راجہ صاحب کوٹیشن لکھتے ہیں


اچھی خاصی مجلس جمی تھی۔ ایک صاحب داخل ہوئے۔ پہلے سے جان پہچان نہیں تھی۔ کسی نے پروفیسر صاحب کہہ کے ہاتھ ملایا، کسی نے راجہ صاحب کہا، مجھے راجہ صاحب کہنا پسند آیا۔ مولا سب دوستوں کو راجہ ہی رکھے۔ اور جو دوست نہیں، انہیں بھی راجہ ہی رکھے۔

جمال بھائی نے تعارف کرواتے ہوئے کہا “راجہ صاحب کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں”۔ ادب سے پوچھا، آپ شاعر ہیں یا نثر لکھتے ہیں۔ فرمایا آج کل اتنا وقت کسی کے پاس نہیں ہوتا جی، میں کوٹیشنز لکھتا ہوں۔ ایک لحظے کو چونکنا پڑا۔ پوچھا، حضور کوٹیشن کہاں لکھتے ہیں۔ یہ سوال اس لیے پوچھا کہ کوٹیشن تو کسی ٹھیکے وغیرہ کے ٹینڈر میں لکھی جاتی ہے یا کسی نامور شخص کے زبان زد عام جملے کو کوٹیشن کہا جاتا ہے۔ تاہم راجہ صاحب نے مسکرا کر بتایا کہ میں نے ایم اے انگریزی کرنے کے دوران فیصلہ کر لیا تھا کہ آج کل کے تیز دورمیں کسی کے پاس لمبے ناول، افسانے اور ڈرامے وغیرہ پڑھنے کا وقت نہیں، اس لیے میں ایک ایک جملے کی کوٹیشن لکھتا ہوں جسے آسانی سے پڑھا اور یاد رکھا جا سکے۔ اس پر کسی نے مبشر علی زیدی کا حوالہ دیا۔ وہ اردو میں مختصر نویسی کے امام سمجھے جاتے ہیں۔ کہیں سے گیبرئیل لاؤب کا حوالہ بھی چلا آیا، اس کی کتاب “رنجیدہ منطق” کے کچھ حصے کئی دہائیاں پہلے ادب لطیف میں شائع ہوئے تھے۔

راجہ صاحب نے وضاحت کی کہ یہ لوگ تو ادب وغیرہ لکھتے ہیں، میں کوٹیشن لکھتا ہوں۔ یہ صنف میں نے خود ایجاد کی ہے۔ شرکائے مجلس وضع دار تھے۔ ادھر ادھر سے ہوتی ہوئی گفتگو سیاست کی طرف نکل گئی۔ حافظ محمد سعید کا ذکر چلا۔ خبر ملی کہ حافظ صاحب نے ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ردیف تو مسلم لیگ ہی کی رہے گی، قافیہ تبدیل کر کے عقل و خرد کا قافیہ تنگ کریں گے۔ ایک طرف سے آواز آئی کہ حافظ سعید صاحب نے فرمایا ہے کہ اب وہ سیاست میں حصہ لیں گے۔ واہ، یہ تو بات کھل گئی۔ گویا اب تک حافظ سعید جو کر رہے تھے وہ کچھ دینی فرائض تھے اور خدمت خلق وغیرہ تھی۔ حافظ صاحب نے مان لیا کہ دین اور سیاست دو الگ الگ شعبے ہیں۔ اگرچہ دیگر کارناموں کی طرح حافظ سعید کی سیاست کا مآل بھی معلوم ہے۔

