی کے خلاف کرپشن کے مقدمات کھول دیے گئے، جرگے کے ذریعے اس کے گھر کو مسمار کرنے کی دھمکیاں دی گئیں، اس کو بتایا گیا کہ تمہاری زندگی اتنی اجیرن کردیں گے کہ تمہیں ملک سے بھاگنا پڑے گا گویا عمران خان نے عائشہ گلالئی کو عائشہ احد بنانے کی تیاری کرلی۔

عمران خان نے پھر ایک اپنا روایتی داؤ کھیلا اور پبلک کو مطمئن کرنے کے لئے اپنے وکیل اینکرز سے انٹرویوز میں کہنا شروع کردیا کہ وہ تحقیقات کے لئے تیار ہیں، پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے مگر آفیشلی تحریک انصاف نے کمیٹی کو متعصب قرار دے کر عمران خان کو پیش کرنے سے انکار کردیا، اس داؤ سے پبلک بھی مطمئن ہوگئی اور عمران خان کا کام بھی ہوگیا۔

عائشہ گلالئی کی حماقتوں اور غلط وقت پر اس انکشاف کو کرنے سے صاف پتہ لگ رہا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ہوم ورک نہیں، عائشہ گلالئی اگر کسی منصوبہ بندی کے تحت آتی تو الیکشن سے قبل آتی یا پانامہ فیصلے سے دو دن پہلے کہ فیصلے کا اثر کم ہوتا اور کم ازکم عمران خان کے وکیل اینکر بھائیوں کو بے سروپا انٹرویوز نہ دیتی، اس کی احمقانہ گفتگو نے اسے ایک بے وقوف مگر بہادر لڑکی ثابت کیا ہے۔

یہ کہانی ایک مرد معاشرے کی کہانی ہے، جہاں ایک بے بس عورت کو انصاف نہیں مل سکتا، عورتوں کے کردار سے زیادہ مسئلہ ہم مردوں میں ہے، بادشاہ تو عیاش ہوتا ہے چاہے بنی گالا محل کا ہو یا رائے ونڈ محل کا مگر ہم کون ہیں؟ ان عیاش بادشاہوں کی باغی کنیزوں کے شکاری! یا وہ بازاری جو بادشاہوں کی ہوس پوری کرنے کے لئے انہیں عورتوں کی خوراک مہیا کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

ہم نے جمائما کے کردار کی دھجیاں اڑائیں، ہم نے ایان کو نہ بخشا، ہم ریحام اور قندیل کو بدکردار قرار دیتے رہے، یہ سب ہم کیوں کرتے ہیں؟ اپنی بہن، بیوی اور بیٹی کو گھر سے باہر نکلنے پہ ہدایات دینے والے بادشاہ کی باغی کنیزوں پر قہقہے لگاتے ہیں۔

منٹو کو طوائف بہت پسند تھی کہ وہ کم ازکم منافق نہیں ہوتی، میں نے جمائما کے لئے لکھا، مجھے گالیاں دی گئیں، قندیل بلوچ کی جرات کو مشعل راہ قرار دیا، مجھے لعن طعن کی گئی، ریحام خان کو قابل عزت لکھا، میرا مقصد سیاسی قرار دے دیا گیا، منی لانڈرنگ کیس میں جب ایان کی پریگننسی چیک کی گئی تو میں نے آواز بلند کی اور تنقید کرنے والوں نے قہقہے لگائے، میں سوچ رہا ہوں کہ منٹو کو طوائف صحیح پسند تھی کہ وہ ایسے لوگوں کے کردار سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔

وہ وقت آچکا ہے جب طوائف ہمارے معاشرے کو منافقت سے اجتناب اور اخلاقیات کو اپنانے کا لیکچر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).