سرخوں کا ”زندیق“ چل بسا


اختلافات کو برداشت نہ کرنے کی روایت بہت تگڑی کہ منطق، سائنسی تجزیے، جدلیات، مکالمے اور پتہ نہیں کیا کیا ”کلمے“ صبح شام ورد کرنے والے بھی اکثر و بیشتر اسی روائیت کے امین نکلے۔ موچی دروازے کے اک مکین کو 1970 کی دہائی میں ترقی پسندی کی”بیماری“ لاحق ہوئی تھی کہ وہ ترقی پسند لٹریچر پڑھتے پڑھتے ”وجودیت“ کی دلدل کی طرف بڑھ گئے۔ سارتر کی کتاب ملی توں بغل میں لئے شہر میں پھرتے نظر آئے۔ کراچی کے کمیونسٹ گروپ سے وابستگی تھی کہ اک دن ان کی ”کلاس“ ہوگئی کہ اب آپ سرمایہ داری کے ایجنٹوں کی کتابیں پڑھیں گے؟ کہتے ہیں نظریاتی بندہ کبھی اچھا ایڈیٹر نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اپنے نظریات کے ”گھمے“ کی وجہ سے وسیع النظری سے محروم ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے بات کرنے کی صلاحیت پیدا کرلے توں پھر وہ ”فیض“۔

1932 میں پیدا ہونے والے جمال نقوی 1952 کے سال میں، صرف 20 برس کی عمر میں ترقی پسندی سے جڑ گئے کہ ان کے رشتہ داروں ہی میں یہ ”بیماری“ پائی جاتی تھی جو قربت کے باعث انہیں بھی لگ گئی۔ بقول جمال 22 سال کی عمر میں وہ جیل جا پہنچے کہ 1954 کو ریاست پاکستان نے امریکیوں کو خوش کرنے کے لیے پہلے مغربی پاکستان اور اگلے مہینے مشرقی پاکستان کی کمیونسٹ پارٹیوں پر پابندیاں لگا دیں تھیں۔ جیسے 9/11 کے بعد جنرل مشرف طالبان کے نام پر جعلی ایکشن کرکے مال کماتے رہے ایسے ہی 1950 کی دہائی میں ”امریکہ بہادر“ کے دربار میں حاضری کے لیے کمیونسٹ مخالفت شرط اولین تھی۔ بڑے بڑے دانشوروں، ادیبوں، عالموں اور متحارب فرقوں کی مذہبی و فرقہ وارانہ جماعتوں کا ظہور اسی کمیونسٹ مخالفت کے ایجنڈے کی دین ہے۔ کچھ ایسے باکمال ادیب و دانشوربھی ہیں جنھوں نے 1950 کی دہائی میں اسلام کی آڑ لے کر کمیونسٹ مخالفت میں بھی حاضریاں لگوائیں تھیں اور پھر 9/11 کے بعد طالبان مخالفت میں بھی ایوارڈ لیتے رہے۔

خیر بات تو جمال نقوی کی ہو رہی ہے جنھوں نے اس وقت ترقی پسندی کو اپنایا جب ان کے کھیلنے کے دن تھے۔ کمیونسٹوں پر افتاد کا زمانہ تھا کہ پنڈی سازش کیس اور پھر چند سال بعد پارٹی پر پابندی سے حالات ناگفتہ یہ ہوجانا عجیب نہیں تھا۔ پارٹی کا مرکزی دفتر لاہور میں تھا کہ جسے سیل کردیا گیا اور باقی شہروں میں پکڑ دھکڑ چلتی رہی۔ جمال بھی جیل جا پہنچے۔ رہائی کے بعد جمال نے لیکچرار بننے کی کوشش کی مگر جلد ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ کمیونسٹوں سے وابستگی مہنگی پڑے گی کہ نئے آقا کی خوشنودی اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ عزیز تھی۔ جمال کراچی کو تج کے حیدر آباد آ بیٹھے اور پھر یہیں اپنے بہنوئی غالباً مظہر عباس وغیرہ کے والد کے پرائیویٹ کالج میں پڑھاتے رہے۔ 1948 سے 1954 کے درمیان چلنے والی کمیونسٹ پارٹی آف (ویسٹ) پاکستان کا مرکز لاہور تھا اور اس دوران بھی پارٹی کے علاوہ بہت سے دیگر کمیونسٹ و سوشلسٹ گروپ کام کرتے تھے۔ 1954 کے بعد تو ان گروپوں کا اک بھنڈار لگ گیا جبکہ ان میں بہت سے لوگ عوامی لیگ ،آزاد پاکستان پارٹی اور 1957 کے بعد نیب میں بھی کام کرتے رہے تھے۔ ایرک رحیم کو اپنا استاد کہتے ہیں جو کراچی میں 1948 سے 1957 تک کی کیمونسٹ سیاست کے زندہ گواہ ہیں۔