جب کوئی نوجوان بتاتا ہے کہ میں “شعر وشاعری لکھتا ہوں” تو اس ترکیب کی غرابت ہی سے آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ شعر فہمی عالم بالا معلوم شد۔ جب ایک فلمی اداکارہ ڈھلتی عمر میں اعلان فرماتی ہیں کہ میں شادی کے بعد فلمی دنیا سے الگ ہو جاؤں گی تو جاننے والے جان لیتے ہیں کہ فلموں میں ان کی کارکردگی کیا رہی ہو گی۔ پچیس برس پہلے عمران خان صاحب کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر آئے تو ان کی بدن بولی سے معلوم ہو گیا کہ یہ خوش رنگ کبوتر اب سیاست کے بام حرم پہ اترے گا۔ خان صاحب نے چار برس سیاست کو برا بھلا کہتے ہوئے گزار دئیے اور پھر سیاسی جماعت بنا لی۔ سمجھنے کی کوشش کیجے، دل کی لگن ایسی چیز نہیں کہ اسے مشغلے کی طرح سے اپنایا اور چھوڑا جا سکے۔

1890 کی دہائی میں محمد علی جناح نے دادا بھائی نورو جی کی تقریریں سننے کے لیے برطانوی پارلیمینٹ کی گیلری میں جانا شروع کیا۔ گجراتی نژاد نوجوان نے زندگی کے باقی ساٹھ برس سیاست کی نذر کیے اور قائد اعظم کے نام سے 1948ء میں وفات پائی۔ ان کی شخصیت کا خمیر سیاست سے اٹھا تھا۔ وہ آخری دم تک سیاست دان رہے۔ باچا خان نے پختون قوم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا تو ان کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ نوے برس سے زیادہ عمر پا کر جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ باچا خان کی ہر سانس سیاست تھی۔

پیلو مودی سکول کے زمانے سے ذوالفقار علی بھٹو کے دوست چلے آ رہے تھے۔ اپنی یادداشتوں میں بتاتے ہیں کہ زلفی بھٹو سکول کے زمانے سے سیاست میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی ختم ہو گئی، ان کی سیاست ختم نہیں ہوئی۔ سیاست نئے برس کا مقبول لباس نہیں جسے پہنا اور پھر عندالطلب اتارا جا سکے۔ اوریانا فلاشی سے انٹرویو میں بھٹو صاحب نے کہا تھا ہم نے سیاست دریاؤں سے سیکھی ہے۔ دریا تو محض استعارہ تھا، وہ دراصل یہ فرما رہے تھے کہ انہوں نے زندگی کو سیاست کے عدسے سے دیکھا ہے۔ سیاست ہی ان کا بنیادی جذبہ قرار پائی۔ آیئے مرزا غالب کے عزیز دوست مفتی صدر الدین آزردہ کا ایک شعر پڑھتے ہیں۔

کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی

کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے

اقبال نے اپنی تحریروں میں بہت دفعہ اہل پنجاب کے سیاسی شعور اور کوتاہ نظری کا گلہ کیا ہے۔ اقبال نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو منبر کے راستے سیاست کے سٹیج پر چڑھتے اور اترتے دیکھا تھا، مذہب کا نام لے کر چولے بدلتے دیکھا تھا۔ کبھی تحریک خلافت میں تھے۔ وہاں سے تان پلٹا لیا تو مجلس احرار پنجاب قرار پائے۔ چھپن فیصدی کا نعرہ بلند کیا۔ متحدہ پنجاب میں مسلمانوں کی تعداد چھپن فیصد تھی۔ پنجاب کے مسلمانوں کے لیے چھپن فیصد ملازمتوں کا مطالبہ ” چھپن فیصدی تحریک” کہلاتا تھا۔ کبھی نیلی پوش تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ کبھی مسلم لیگ سے اتحاد کا عندیہ دیا۔ اور کبھی کانگریس کے مجمعے کو قومیت اور مذہب کا فرق بتایا۔ پاکستان بن گیا تو اعلان کیا کہ اب ہم سیاست ترک کرتے ہیں۔ دین اور فلاح کا کام کریں گے۔ دس برس بعد 1958ء میں پھر اعلان کیا کہ اب ہم سیاست میں حصہ لیں گے۔ سیاست کا دریا دس برس تک کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ اس دوسری بار پاؤں رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت پانی بہہ گیا ہے۔ سیاسی کردار کا احیا نہیں ہوا کرتا۔ اس لیے کہ سیاسی شعور ایک نامیاتی تسلسل کا نام ہے۔ معاشرت اور سیاست کے رشتے کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ سیاست وہ کرہ ہوائی ہے جس میں زندگی سانس لیتی ہے۔ نہ تو اس میں کلائی پر گنڈا باندھ کے شاگردی اختیار کی جاتی ہے اور نہ اس میں کوئی ریٹائرمنٹ ہوتی ہے۔ ہمارے ایک نوجوان اور متقی اہل وطن تھے، ٹیلی ویژن کی سکرین پر اچھی اچھی باتیں بتایا کرتے تھے۔ تحصیلی اردو کا شین قاف نہایت صاف تھا۔ مئی 1989ء میں مینار پاکستان پر جا کر ایک سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا۔ ہاتھ میں زمرد کی تسبیح پکڑ رکھی تھی۔ تقریر کے عین بیچ میں اچانک سٹیج کے پیچھے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد دوبارہ نمودار ہوئے اور فرمایا کہ استخارہ کیا تھا۔ لاہور والے فلم کا پہلا شو دیکھ کر فیصلہ سنا دیتےہیں۔ یہاں بھی یہی آواز آئی کہ ڈبہ پیر ہے اور اس کی سیاست کا ڈبہ گول ہی سمجھو۔ اکتوبر 99 کے پہلے ہفتے تک گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سٹیج پر گرج چمک رہے تھے، بارہ اکتوبر کو ڈیموکریسی ڈوب گئی، اس کا کھیون ہار طاہر القادری کہیں نظر نہیں آیا۔ چار برس بعد 2002 کے ریفرنڈم کے دوران مینار پاکستان کے سائے تلے عمران خان، اور طارق عزیز کے ہمراہ پرویز مشرف کی حمایت کرتا البتہ دکھائی دیا۔ خدا اس مینار کی حفاظت کرے، یہ مینار روز قیامت تاریخ کی بہت سی گواہیاں دے گا۔

اٹھائیس سال کی سیاست میں شیخ الاسلام کی جماعت نے ایک نشست 2002ء میں جیتی۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اسمبلی سے استعفی دیا تو کیوں دیا؟ کسی کو معلوم نہیں کہ کینیڈا کب گئے اور کیوں گئے؟ واپس آئے تو کیوں آئے؟ اندازہ لگایا گیا کہ طاہر القادری نے 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کے لاہور ائیرپورٹ پر اترنے کا احوال کہیں پڑھ رکھا ہے۔ لاہور ائیر پورٹ پر اترنے والا بھٹو پھانسی چڑھ جاتا ہے۔ سیاست کو خیرآباد کہنے کا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ لاہور کے ائیرپورٹ پر دس اپریل 1986ء کو اترنے والی بے نظیر بھٹو بیس برس تک سیاست کا تاوان ادا کر کے اپنی قبر میں اتر جاتی ہے۔ بے نظیر بھٹو اور سیاست کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کبھی سیاست شروع کرنے یا سیاست سے علیحدگی کا ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ سیاست اختیار نہیں کی جاتی۔ سیاست کی پکار تو فضا میں ہمہ وقت موجود ہوتی ہے۔ شہری کو یہ وجودی فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اس کاربلاخیز میں اپنا حصہ ڈالے گا یا نہیں اور جب ایک دفعہ زندگی میں سیاست کا معنی سمجھ لیا تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیشہ نہیں، کرئیر نہیں، بلکہ ذمہ داری ہے۔ جو لوگ ادب اور سیاست کا مفہوم نہیں جانتے، وہ ہر جگہ کوٹیشن لکھتے ہیں، کوٹیشن بھرتے ہیں اور کوٹیشن داخل کرتے ہیں۔ اور پھر کنوتیاں کھڑی کر کے دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو جلوس نکالنے کا اشارہ کہاں سے ملا ہے؟ صاحب کوٹیشن آپ بھرتے ہیں، اشارہ کرنے والے دفتر کا علم بھی آپ ہی کو ہونا چاہئیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).