پنھل ساریو کہاں رہ گئے؟


ڈاکٹر اللہ نذراواران سے آگے پہاڑی سلسلوں میں کہیں مورچہ زن ہیں۔ پہاڑاور بندوق کے یہ آدمی نہیں ہیں۔ طب میں تعلیم پائی ہے، مگربنیادی طور پرسیاسی کارکن اور دانشور تھے۔اب مسلح جنگجو ہیں۔بی ایس اوکی سرگرمیاں توان کی سیاسی بے چینیوں کا نتیجہ تھیں،مگر یہ بی ایل ایف کس چیزکا نتیجہ ہے؟یہ سوال بہت اہم ہے۔

بلوچستان میں انسانی حقوق بے رحمی سے پامال ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف مشکل ہے۔ اعتراف نہ کرنا زیادہ مشکل ہے۔انسانی حقوق پامال ہورہے ہوں تو بے چینی پھیلتی ہے۔ جو لوگ ماوارئے عدالت اقدامات کی نذر ہورہے ہوتے ہیں وہ ماوں کاسکون، بہنوں کا اطمینان اوربچوں کا سایہ ہوتے ہیں۔ ان پر آنچ آتی ہے تو لوگ درد محسوس کرتے ہیں۔ جبر کا سایہ ہو تو ایک پراسرار خاموشی احتجاج کرتی ہے۔ کچھ لوگ جبر کا لحاظ نہیں کرتے، وہ سوال اٹھاتے ہیں۔ سوال صرف جواب کے ہاتھوں مرسکتا ہے۔ ہم مگر سقراط کو ماردیتے ہیں اور سوالیہ نشان گہرا کردیتے ہیں۔

ڈاکٹر اللہ نذر سوال اٹھاتے تھے۔ کہ کچھ لوگ جو ہمارے اطراف میں ہنس بس رہے تھے، کہاں گئے؟اگر یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے لے گئے، تو بتاتے کیوں نہیں؟یہ لے کر نہیں گئے تو پھر ڈھونڈکر دیتے کیوں نہیں؟ اللہ نذر نے سوال اٹھایا ، ہم نے اللہ نذر کو اٹھالیا۔ نتیجہ یہ کہ اللہ نذر نے بندوق اٹھالی۔بڑی مشکل یہ ہے کہ کسی کے روٹھ جانے کا ہمیں صدمہ نہیں ہوتا۔ ہم اسے اپنی جیت سمجھتے ہیں۔دشمنوں کی تعداد میں اضافے کو ہم اپنے موقف کی صداقت سمجھتے ہیں۔سوچنے کے اس انداز نے خنجراب سے لے کر بولان تک بے یقینی کی ایک لکیر کھینچی دی ہے۔

جب اللہ نذر غیب کے پردوں میں رکھے گئے تھے تو ان کی تلاش میں ماما قدیر نکلے تھے۔اللہ نذر آئے تو انہوں نے نتیجہ یہ نکالا کہ آئینی جدوجہد بے معنی ہے۔مسلح شہریوں کو بندوق سے اجتناب کی تلقین کرنے والے نے خود بندوق اٹھالی تو پیچھے رہ جانے والاقلم ماما قدیر کے حصے میں آگیا۔کتنے قتل ہوگئے،کتنے گھروں سے غائب ہیں،کتنے لوٹ آئے ہیں، کتنے شناخت کے قابل ہیں، کتنے جسمانی علامتوں سے پہچان لیے گئے،ان سب کی فہرستیں بناکر سول سوسائٹی متعلقہ اداروں اور ذرائع ابلاغ کو فراہم کرنا ماما قدیر کا درد سر ہوگیا۔ماما قدیر کے پیچھے پیچھے سبین محمود چلی آئی تھیں۔

دوہزار پندرہ کا سال تھا۔ لاہور کی ایک جامعہ میں مسلسل جانا ہورہا تھا۔ انتظامی راہداریوں میں ایک تناو محسوس ہورہا تھا۔ معلوم ہوا کہ ماما قدیر اور سبین محمود آرہی ہیں۔ حکم ہوا ہے کہ آنے نہ پائیں۔ فائلوں میں گم پروفیسر سےمیں نے پوچھا، سبین محمود کیو ں آنا چاہتی ہیں؟پروفیسر نے فائل سے نظر اٹھائے بغیرجواب دیا، انسانی حقوق کے حوالے سے سیمینار ہےاس میں مدعو ہیں۔عرض کیا،لیکن انسانی حقوق پر ہونے والے مکالمے سےکسی کو کیا شکایت ہوسکتی ہے؟پروفیسرنے قدرے اکتاہٹ سے کہا،آپ کی بات درست ہے مگر یہاں انسان سے مراد عام انسان نہیں ہیں،بلوچستان کے انسان ہیں،سمجھے؟۔جی سمجھ گیا۔

ماما قدیر کون ہیں؟ماما قدیر وہ سوال ہیں، جو پوچھا نہیں جاسکتا۔ماما قدیر دشت چھان کر پیدل اسلام آباد کا سفرکرچکے ہیں۔ان کے ساتھ کچھ بچیاں تھیں جن کی آنکھوں میں خوف بس رہا تھا۔ جتنے دروازے وفاق میں نصب تھے، سب پر ماما قدیر دستک دے چکے تھے۔ شام پانچ بجکرتیس منٹ پر پریس کلب کے دروازے پر فہرست لہراکر انہوں نے کہا تھا “ہماری مائیں پوچھتی ہیں ہمارے بچے کہاں ہیں؟ ” رات آٹھ بجکر پانچ منٹ پر ٹی وی اسکرین پر احمد قریشی بتارہے تھے کہ ماما قدیر ہندوستان کے دفاعی اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان کی تقسیم کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ ماما قدیر ابھی پہاڑوں کی طرف نہیں گئے،مگر وہ اکیلے ہوچکے ہیں۔کیونکہ سبین محمود اپنے حصے کی چار گولیاں لے کر لحد میں اترچکی ہیں۔

