ک کتاب، گاف گم


آج کتاب نگر پر مختار مسعود کی “حرفِ شوق” تو نہیں مل سکی مگر شاہانہ رئیس ایلیا کی چچا جون دیکھ کر کچھ عجیب سی اداسی ہوئی۔ اپنی گمشدہ کتابوں کی فہرست اور ان سے جڑی کہانیاں یاد آ گئیں۔ گمشدہ کتاب اگر کسی دوست نے تحفے میں دی ہو تو دکھ خریدی ہوئی کتاب سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ایک دوست نے “چچا جون” بھیجی، پچھلے سال ہم ایک جگہ بات کر رہے تھے تو ایک اور دوست نے اس کتاب کا ذکر کیا، کتاب پڑھنے والے اس مشکل سے واقف ہیں۔ آپ کوئی کتاب پڑھنا چاہیں اور کتاب نہ مل رہی ہو تو کیا حال ہوتا ہے، وہ کتاب اس دوست کو بھیجنے کے ارادے سے مارکیٹ گئی تو مشہور کوریئر والے دفاتر بند تھے۔ ایک غیر معروف سا دفتر کھلا ہوا تھا، خیر میں وہاں داخل ہوئی، جو صاحب وہاں تھے انہوں نے کتاب پر خاصی حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کب شائع ہوئی، اور کتاب سے زیادہ حیرت کا اظہار انہوں نے اس بات پر کیا کہ بھلا آج کل کتاب کون پڑھتا ہے۔ خیر کتاب اپنی طرف سے تو ہم نے بھجوا دی اور اس دوست کو بتا بھی دیا کہ ایک دو روز میں کتاب پہنچ جائے گی۔

کچھ دن تک کوئی پیغام نہیں ملا تو سوچا بھئی ایسی بھی کیا بےمروتی انسان بتا پی دیتا ہے۔ بےشرم بن کر خود پوچھنے پر علم ہوا کہ کتاب تو آج تک نہیں پہنچی، اتفاق سے انہی دنوں میں شہر بھی چھوڑ چکی تھی، رسید پر لکھا نمبر ملایا تو جن صاحب نے فون اٹھایا انہوں نے کہا بی بی ہمارا پارسل وارسل کا کوئی کام نہیں۔ بی بی نے اپنا غصہ ایک طرف رکھا اور اپنے پاس موجود دستخط شدہ کاپی اُس دوست کو بھجوانے کے لیے خزانہ کھولا تو علم ہوا ‘الم غلم’ بھی اس خزانے سے غائب ہے۔ بی بی نے غصے اور صدمے کو برداشت کرتے ہوئے ‘چچا جون’ بھیجی جو پہنچ بھی گئی۔ بہت دن یہ سوچنے میں گزر گئے آخر ‘الم غلم’ گئی کہاں اور ‘چچا جون’ والا پارسل کہاں کھو گیا۔ کچھ عرصے بعد اس دوست نے ایک دو جگہ ٹیگ کیا کہ مجھے یاد ہے، کتاب واپس بھیجنی ہے۔ ایک دو روز میں بھجوا دوں گا۔

اِس سے پہلے کہ وہ ایک دو روز آتے، ایک ایسا دن آ گیا کہ ہمیں سننا پڑا، وہ دوست ہی کھو گیا۔ اسے جنہوں نے آخری بار دیکھا اس کے پاس تب بھی کتابیں ہی تھیں۔ اس خبر کے بعد چچا جون تو کیا سب کچھ بھول گیا۔ اور وہ یاد رہا جس پر کبھی عامر لیاقت جیسے نامعقول انسان نے بھارت جانے کا الزام لگایا تو کبھی دس دس روپے والے اخباروں نے اپنی تاریخ کا شاید گھٹیا ترین پراپیگنڈا کیا۔ جس روز سلمان حیدر واپس آیا، میں اپنی زندگی میں اتنی الجھی تھی کہ اس خوشی کو ٹھیک طرح محسوس نہیں کر سکی۔

