نواز شریف کی مخالفت کیسے کی جائے؟


کار سیاست تو مسلسل سیکھتے رہنے کا عمل ہے۔

سیاست میں یہ دلیل کچھ وزن نہیں رکھتی کہ قائد اعظم برسوں کانگریس کے رکن رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو آٹھ برس تک ایوب خان کی آمرانہ حکومت میں شامل ہی نہیں تھے بلکہ ایوب خان کا نفس ناطقہ تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا ضیا آمریت کے ساتھ خاموش سمجھوتے کے مطابق بیرون ملک جانا اور 1985 کے انتخابات تک ملک سے باہر رہنا تاریخ کا حصہ ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست اس این آر او سے متعین نہیں ہو گی جو 2007 میں ملک واپس آنے سے پہلے کیا گیا تھا۔ بے نظیر کا مقام اکتوبر 2007 سے دسمبر 2007 تک 70 روز کی مختصر مدت سے طے پائے گا۔ این آر او کے بارے میں تو مورخ صرف یہ پوچھے گا کہ اس معاہدے میں حکومت کی طرف سے گفت و شنید کس نے کی تھی؟

میاں نواز شریف 1986 میں وزیر اعلیٰ تھے جب محترمہ بے نظیر بھٹو دس اپریل کو وطن واپس آئیں۔ 11 اپریل 1986ء کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں کہ محترمہ بے نظیر نے گھنٹوں پر محیط جلوس سے اپنے مسلسل خطاب میں کتنی بار وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کا ذکر کیا؟ کیا اس روز نواز شریف نے کوئی بیان دیا تھا؟ سامنے کی وجہ یہ تھی کہ دس اپریل 1986 بے نظیر بھٹو کا دن تھا۔ اس روز بے نظیر کے بارے میں کوئی رائے دینا ان کے کسی ممکنہ حریف کے لئے قرین مصلحت نہیں تھا۔

27 دسمبر 2007 کی رات مسلم لیگ کے کچھ رہنما اس حق میں نہیں تھے کہ میاں نواز شریف راولپنڈی ہسپتال میں جائیں جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کا جسد خاکی موجود تھا۔ میاں نواز شریف نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا۔ ٹھیک کیا۔ کبھی جنازے کو کندھا دینا پڑتا ہے، کبھی سڑک پر نکلنا پڑتا ہے۔ وقت کا تقاضا پورا نہ کیا جائے تو منزلیں ویران ہو جاتی ہیں۔

گزشتہ دس روز سے پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری خاموش ہیں۔ آصف علی زرداری سے بہتر کوئی کیا سمجھے گا کہ اگست 2017 کے پہلے ہفتے میں جمہوری سیاست کا دریا نواز شریف کے نام پر بہہ رہا ہے۔ دسمبر 2012 میں نواز شریف نے سیاہ کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں میمو گیٹ کی آئینی درخواست دائر کی تھی۔ اس پر ٹھیک پانچ برس گزر چکے۔ تاریخ کا لہجہ تو ہر بارہ کوس کے بعد تبدیل ہوتا ہے۔ پانچ برسوں کے درمیان تو پانچ دریاؤں کی مسافت حائل ہوتی ہے۔ اس وقت اگر کسی وجہ سہ سے میاں نواز شریف کی حمایت نہیں کی جا سکتی تو دوسرا بہترین آپشن خاموشی اختیار کرنا ہے۔ تاریخ کا رخ سمجھے بغیر ادا کئے گئے لفظ کی بازگشت شاید ہمارے اپنے کانوں تک بھی نہ پہنچ سکے۔

سیاست لمحہ موجود کے تضاد کو پہچاننے اور اس میں اپنا انتخاب کرنے کی مسلسل مشق ہے۔ تاریخ کے ہر صفحے پر دو راستے نکلتے ہیں۔ سیاسی شعور کی پہچان اسی فیصلے سے ہوتی ہے کب کونسا راستہ اختیار کیا اور اس سے کیا نتائج برآمد ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).