عہد ساز منصف اور اپنا گریباں چاک


“کوئی تین بجے کے قریب اچانک یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اوڑھی ہوئی چادر میرے اوپر سے کھینچ کر پرے پھینک دی ہے ۔ میں ہڑبڑا کر بستر پر بیٹھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ کھلے کالر اور کھلے کفوں کی قمیض اور شلوار پہنے بھٹو نہایت تلخ لہجے میں مجھے انگریزی میں بتا رہے ہیں، “لُک واٹ دے ہیو ڈن ٹو می (دیکھو انہوں نے میرے ساتھ کیا کیا ہے ) ناصرہ بھی جاگ اٹھیں۔ کہنے لگیں کیا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے ؟ میں نے جواب دیا، “ابھی ابھی بھٹو یہاں موجود تھے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں پھانسی دے دی گئی ہے ۔”
جسٹس جاوید اقبال نے 1970کا الیکشن بھٹو صاحب کے خلاف لڑا۔ وہ ایک مضبوط امیدوار تھے ، فرزند علامہ اقبال ہونے جیسا قابل فخر نسب موجود تھا، عام حالات ہوتے تو وہ باآسانی جیت جاتے ، لیکن وہ الیکشن ہار گئے ۔ ہارنے کے بعد انہوں نے سیاست سے کنارہ کیا اور عدلیہ کے ایک معزز رکن رہے ۔ بھٹو کے ساتھ اپنے اختلافی معاملات بہت لائٹر نوٹ میں انہوں نے لکھے ۔ چاہتے تو کچھ بھی کر سکتے تھے.

“اپنا گریباں چاک” ان کی اپنی سوانح تھی، صاحب طرز لکھنے والے تھے ۔ ایک جگہ لکھا کہ بھٹو اسلامی سوشلزم کی وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگے کہ بھئی مشرقی پاکستان میں لوگ سوشلزم کے علاوہ کوئی بات نہیں سنتے اور مغربی پاکستان میں اسلام کا نعرہ لگائے بغیر کوئی بات نہیں بنتی، تو بس میں نے سوچا کہ اسلامی سوشلزم کی بات چھیڑی جائے تاکہ دونوں جگہ سے ووٹ پکے ہو سکیں (ویسے یہ کوئی نیا نعرہ نہیں تھا، سبط حسن صاحب کی نوید فکر کے مطابق لیاقت علی خان بھی 1948کے دوران کئی جگہوں پر یہ لفظ استعمال کر چکے تھے ۔) خود جاوید اقبال بھی ایک الگ ہی انسان تھے ۔ مذہبی رسومات سب پوری کرتے مگر فلسفے کی بہت سی گرہیں بھی ان کے اندر موجود تھیں۔ جب الیکشن میں کھڑے ہوئے تو ایک طرف پیپلز پارٹی والے ان پر سرمایہ دار اور مولویوں کا ایجنٹ ہونے کی پھبتیاں کستے تھے ، دوسری طرف مولانا حضرات بھی انہیں اپنا مخالف قرار دیتے تھے ۔ ان کے پاس لاجک یہ تھی کہ جاوید منزل سے منسلک مسجد کو اوپر والی منزل پر منتقل کیوں کیا اور نیچے اس کی جگہ دوکانیں کیوں بنا دیں۔ وہ خود وضاحت دیتے ہیں کہ دکانیں بنوا کر ان کی آمدن سے ایک ٹرسٹ قائم کر دیا تھا کہ مسجد خود کفیل ہو جائے اور اسے کسی بیرونی سہارے یا امداد کی ضرورت نہ رہے ۔

الیکشن کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، “میرے حلقے میں جتنے بھی پولنگ اسٹیشن تھے وہاں انتظام بہت اچھا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے لیے قیمے والے نان موجود تھے اور میاں محمد شریف نے ووٹروں کو لانے کے لیے بسوں کا انتظام بھی کر رکھا تھا۔ میرے ورکروں کو امید تھی کہ میں اس حلقے سے کامیاب ہو جاؤں گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ بہت بڑی تعداد میں ووٹر میری ہی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ پر آئے ، میرے ہی کیمپ سے قیمے والے نان کھائے اور چٹیں وصول کیں، لیکن اندر جا کر ووٹ بھٹو کو ڈال گئے ۔” انہوں نے مختلف سیاسی وجوہات پر روشنی ڈالی مگر کہیں بھی دھاندلی یا جعلی ووٹ پڑنے کی بات نہیں کی۔ وہ سیاسی حرکیات جانتے تھے ، انہیں معلوم تھا کہ ووٹ ڈالنے والا تمام تر پیشکشوں کے باوجود مہر لگاتے وقت ایک مرتبہ اپنے ضمیر کی آواز ضرور سنتا ہے اس کے بعد جو ہو سو ہو۔ تو یہ ووٹ بہرحال بھٹو صاحب کو پڑے اور وہ الیکشن جیت گئے ۔

