شہید ساتھی کی تلاش: آٹھ اگست کی دردناک یادیں


)حفیظ اللہ شیرانی(

ہر ملازم کی طرح میں بھی صبح دفتر پہنچا۔ تھوڑی تھکان محسوس ہورہی تھی۔ سائڈ روم میں عارضی آرام کے لیے جائے نماز پر لیٹ گیا۔ آنکھیں بند نہیں ہوئی تھیں کہ ہیڈ آفس کراچی سے فون آیا حفیظ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سربراہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے کیا؟ میں حیران ہوگیا کہ کیا بولوں، پوچھا یہ کون کہہ رہا ہے؟ تو جواب ملا، یار باقی چینلز پر ٹیکرز چل رہے ہیں ، میں نے کہا مجھے دو منٹ دو کنفرم کر کے آپ کو اطلاع دے دوں گا۔

جلدی بھاگ آیا۔ ریموٹ کنٹرول اٹھایا۔ چینلز تبدیل کرتا رہا۔ ساتھ میں دفتر میں موجود کیمرہ مین اور انجنیئر سے پوچھا کہ آپ لوگ بھی معلوم کرو کہ کیا ہوا ہے۔ میں نے موبائل نکالا اور سب سے پہلی کال داؤد خان کاسی کو کی۔

ترجمہ:
سر، شیرانی بات کر رہا ہوں۔
جی شیرانی آپ کا نمبر میرے پاس سیو ہے۔
سر، بلال کاسی صاحب کو کچھ ہوا تو نہیں ہے؟
جی مجھے بھی ابھی اطلاع ملی کہ ان پر حملہ ہوا ہے، میں تیار ہوں ہسپتال کے لیے روانہ ہو رہا ہوں، پہنچ کر تمہیں بتاتا ہوں۔
شکریہ، اللہ حافظ
شکریہ

اس گفتگو کے بعد دوسری کال ایدھی کو ملائی تو معلوم ہوا کہ بلال انور کاسی کو منو جان روڈ پر نشانہ بنایا گیا ہے۔

ہیڈ افس کو بتا دیا کہ چلا دو کہ بلال انور کاسی نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے جان بحق ہوگئے۔ ابتدائی خبر ٹیلی فون پر دے دی۔ تفصیل اور تصویر کے لیے ہسپتال جانے کی ضرورت تھی۔ یوں ہم اپنے آفس سے نکل گئے۔

ہماری گاڑی (ڈی ایس این جی) میں ڈرائیور ماما ایوب، کیمرہ مین محمود ہمدرد، انجینئرعمران رانا اور میں (حفیظ اللہ ) روانہ ہوگئے۔ سول ہسپتال ہمارے دفتر سے تقریباَ دس منٹ کے فاصلے پر ہے۔ راستے میں دیکھا کہ وکلا جوق درجوق بھاگتے ہوئے ہسپتال پہنچ رہے تھے۔

ہم ہسپتال پہنچنے والے تھے کہ محمود ہمدرد نے کہا کہ، “یار گاڑی کو ہسپتال کے باہر کھڑا کر دیتے ہیں، وکلا برادری غصے میں ہے لڑائی جھگڑا بھی ہو سکتا ہے اور توڑ پھوڑ بھی۔ میں ویژول بنا کر جلدی نکل آتا ہوں، حفیظ آپ بھی زیادہ دیر نہیں لگانا۔” عمران بھائی نے بھی تقریباَ اسی خدشے کا اظہار کیا اور یوں ڈی ایس این جی ہسپتال کے باہر کھڑی کر دی۔

گاڑی سے اترتے ہوئے میں نے مائیک اٹھایا. محمود ہمدرد نے کیمرہ، یہاں میرے اور اس کے درمیان جدائی آ گئی۔ وہ اندر کس راستے سے اور کیسے چلے گئے یہ ابھی بھی یاد نہیں. خیر میں آگے گیا۔ راستے میں بہت سارے جاننے والے وکلا سے ملتا گیا اور آخر کار رہبر وکلا شہید باز محمد کاکڑ تک پہنچ گیا جو تمام وکلا کے درمیان کھڑے تھے۔ ان کے چہرے پر دکھ اور غم دور دور سے عیاں تھے۔ ان کے ہاتھ میں سگریٹ تھا۔ میں نے سلام کرتے ہوئے کہا سر یہ کیسے ہوا۔ بہت افسردہ باز کاکڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا، یہ ہوتا ہے، فی الحال تو کچھ نہیں کہہ سکتے خیر ۔۔۔۔۔ شاید وہ بہت کچھ کہنے والے تھے، مگر نہ کہہ سکے۔