1950 کی دہائی میں جمال کراچی کی ترقی پسند سیاست کے پچھلی صفوں کے مکین تھے البتہ 1960 کی دہائی کے پہلے وسط سے جمال نے اپنا کمیونسٹ دھڑا بنانا شروع کیا کہ امام علی نازش ان ہمراہ تھے۔ پھر یہ ”نازشی سازشی“ ٹولہ لگ بھگ 1980 کی دہائی کے وسط تک اسی سیاست کا امین رہا۔ 1990 کی دہائی میں وہ اپنے خیالات میں تبدیلیاں آنے کا اعلان کرچکے تھے اور یوں بہت سے سکہ بند لیڈروں نے انہیں ’زندیق“ قرار دے ڈالا۔ 2005 میں احمد سلیم نے ان کا انٹرویو لیا جسے ہم نے عوامی جمہوری فورم میں چھاپا اور آن لائن بھی موجود ہے کہ انھوں نے بغیر لگی لپٹے یہ کہا کہ لیفٹ اور رائٹ کی اصطلاحات اب بے معنی ہوچکی ہیں۔ جمال کے دو انٹرویو اور ایرک رحیم و طفیل عباس کا انٹرویو کراچی کی ترقی پسند سیاست کو سمجھنے کا ایک حوالہ ہیں۔

ایک ملاقات میں ان کو چھیڑتے ہوئے میں نے پوچھا سی آر اسلم بارے آپ کا خیال ہے۔ جمال نے فور۱ کہا انھوں نے 1970 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ہم سے روس کی سی بی اے شپ چھین لی تھی۔ سی آر اسلم کسی زمانے میں ماﺅ نواز تھے کہ پھر 1972 میں سوشلسٹ پارٹی بنائی اور روس نواز ہو گئے۔ سوشلسٹ پارٹی توں لاہور میں بنی تھی مگر اس نے پارٹی کا جھنڈا کراچی میں بھی بلند کردیا کہ بقول جمال اس کے پیچھے روسیوں کی مدد تھی جو اب جمال کے گروپ کی بجائے سی آر اسلم کے گروپ کو مل چکی تھی۔ جمال نے بہت سے انٹرویو دیے، کتابیں بھی لکھیں مگر بھٹو دور میں افغانستان سے اپنے گروپ کے تعلق بارے کجھ نہ بتایا۔ البتہ جب اس تعلق کی وجہ سے1970 کی دہائی میں بہت سے پختون اور دیگر ان کے گروپ میں شامل ہوئے اور جمال کی حاکمیت کو تہہ تیغ کر ڈالا تو انھوں نے 1980 کی دہائی میں ہونے والی پارٹی کی اندرونی کشمکش پر تبصرہ ضرور کیا۔ بھلا ہو جمعہ خاں صوفی کا کہ انھوں نے وہ سب لکھ ڈالا جس بارے جمال نقوی خاموش رہے۔ سب سے دلچسپ بلکہ سبق آموز قصہ جو جمال کے ساتھ پیش آیا وہ ان کی مارکسزم سے ”خلع“ کا تھا جسے یار لوگوں نے ”طلاق“ کا درجہ دے دیا۔

میں ان لوگوں سے بھی ملا ہوں جو1980 کی دہائی کے آخری سالوں اور 1990 میں جمال کو کہتے رہے کہ پارٹی کو دوبارہ بناتے ہیں مگر جمال کہتے تھے کہ ایسے گروپوں اور نظریاتی سیاست کی ضرورت نہیں کہ مارکسزم بارے میرے ذہن میں بنیادی اعتراضات پیدا ہو چکے ہیں۔ 2007 کے وسط میں وہ لاہور آئے اور کھل کر اپنے بدل چکے خیالات پر سیر حاصل تبصرہ کیا۔ اب وہ جمہوریت اور سول سپیس کے قائل تھے اور سامراج، قدر زائد جیسی اصلاحات اور لیننی پارٹی سٹکچر کے ناقد۔ انھوں نے بتایا کہ 1990 کے سال سے میں یہ باتیں کھلے عام کر رہا ہوں۔