اب جسٹس جاوید اقبال کا معاملہ دیکھا جائے تو سامنے کی بات ہے کہ بھٹو کی مخالفت میں الیکشن لڑا، شکست کے بعد بددل بھی ہوئے ، ان کی سیاست سے اتفاق بھی نہیں کرتے تھے ، بعد میں اس راہ سے ہی الگ ہو گئے ، عدلیہ کا رخ کر لیا لیکن ۔۔۔ لیکن ان کا ضمیر زندہ تھا۔ جب بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے فیصلہ آیا، انہیں سن گن یقیناً ہو گی۔ وہ جانتے ہوں گے کہ جو ہونے جا رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے ۔ یہ سب چیزیں ان کی نروز پر سوار رہیں اور آخر اس خواب نما واقعے کی صورت کلائمیکس پر پہنچ گئیں۔ روحانی معاملات سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو چیز ہمیں بہت زیادہ پریشان کر رہی ہوتی ہے وہ ہمارے خوابوں میں بھی نظر آتی ہے ۔ عشق عاشقی کا معاملہ ہو، کوئی شریکوں کا مسئلہ ہو، کسی قسم کی رنجش ہو، کوئی خوف ہو، یہ سب چیزیں لاشعور سے ہوتی ہوئی نیندوں میں جگہ پاتی ہیں۔ تو انہوں نے یہ سب بہت تفصیل سے لکھا اور کئی انٹرویوز میں بھی اس پر بات کی۔ بات اصل میں یہ تھی کہ ان کے سر میں کسی پاکبازی، دکھاوے کی بڑائی یا پرہیز گاری وغیرہ کا سودا نہیں تھا۔ سیدھے سادے آدمی تھے ، کشادہ دماغ رکھتے تھے ، جو صحیح لگا اسے ٹھیک کہا جو غلط لگا اسے جھٹلا دیا۔ مجال ہے جو اپنی بائیو گرافی میں کہیں خود کو انہوں نے باسٹھ تریسٹھ پہ پورا اتارنے کی کوشش دکھائی ہو۔

کچھ بائیوگرافیکل نوٹس جسٹس نسیم حسن شاہ کے بھی موجود ہیں۔ “عہد ساز منصف” کے نام سے ، یہ کتاب محترم تنویر ظہور صاحب نے ترتیب دی تھی۔ بھٹو حکومت کے دنوں میں وہ 18مئی1977کو سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج مقرر ہوئے تھے۔ جسٹس صاحب ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے بھٹو کی اپیل مسترد کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ وہ اس بینچ کے سب سے جونیئر رکن تھے ۔ اپنی سوانح میں وہ لکھتے ہیں، “قانونی طور پر یہ فیصلہ کلی طور پر ریکارڈ کے مطابق اور آزادانہ تھا اور میرا ضمیر مطمئن ہے ۔” اس سے پہلے انہوں نے یہ بات واضح کی ہے کہ اس مقدمے میں ان پر یا کسی جج پر کوئی دباؤ نہیں تھا اور جو کچھ بھی ہوا اس میں بہت زیادہ قصور بھٹو صاحب کا تھا کیوں کہ وہ مقدمے کو سیاسی طور پہ ڈیل کر رہے تھے اور اسے زیادہ سے زیادہ طویل کھینچنا چاہتے تھے ۔

پھر اسی کتاب کے شروع میں انہوں نے لکھا کہ “ایک برس بعد بھٹو صاحب کا ذاتی مقدمہ سپریم کورٹ میں آیا، یہ ان کی سزائے موت کی اپیل کی سماعت تھی۔ اس کیس کے دوران بھی بھٹو صاحب نے جو بحث کی وہ ان کے وکلاء کی بحث سے بہتر تھی۔ مگر ان کی یہ مدلل بحث اس لیے کارگر نہ ہو سکی کیوں کہ ہائی کورٹ نے ریکارڈ اور شواہد کی روشنی میں جو فیصلہ لکھا تھا، وہ ان کے جرم کو ثابت کرنے میں کافی تھا۔” گویا بحث مدلل تھی لیکن کارآمد نہیں ہو سکی۔ جب اندر کی آواز نے بہت زیادہ تنگ کیا تو انہوں نے بہت بعد میں کہیں ایک انٹرویو کے دوران اعتراف کر لیا کہ یہ فیصلہ دباؤ کا نتیجہ تھا۔ ان کی مذکورہ سوانح مکمل طور پر اپنا گریباں چاک کے برعکس باسٹھ تریسٹھ کے جملہ معیارات پہ پوری اترتی ہے ۔

بات سیدھی ہے ، سامنے کی ہے ، دو جج تھے، دونوں کے اپنے اپنے خیالات تھے، ایک نے وہ لکھا جو انہوں نے لکھنا چاہا ایک نے اس کی تاویل دی جو ان سے پہلے لکھوا دیا گیا تھا۔ تاریخ بہت ظالم چیز ہے ، وہ تو آپ کے سامنے وائٹ ہاؤس کے ڈی کلاسیفائڈ پیپرز بھی رکھ دیتی ہے ، وہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ بھی سامنے لاتی ہے ، بھٹو کیس کے مکمل ڈاکیومینٹس بھی محنت کرنے پر نکالے جا سکتے ہیں۔ فیصلہ وقت کا ہوتا ہے ، چاہے باسٹھ تریسٹھ ہی ہو۔ کل کلاں کو جب تنخواہ نہ لینے پر تنخواہ لے سکنے کا کیس بنایا جائے گا اور کسی اگلے بے گناہ کی گردن پھنسے گی تو بہت سی نئی جہتیں سامنے آئیں گی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ “نواز شریف نے کیس کو سنجیدہ نہیں لیا / سیاسی رنگ دیتے رہے ” اور یہ ایک مقبول عام عذر ہو گا۔ بہرحال قانون کے نصاب میں ایک اور بے نظیر فیصلے کا اضافہ ہوا، بلوم برگ رپورٹ بھی یہی کہتی ہے ، نوشتہ دیوار بھی یہی ہے ۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain