پہاڑوں کی عورت


شوہر:تم دن بدن بدصورت ہوتی جارہی ہو۔ لگتا ہے چہرے کا نور ختم ہو چکا ہے۔ ہاتھوں کو دیکھو۔ جیسے کسی نے کھردری جلد چڑھا دی ہو۔ چہرہ دیکھا ہے جھریاں پڑگئی ہیں۔ آنکھوں کے نیچے کالے گہرے نشانات اور حلقے واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ چہرہ جیسا مرجھایا ہوا پھول لگ رہا ہے۔ قریب آو تو ایسا لگتا ہے جیسے برسوں پرانی کسی روح کے پاس آیا ہوں۔ کیا عورت ایسی ہوتی ہے۔

بیوی :ہاں ایسی ہی ہوتی ہے۔ پہاڑوں کی عورت ایسی ہی ہوتی ہے۔ سارا دن پسینہ کھیتوں میں بہاتی ہوں۔ جسم کو دھوپ میں سکھا کر تمھارے لیے گیہوں اگاتی ہوں۔ جب گھر آتی ہوں تو چولہے پر بیٹھ جاتی ہوں اور تمھارے اور بچوں کے لیے ہانڈی پکاتی ہوں۔ سوچتی ہوں تمھارے لیے تیار ہوجاوں جب کپڑے دیکھتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے میرا کواڑ بھی خالی ہے۔ سال پہلے کا خریدا ہوا کپڑا استری کرتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے مجھے کپڑے دھونے والے پندرہ روپے والے صابن کےساتھ نہانا پڑے گا اور بعض اوقات تو وہ بھی نہیں ملتا۔ نہا کر تمھارے لیے تیار ہوتی ہوں تو تمھارے بچے پھر سے مجھے گندہ کردیتے ہیں۔ تبھی قریبی باغ میں رات کے کھانے کے لیے سبزیاں لینے جاتی ہوں تو دوبارہ میلی ہوکر واپس آتی ہوں اور کھانا پکاتی ہوں۔ مہینے بعد تم سے کہتی ہوں کہ ایک چکر شہر کا دلواؤ تو تم ایسے دیکھتے ہو جیسے تمھاری جان لے لی ہو۔ جانتے ہو گندم کے موسم میں میرا وزن پانچ سے دس کلو تک کم ہو جاتا ہے۔ سالوں گزر جاتے ہیں ہماری تو چائے بھی دودھ کو حسرت سے دیکھتی ہے۔ تم کہتے ہو میرے چہرے پر گڑھے بن گئے ہیں۔ یہ وقت کے نشان ہیں۔ یہ دکھ کے گڑھے ہیں جو روز سہتی ہوں۔

شوہر:اگر تم زیادہ پڑھی لکھی ہوتی تو یہ سب نہ کرنا پڑتا مڈل پاس عورت، وہ بالوں کو کنگھی کرتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بولا۔

بیوی :پڑھی لکھی ہوتی نا تو قریبی پرائمری یا مڈل سکول میں سارا دن ڈیوٹی کرتی۔  چھوٹا بچہ ہوتا تو اسے بھی ساتھ لے کر جانا پڑتا۔ واپس آکر گھرداری بھی کرنی پڑتی۔ جب کھیتی باڑی کرنی ہوتی سکول سے چھٹی لے کر سارا دن میں کھیتوں میں نظر آتی۔ پھر بھی تمھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مہینے بعد جو تنخواہ ملتی وہ بھی تمھارے حصے میں ہی آتا۔ گرمیوں کے موسم میں سارے درختوں کے پھل اتارنے کا کام بھی تم مردوں کے ساتھ برابرہوکر کرنا پڑتا۔ اس کے بعد تم یہ بھی کہتے کہ پڑھی لکھی عورت سے ان پڑھ لاکھ گنا بہتر ہے۔ کیونکہ میں کبھی کبھی تم سے بس اتنا کہتی کہ تھوڑے سے پیسے اپنے اور بچوں کی ذات پر خرچ کرنا چاہتی ہوں۔ ایک بات بتاؤ جب میری شادی ہوئی تھی تب تم مجھ سے پانچ سال بڑے تھے اب میں تم سے دس سال بڑی کیوں لگتی ہوں۔ کیوں تمھارے بال سیاہ اور میرے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے۔ کیوں تمھارا چہرہ شاداب اور میرے چہرے پر ہمیشہ جھریاں چھائی ہوئی ہیں۔

شوہر:بس کرو۔ یہ گاؤں ہے یہاں سب کو کام کرنا پڑتا ہے۔ تم کوئی انوکھی نہیں ہو۔ وہ جھلاتے ہوئی بولا۔