جمال چاہتے تو پہلے جیسا ماڑا موٹا کمیونسٹ گروپ چلا ہی سکتے تھے۔ جمال کے پرانے لائل پوری مدح و ناقد عزیز مرحوم کہا کرتے تھے کہ کمیونسٹ گروپ بنانے کے لیے تھیسس لکھنا بنیادی اور اہم ترین کام ہوتا ہے۔ جو تھیسس لکھ سکتا ہے اس کی کمیونسٹ گروپ پر حاکمیت رہتی ہے۔ جمال کی اپنے کمیونسٹ گروپ پر حاکمیت میں بھی بنیادی بات یہی تھی کہ تھیسس لکھنے والے یا تو تھے ہی نہیں یا نکال دیے گئے۔ پر اب تھیسس لکھنے والا ہی نظریات سے انکاری ہوا توں پھر اسے ”زندیق“ وہی لوگ کہنے لگے جو تھیسس نہ لکھ سکتے تھے۔ جتنے برس جمال نے کمیونسٹ تحریک کو دیے لگ بھگ اتنے برس ہی وہ اک” منحرف“ کے طور پر بھی زندہ رہے ۔ لوگوں سے ملتے رہے، لاہور آکر بھی ملتے تھے۔ مگر اس دوران ان کے بہت سے پرانے مدح بھی ان سے ملنے سے کتراتے تھے۔ سرخ پرچم کی تحریروں سے لے کر Leaving The Left Bhind تک ان کی تحریروں اور سیاست سے بہت اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی جمال اکیلے نہیں جنھوں نے کمیونسٹ گروپ بنایا ہو اور بعد میں گروپ بنانے کی سیاست تج دی ہو۔ کچھ نے این جی اوز بنائیں تو کچھ نے صحافت۔ فیض، سبط حسن، وغیرہ نے بھی کسی گروپ میں باقاعدہ حصہ نہیں لیا بعد میں۔ صفد میر صاحب اپنے آخری 30 سال کس گروپ میں رہے تھے؟

ایسے لوگوں کی فہرست ابھی بنائی نہیں گئی مگر اس میں اضافہ بہت ہو چکا ہے آخری 30 سالوں میں۔ ویسے دائیں اور بائیں بازو میں ان عشروں کے دوران ”منحرفین“ کی تعداد خاصی بڑھ چکی ہے مگر کچھ سکہ بند تاحال ”انکاری صورتحال“ میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی پوچھے کہ 1990 کے بعد پروفیسر گروپ کے ”تھم“ گروپ سیاست کیوں نہیں کرتے؟ تو ایس کا کیا جواب ملے گا؟ ایسا بھی نہیں کہ یہ لوگ جھک گئے ہیں؟ یہ کسی نہ کسی شکل میں، کسی نہ کسی سطح پر متحرک رہے۔ مگر جمال سے اک فاش غلطی ہوگئی۔ سیانے اکثر یہ غلطی نہیں کرتے۔ بس جمال نے مارکسزم کے بنیادی اصولوں ہی پر ہاتھ ڈال دیا۔ یہ کہا کہ اب پرانی سیاست سے آگے جانے کا وقت ہے۔ یہ بھی کہا کہ جو کرتے رہے وہ صحیح نہیں تھا۔ اب بنیادی تصورات پر حملہ تو مقلدین برداشت نہیں کرتے۔ جو لوگ دن رات فرقہ و مذہب کا کاروبار کر رہے ہوتے ہیں وہ مذہب سے انکار کرنے والے پر ایسے ہی حملہ آور ہوتے ہیں جسے ہم میں سے اکثر جمال کے خلاف ہو گئے۔ دلیل، مکالمہ اور منطق سب تج کے ان آخری 25 برسوں میں اس کے قریبی دوست بھی یہ سادہ دلیل دیتے نظر آئے کہ روس ٹوٹنے کی وجہ سے شاید کھسک گیا ہے جمال۔ وہ جو اس کے تھیسس کو دن رات، گلی، گلی، پنڈ، پنڈ، لیے پھرتے تھے وہ اب اس سازش کا کھرا ڈھونڈنے میں لگ گئے یا یہ کہتے نظر آئے کہ مرشد بے راہ رو ہو گیا ہے۔

اسی سال کے شروع میں کراچی جانے کا اتفاق ہوا تو ظفراللہ پوشنی اور جمال سے ملاقات بھی کی۔ جمال سے ملنے کا وسیلہ ناصر آرائیں تھا جو جمال کا داماد بھی ہے اور ان کے منحرف دور کا بڑا گواہ بھی۔ فیکا، میں اور ناصر آرائیں جمال سے ملے تو وہ بہت ضیعف اور بیمار تھے۔ میں نے جمعہ خاں صوفی کی کتاب کا ذکر کیا اور پوچھا آپ انہیں جانتے ہیں۔ انھوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے کہا کہ آپ کے گروپ کے متعلق بہت سی باتیں ہیں اس کتاب میں۔ پڑھنے پر آمادہ نظر آئے مگراب پڑھائی کی محض خواہش ہی رہ گئی تھی۔ جنبش تو نہیں تھی مگر خواہش ضرور تھی۔ جنھوں نے روس سے مال کمایا ان کا ذکر پھر کبھی کہ جمال نے کسی فائدے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہوتا تو نظر آتا۔ مگر ہم کسی کو اختلاف کی اجازت نہیں دے سکتے اور وہ بھی بنیادی افکار سے۔ جھگا جل جائے مگر غور نہ کرنے پر مصر رہنا لازم۔ جمال اب نہیں رہے، مسئلہ یہ نہیں کہ ان کے خیالات و افکار صحیح تھے یا غلط، بلکہ مسئلہ ہمارے رویوں کا ہے۔ اگر ہم اس بارے کچھ سوچ سکیں تو یہی ترقی پسندی ہے جسے ہم تج چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).