دیکھا کہ داؤد کاسی صاحب پہنچ چکے تھے۔ ساتھ میں بیرسٹر عدنان کاسی، گل زرین کاسی و کاسی قبیلے کے دیگر چند افراد اور وکلا کے درمیان موجود تھے۔

بحیثیت رپورٹر میں نے آگے جانے کی اجازت لی تاکہ مردہ خانے میں بلال انور کاسی کے پوسٹ مارٹم کی تفصیلی خبر لے سکوں۔ چند قدم آگےگیا تو دور سے دیکھا کہ محمود ہمدرد بھر پور انداز سے اپنے کام میں مصروف تھا۔ وہ کیمرہ ہاتھ میں لیے مردہ خانے کے دروازے کے باہر موجود سیڑھیوں پر کھڑا تھا۔ محمود کا چہرہ مردہ خانے کی طرف تھا، بلال انور کاسی صاحب کی نعش مردہ خانے سے نکال کر ایمبولینس اور پھرگھر کی طرف لے جائی جانے والی تھی۔

یہ سب کچھ سیکنڈوں میں ہو رہا تھا۔ جہاں باز محمد کاکڑ و باقی وکلا کھڑے تھے، مردہ خانہ تقریباَ اس جگہ سے ستر قدم کے فاصلے پر ہے۔ میں باز محمد سے روانہ ہوا تھا اور مردہ خانے کے دروازے پر پہنچنے والا تھا کہ ڈاکٹر نکلا۔ میں نے پوچھا بلال صاحب کو کتنی گولیاں لگی ہیں تو جواب ملا نو گولیاں، دو سر پر سات سینے ۔۔۔۔۔ جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ انتہائی زوردار آواز آئی۔ میں ایک دم بیٹھ گیا۔ چند سیکنڈ کے لیے ہر طرف سناٹا طاری ہو گیا۔

خاموشی کو پولیس اہلکاروں کی ہوائی فائرنگ اور لوگوں کی چیخوں اور زخمیوں کی آہ و پکار نے توڑ دیا۔ اب میرے ذہن میں آیا کہ او پی ڈی کے پچھلے دروازے پر وکلا کے اجتماع کو نشانہ بنایا گیا اور میں اسی طرف بھاگنے لگا۔ وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔ آنسو خود بخود بہنے لگے۔ چند سیکنڈ پہلے تو سب وکلا ٹھیک ٹھاک تھے مگر اب سب کچھ تبدیل ہو چکا تھا۔ انسانی اعضا، جلے ہوئے اجسام، ایک دوسرے کے اوپر تین چار چار وکلا پڑے تھے، جو زخمی تھے، ان کے بھی بدن پر کالے کوٹ جل چکے تھے، نیم برہنہ لاشیں اور خون سے لت پت، ہر طرف وکلا ہی وکلا پڑے تھے۔

میں نے کیا کرنا ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ ابھی تک ہیڈ آفس کو بھی نہیں بتایا کہ ہپستال میں کیا ہوا ہے، کیا ہو رہا ہے۔ وکلا کی لاشوں سے ہوتا ہوا کچھ آگے آیا تو کسی نے آواز دی؛ حفیظ حفیظ . . . قریب آیا تو دیکھا کہ ایڈوکیٹ ولی خان مندوخیل زخموں سے چور ہے۔ میرے آنسوؤں کو دیکھ کر ولی خان نے کہا، نہیں رونا پلیز حفیظ، میری ایک بات دھیان سے سننا، اگر مجھے کچھ ہوا تو میری والدہ اور میرے بڑے بھائی کو بتانا کہ میری موت پر نہیں رونا۔ میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی کہ نہیں ایسا نہیں بولتے، آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ اتنے میں مَیں نے مدد مدد کا نعرہ لگاتے ہوئے ولی خان کو کندھا دیا اور اٹھانے کی کوشش کی، دو تین لوگ اور آئے اور ولی خان کو آپریشن تھیٹر تک پہنچاتے ہی ٹیبل کے قریب چھوڑ دیا۔

آپریشن تھیٹر سے نکل کر میری زبان پہ محمود کا نام آ گیا؛ محمود محمود محمود… اب سمجھ آیا کہ دھماکہ ہوا ہے، لوگ شہید ہوئے ہیں، میرے ساتھ محمود ہمدرد بھی تھا…. جو بھی سامنے آتا ہے، اس سے محمود کا پوچھ رہا ہوں۔ کوئی نہیں بتا رہا، کسی کو نہیں معلوم۔ چند لوگوں نے تو جھوٹی تسلی دی کہ ادھر تو دیکھا کدھر گیا، وہ ٹھیک تو تھا۔ اتنے میں ہمارے کوئٹہ بیورو کے چیف سید علی شاہ صاحب نے کال کی، پوچھا، محمود؟۔ میں نے صرف اتنا کہا کہ سر محمود نہیں ہے، بس . . .