واحد بلوچ سبین محمود کی تلاش میں نکلے تھے۔ وہ یہ بات سمجھ نہیں پارہے تھے کہ جو سبین ابھی کل گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں لیاری آئی تھیں، مجھے یہاں سے نکلنے کا کہہ رہی تھیں، وہ مجھ سے پہلے اس جہانِ خراب کو کیسے وداع کرگئیں۔ واحد بلوچ نے بندوق نہیں اٹھائی تھی۔ سوال اٹھایاتھا کہ سبین کو کس نے مارا اور کیوں مارا؟واحد بلوچ نے کسی پر فرد جرم بھی عائد نہیں کی تھی۔ انہیں جواب دے کر مطمئن کیا جاسکتا تھا، لیکن نہیں۔کماں بدست لشکری رات کے آخری پہر خستہ دروازے پر بوٹ اور بٹ مارتے ہوئے گھر میں گھس آئے۔ واحد بلوچ کو گردن سے دبوچ کر پوچھا، اسلحہ کہاں رکھا ہے؟ واحد بلوچ انہیں بالائی منزل پر لے جاکرکمرے کے ننگے فرش پر بکھری ڈیڑھ ہزار کتابوں کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں، یہ رہا اسلحہ۔یہ اسلحہ بھی ہے اور میرے جرائم کی داستان بھی۔ قبضے میں لینا ہے تو لے لیجیے۔

واحد بلوچ پیدل سول ہسپتال آتے جاتے ہیں ۔ کرائے کے پیسے بچاکر ریگل چوک سے بچوں کی کتابیں خریدتے ہیں۔ لیاری کے نادار بچوں میں علم بانٹتے ہیں۔ لیکن انہیں سوال کا جواب نہیں ملتا۔ انہیں دکھ ملتا ہے ۔کراچی ٹول پلازے کے پاس ایک مسافر بس سے اس حال میں اتاراجاتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں چار کتابیں ہوتی ہیں۔ اس تکلیف کا اندازہ کیا جانا چاہیئے کہ ایک بوڑھی ماں اورنوعمر بچے نہیں جانتے کہ ہمارا باپ یا بچہ کہاں کس حال میں ہے؟وہ بچے پرچہ کروانا چاہتے ہیں مگر پولیس افسران منہ موڑ لیتے ہیں۔عدالت جائیں تو قلمدان سردمہری کا شکار ہیں۔پریس میں جائیں تو شعر کا ایک مصرع چھپتا ہے دوسرا رہ جاتا ہے۔کسی کو ہم آواز ہونے کا کہیے تو وہ بجا طور پر اپنے بچوں کو وہ دکھ دینا نہیں چاہتا جو ہانی اور ماہین کو ملا ہے۔کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ امید کے بغیر اس دنیا میں جینا کس قدر مشکل ہے؟ ایسے بچے اب بھی اگر اس ملک سے محبت کرتے ہیں، تو ان کی حب الوطنی سے کچھ خیرات لے کر پورے ملک میں بانٹ دینی چاہیئے۔

یہ اپنی نوعیت کی کچھ اپنی ہی ترتیب ہے۔ اللہ نذر اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈنے نکلے تھے۔ اللہ نذرکو اول کراچی اور بلوچستان کے بیچ آسمان کھاگیا،پھرپہاڑوں نے اچک لیا۔ماماقدیراور سبین محمود اللہ نذر کو ڈھونڈنے نکلے تھے۔ ماما کو خاموشی چاٹ گئی،سبین کو زمین نگل گئی۔ واحد بلوچ سبین محمود کو ڈھونڈنے نکلے تھے۔واحد بلوچ کوسرِ لامکاں سے بلاوا آگیا۔پنھل ساریو واحد بلوچ کی بیٹیوں کو ساتھ لے کر واحد بلوچ کو ڈھونڈنے نکلے تھے۔ واحد بلوچ چار کتابوں کے ساتھ لوٹ آئے ہیں تو پنھل ساریو کو لاہوت ولامکان پہنچادیا گیا ہے۔واحد بلوچ نے کتابیں رکھ کرپلے کارڈ اٹھالیا ہے۔ اب وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ پنھل ساریو کی تلاش میں نکل رہے ہیں۔وقت کاحساس ستارہ گردش میں ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ تلاش کا یہ سفر اب کس کا خراج لینے کو ہے۔

لفٹیننٹ جنرل رضوان اخترکے نام آئی ایس آئی کی سربراہی کا قرعہ نکلا تھا۔ابھی منصب نہیں سنبھالا تھا کہ کراچی کے چہار ستارہ ہوٹل میں ہاتھ آگئے۔ عرض کیا، کیا حساس اداروں کو لگتا ہے کہ وہ حساس شہریوں کے ساتھ سختی والا رویہ رکھ کراپنی نیک نامی میں اضافہ کررہے ہیں؟رضوان اختر کی مسکراہٹ بات کو ہوا میں اڑارہی تھی، مگر ان کی آنکھیں میری بات سے اتفاق کررہی تھیں۔ پلٹ کر انہوں نے حال دریافت کیا۔ عرض کیا، یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ دفاعی اداروں کو دل جیتنے کی توفیق خدا نے کیوں نہیں دی۔

شہریوں کے دل توڑکر فتح کے قلعے تعمیر نہیں کیے جاسکتے۔کبھی بھی نہیں۔ پنھل ساریوایک حساس دل ہے۔ بہرِخدا !اسے مت توڑیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).