اس کے کچھ عرصے بعد مجھے اسلام آباد مسٹر بکس پر ایک کتاب ملی جو دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور دکھ بھی۔ خوشی اس بات کی تھی کہ اچھا یار اس بندے کی کتاب شائع ہو چکی ہے اور دکھ یہ کہ مجھے کبھی کیوں نہیں بتایا۔ بہرحال خوشی غالب آ گئی اور میں نے وہ کتاب مصنف سے سائن کرا لی، اور اگلے روز کسی عجیب طریقے سے وہ کتاب میرے بیگ سے غائب ہو گئی جو آج تک نہیں ملی۔

میں کبھی سمجھ نہیں سکی پیسے، جیولری سب چھوڑ کر اٹھانے والے نے کتاب ہی کیوں اٹھائی اور اس جگہ آخر ایسا کون ہو گا جو کتاب اٹھا لے۔ کتاب کا دکھ شاید کچھ کم ہوتا مگر اس پر اتنا کچھ لکھا تھا کہ وہ بھلائے نہیں بھولتا۔ الم غلم اور چچا جون کی طرح اس تیسری کتاب کا معمہ بھی آج دن تک حل نہ ہو سکا ۔

اور ہاں، اب چچا جون دیکھ کر بھی خرید نہیں سکی۔ اب سائنڈ کاپی سے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں کھو جائے گی تو کسی بھی دوسری کتاب کی نسبت اس کو کھونے کا دکھ زیادہ ہو گا۔ اور کوئی کتاب مانگ لے تو جی چاہتا ہے اسے یہ کہانیاں سنا کر پوچھوں ہماری سائنڈ کاپیز عجیب طریقے سے غائب ہو جاتی ہیں یا پھر کاپی پہنچ جائے تو دوست غائب ہو جاتا ہے، آپ بتائیں یا تو سائنڈ کاپی اچانک یوں غائب ہو جائے گی کہ آپ ہزار بار بھی واقعات کی ترتیب سیدھی کر لیں یہ بات سمجھ نہیں آ سکے گی کہ اس سب کے بیچ کتاب کہاں گئی یا آپ خود بھی غائب ہونا چاہتے ہیں ؟ اس کے بعد میں نے جن دوستوں کو ڈرتے ڈرتے کتاب بھیجی، ایک کو اتنی تاخیر سے ملی اور وہ دو چار دن سوشل میڈیا سے ایسے دور ہوا کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا اس بار کتاب کھو گئی یا دوست۔۔۔

اس سب کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کتاب سے دور ہی رہنا چاہیئے یہ اذیت، آگہی اور اس قسم کے مصائب کے سوا کچھ نہیں دیتی مثال کے طور پر مردان کے مشال کے پاس بھی کتاب تھی اور کراچی کے واحد بلوچ کے پاس بھی کتاب ہی تھی۔ پہلے جیب میں پیسے نہیں ہوتے اور بہت سال بہت سی کتابیں بس یونہی چھوڑ کر آ جائیں، حسرت بھری نگاہوں سے دیکھیں، سٹوڈنٹ لائف میں تو ویسے ہی سو جگہوں سے ہاتھ روک کر کتاب خریدو اور جب جمع ہو جائیں تو رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ کہیں کتاب پڑھیں تو لوگ پوچھیں گے یہ کورس کی کتاب ہے؟ کسی کو شوق ہو تو وہ کہے گا آپ ایسی خطرناک کتاب ہسپتال مت لایا کریں یا اس پر سادہ کاغذ چڑھا لیں۔ اور اگر کہیں آپ کسی بات سے اختلاف کریں تو لوگ کہیں گے چار کتابیں کیا پڑھ لیں اس کا تو دماغ ہی خراب ہو گیا اب ہم سے بحث کرے گی؟ ہم جو ستون ہیں، جو عمر میں بڑے ہیں، جو ایک نظریے کے پیروکار ہیں ان سے بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہماری باتیں من و عن تسلیم کرو ورنہ غدار یا کافر کوئی ایک ٹھپہ تو ہم لگا ہی دیں گے۔ اس لیے اپنی زندگی آسان کریں، کتاب سے دور رہیں، نہ کتاب کھوئے، نہ آپ کو دکھ ہو نہ ہی آپ خود گمشدہ ہوں نہ دوستوں کو یہ دکھ سہنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).