شعبہ حادثات گیا، محمود نہیں ہے۔ مردہ خانے گیا، محمود نہیں ہے۔ میڈیا کے دوستوں کے پاس آیا، محمود نہیں ہے۔ ادھر ایک دو ٹی وی پر خبر چلا دی گئی تھی کہ آج نیوز کے کیمرہ مین شہزاد خان اور محمود ہمدرد شہید ہوگئے۔

تلاش میں ایک گھنٹہ بیت گیا، نہیں ملا۔ کسی نے کہا، سی ایم ایچ کوئٹہ شفٹ کر دیا گیا۔ سید علی شاہ صاحب پہلے وہیں پہنچ چکے تھے۔ واپس آئے، کہا سی ایم ایچ میں بھی نہیں تھے۔ نہ چاہتے ہوئے ایک بار پھر مردہ خانے کی طرف جانے لگا۔ اب کی بار تو شہدا کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا تھا.

مردہ خانہ بھرا پڑا تھا۔ ہر نعش سے کفن اٹھانا اور غور سے دیکھنا کہ شاید محمود بھی شہدا میں ہو۔ خواہش تھی کہ نہ ہو۔ دس سے گیارہ جوانوں کو دیکھا، بارھویں شہید کے چہرے سے کفن اٹھایا تو جانا پہچانا چہرہ نظر آیا…. نہیں، یہ ایڈوکیٹ قیصر نہیں ہے۔ خود کو تسلی دی، آگے چل پڑا۔ محمود کو ڈھونڈنے لگا، محمود نہیں ملا۔

مردہ خانے سے نکلتے ہی یاد آیا کہ چاچو قاضی اخترشاہ شیرانی کی کال آئی تھی کہ بھانجا قیصر خان ایڈوکیٹ کی کال اٹینڈ نہیں ہو رہی، کہاں ہے۔ واپس مڑ کر دوبارہ کفن اٹھایا، سر سے پاؤں تک دیکھا، اب کی بار یقین آ گیا کہ قیصر خان بھی شہید ہو چکا ہے۔ کتنی محنت مشقت سے گومل یونیورسٹی سے لا کی ڈگری لی اور بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے تھے مگر وہ خواب وقت سے پہلے بکھر گئے۔ چاچو کو فون کیا کہ بھانجا قیصر خان شدید زخمی ہے، آپ ہسپتال پہنچیں۔

اس کے بعد چاچو لوگ کیسے آئے، کون کون آئے اور بھانجے کی نعش کیسے آبائی گاؤں لےگئے، کون کون گئے…کچھ نہیں پتہ۔ میں دوبارہ محمود کو تلاش کرنے لگا۔ اب تو سید علی شاہ اور ڈان کی باقی ٹیم اور دوست مل کر محمود کو ڈھونڈنے لگے تھے۔ تقریباَ تین گھنٹے گزرنے کے بعد جب کچھ سراغ نہ مل سکا تو آنکھوں میں آنسو ختم ہونے لگے۔ زبان اور حلق ایسا خشک ہوگیا تھا کہ شاید ایک سال کے روزہ دار کی حالت بھی ایسی نہ ہو۔ ہم آہستہ آہستہ مایوس ہونے لگے کہ نہ زخمیوں میں ہے، نہ شہید ہونے والوں میں ہے، پھر کہاں ہے۔ ڈر لگنے لگا کہ کہیں پورا جسم دھماکے میں نہ اڑ چکا ہو۔ پھر دوسرے کیمرہ مین ساتھی کی وہ بات کہ محمود زخمی تھا، میں نے وارڈ شفٹ کیا…. وہ بات اور جمال ترہ کئی کی وہ بات کہ محمود شہید ہو چکا ہے، میں نے ویڈیو بنائی ہے، یاد آتی تو خود سے کہتے نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔

چار گھنٹے گزر گئے۔ میں تھکا ہارا مایوس ہو کر آفس پہنچا۔ یہاں موبائل نے دوبارہ کام شروع کیا تو اپنوں، دوستوں اور خیرخواہوں کے فونز آنے شروع ہو گئے؛ “آپ ٹھیک تو ہیں، ٹی وی پر خبر پٹی چل رہی ہے کہ حفیظ اللہ بھی شہید ہوا ہے۔”

بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو ہمارے ژوب کے انہتائی قابل نوجوان وکیل حفیظ اللہ مندوخیل شہید ہوئے ہیں۔

میں دفتر میں مختلف چینلز مانیٹر کر رہا تھا کہ سید علی شاہ صاحب کی کال آئی۔ کہا، محمود سی ایم ایچ میں ہے، شدید زخمی ہے، جلدی پہنچو چار ڈرپ خون کی ضرورت ہے۔” کینٹ کے گیٹ پر انٹری کروائے بغیر اندر چلا گیا۔ کسی کی نظر مجھ پر نہیں پڑی تھی یا میرے خون آلود سفید کپڑے دیکھ کر شاید زخمی ہونے کا گمان کر کے نہیں روکا ہوگا۔ راستے میں کسی انجان شخص نے موٹر سائیکل پر سی ایم ایچ پہنچا دیا. وارڈ تک پہنچا تو ڈیوٹی پر معمور اہلکاروں نے روک لیا۔ بہت منت سماجت کی، چیخ چیخ کر رو رہا تھا کہ میرا بھائی شدید زخمی ہے، اس کے پاس خون دینے کے لیے جا رہا ہوں۔ پھر بھی نہ اجازت نہیں دی گئی۔

آخر کار تقریباَ آدھے گھنٹے بعد آپرییشن تھیٹر کے دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اب میرے سامنے ایڈوکیٹ رؤف عطا صاحب اسٹریچر پر زخمی حالت میں پڑے تھے۔ میں نے ان کو تسلی دی کہ آپ کو کچھ نہیں ہو گا ان شااللہ۔ اتنے میں ایک آپریشن تھیٹر کے انچارج نکلے اور کہا سب لوگ یہاں سے نکل جاؤ. مجھے بھی نکال دیا گیا۔ باہر آیا تو سید علی شاہ صاحب اور محمود کے دو دوست کہنے لگے کہ محممود کے لیے چار ڈرپ خون کا انتظام کر لیا گیا ہے۔ اب ہمیں بتایا گیا ہے کہ محمود اور باقی شدید زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کراچی روانہ کیا جائے گا۔ شاہ صاحب نے کہا میں بھی جا رہا ہوں محمود کے ساتھ۔ وقت سہ پہر پونے تین کا تھا شاید۔ ہیڈ آفس سے فون آیا کہ حفیظ کیمرے کے سامنے آنا۔ میں نے کہا، مجھ سے بات نہیں ہو پائےگی۔ ڈیسک والوں نے کہا، حفیظ آپ سے رپورٹنگ نہیں کروا رہے، بس جو دیکھا وہ آنکھوں دیکھا حال بیان کریں۔ خیر ہے، جس طرح بھی ہو، آپ کمیرے کے سامنے آؤ۔

سی ایم ایچ میں کیمرہ اور ڈی ایس این جی کی اجازت نہیں تھی۔ تین بجے لائیو آنا ضروری تھا۔ میں نے خود ڈی ایس این چلائی اور کینٹ سے باہر نکال کرگرلز کالج کے ساتھ والی سڑک پر لائیو کے لیے کھڑے ہوگئے۔ کیمرے کے سامنے آ گیا۔ نیوز کاسٹر نے ہیڈ لائن پڑھ لی: مزید تفصیلات کے لیے ہمارے نمائندے حفیظ للہ شیرانی سے جانتے ہیں۔ اسی وقت ہمارے انجینئرعمران رانا نے قریب آ کر کہا کہ حفیظ! محمود شہید ہوگئے۔۔۔۔ وہ بھی رو رہے تھے، ساتھ میں کہا کہ شاہ صاحب کہہ رہے ہیں ابھی ٹی وی پر آن ائر نہیں کرنا۔

میں کیمرے کے سامنے ہوں، اینکر انتظار کر رہی ہیں کہ حفیظ تفصیلات بتائیں گے۔ میں چند سیکنڈ تک خاموشی سے روتا رہا اور پھر خودکش دھماکے کی تفصیل بتا دی۔ نیوز کاسٹر کا آخری سوال تھا؛ حفیظ آپ کے دوست ساتھی اور ڈان کے کیمرہ مین محمود بھی شدید زخمی ہیں، ان کی حالت کیسی ہے؟ یہ جملہ میرے لیے قیامت صغریٰ کے برابر تھا اور ہے۔ آج تک میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔

میں نے خود پر بہت قابو کیا اور کہا کہ ڈاکٹرز اتنا کہہ رہے ہیں کہ محمود کے لیے دعا کریں، بس ۔۔۔۔

بشکریہ حال احوال


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).