بیوی :ہاں اسی لیے دیکھو لڑکیوں کی سولہ سال میں شادیاں ہو جاتی ہیں وہ بھی بعض اوقات ایسے شخص سے جو اسے تک نہیں۔  ایسے انسان سے جو مختلف قسم کے نشے کرتا ہے صرف اس لیے ایک اچھی خاصی پڑھی لکھی لڑکی کی شادی ایک چرسی، نشئی اور بے حس سے کی جاتی ہے کہ وہ جوان اور بالغ ہوگئی ہے، جو ایک پھول سی لڑکی کو کچھ عرصے میں سوکھا ہوا کانٹا بنا دیتا ہے، کیا یہ انصاف ہے۔ کیوں ہوتا ہے ایسے؟ جب وہ لڑکی بیس سال کی عمر تک پہنچتی ہے تو لگتا ہے تیس سال کی ہے۔ میرے پیارے شوہر، مانتی ہوں پہاڑوں پر موجود ساری عورتوں کو یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پھر تم اپنی بیوی کو بھی انسان ہی سمجھو نا۔ یہ بھی احساس کرو کہ اس کے بالوں کی چاندی کی وجہ تمھارا گھر ہے۔ تمھارے کھیت ہیں۔ اس کی آنکھوں کی کمزوری کی وجہ ہر سال بچے پیدا کرنا اور دن رات ان کی خدمت کرنا اور بدلے میں ایک لفظ بھی شکریہ کا نہ پانا ہے۔ اس کی کمر کے جھکنے کی وجہ شدید وزن اٹھانا ہے۔ کم از کم احساس تو کرو۔ جانتے ہو میرے شوہر، اسی پہاڑوں پر کتنی لڑکیاں زندگی ہار جاتی ہیں۔ کیوں، کیوں وہ اپنی جان کی بازی ہار دیتی ہیں۔ کیونکہ وہ خود اتنی پڑھی لکھی اور ان کی شادی تم جیسے شوہروں سے ہوتی ہے۔ انہیں شادی کے بعد تم جیسے شوہر ملتے ہیں اس پر مستزاد تمھیں خوش بھی رکھنا پڑتا ہے۔ خوش تم نے کیا ہونا ہے۔ بس تم چہرہ بگاڑ کر لاکھ بات کرو پھر بھی اس عورت کو ہی ہنس کر اور مسکرا کر بات کرنی ہے۔ تم ہو کیا؟ نسوار منہ میں رکھ کر یا سگریٹ کا دھواں ہر طرف پھیلاتے ہوئے کسی سانڈ کی طرح گھر میں پھرتے ہو۔ کبھی سوچا ہے تمھارے منہ سے کتنی ناگوارقسم کی بدبو آتی ہے۔ لیکن پڑھی لکھی عورت یہ بھی سہہ جاتی ہے۔ کبھی سوچا ہے تمھاری بیوی کو روز تمھارے افیرز کے بارے میں پتہ چلنے کے باوجود بھی استقامت سے اپنے کردار پر کیسے قائم رہتی ہے وہ سوچتی ہے تم ٹھیک ہوجاؤ گے جوکہ تم کبھی نہیں ہوتے یہاں تک کہ کئی بیٹیوں کے باپ بھی بن جاتے ہو۔

شوہر:شرم نہیں آتی تمھارا منہ توڑ دوں گا۔  مڈل پاس ہو تم ایم اے پاس نہیں۔ جو اتنی باتیں کر رہی ہو۔

بیوی :ایم اے پاس۔ ہونہہ۔ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ آنکھیں اٹھا کر دیکھو یہ کم پڑھی لکھی عورت پھر بھی چپ کر جاتی ہے۔ لیکن وہ ایم اے پاس لڑکی چپ نہیں کر پاتی اور نا انصافی کے آگے اپنی ذندگی کی بازی ہار دیتی ہے۔ عورت کو بھی عورت سمجھو۔ ان پہاڑوں کی خوبصورتی تو ہر سیاح کو نظر آتی ہے۔ لیکن کاش انہیں یہاں کی سفاکیت بھی نظر آئے۔ یہاں کتنے دکھ چھپے ہیں۔ یہاں کتنی لڑکیاں روز خاموشی سے مرتی ہیں، رسموں رواجوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ زبردستی کیسے ایرے غیرے نتھو خیرے کی کھونٹی سے باندھ دی ہیں اور جو برداشت نہیں کر پاتیں وہ دریا میں کود جاتی ہیں یا زندگی ختم کر لیتی ہیں۔ اس معاشرے کو کب تک ایسے چلاؤ گے۔

شوہر:ہم مرد ہیں مرد، دن بھر باہر رہتے ہیں۔ باہر کے کام کرتے ہیں تم عورت ہو۔ تم کرتی ہی کیا ہو اس پر شوہر کو خوش بھی نہیں کر سکتی۔

بیوی :سنو میرے ہمدم، بہت تلخ بات کر رہی ہوں۔ پہاڑوں کے مرد کب سے عورتوں میں دلچسپی لینے لگے۔ کیا تم لوگوں کے لیے لڑکے کافی نہیں۔ تمھیں بیوی صرف بچے پیدا کرنے کے لیے چاہئیے۔ انہی علاقوں میں میں نے لوگوں کو لڑکوں کو دوست بنا کر ان کو کار تک گفٹ دیتے دیکھا ہے۔ یہ ہے تمھاری اصلیت۔ تمھیں کب عورت کی ضرورت ہے۔ ان پہاڑوں پر لڑکیوں سے زیادہ لڑکے غیر محفوظ ہیں۔ تمھارے لیے عورت بس صرف وقت گزاری کا ایک کھیل ہے۔ بس ایک کھیل۔ جس کا بس تم استحصال کر سکو۔ جب جی چاہے اس کے ساتھ کھیلو جب جی چاہے اس کو باندیوں کی طرح استعمال کرو۔

شوہر:میں تمھیں۔

بیوی :ہاہا۔ طلاق دے دو گے۔ طلاق۔ یہی نا۔ زندگی تو ویسے بھی مطلقہ ہو چکی ہے۔ اب تم بھی دے دو۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی اس دھمکی کے بنا پر جتنا تم ہمارا استحصال کرسکتے ہو کرتے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).