لیگی کارکن باسط فاروقی میاں صاحب کی ریلی سے واپس جا رہے ہیں


آج کل بہت سے سوشل میڈیا گروپس کا رواج بہت عام ہے۔ کسی کے پاس بھی آپ کا فون نمبر ہو تو آپ کو کسی گروپ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان گروپس میں عموما ہم خیال لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ کسی میں جمہوریت کے متوالے شامل ہوتے ہیں، کہیں افواج پاکستان کے حوالے سے جذباتی دلائل دیے جاتے ہیں، کہیں عدلیہ کے وقار پر بات ہوتی ہے، کہیں صحافی ایک دوجے کو جھوٹے سچی خبریں دیتے ہیں، کہیں سیاسی طنز و مزاح کا دور چلتا ہے، کہیں چینلوں کی صداقت پر بات ہوتی ہے، کہیں خفیہ خبریں سینہ بہ سینہ چلتی ہیں۔ ان گروپس میں اپنے اپنے مقاصد کے حق میں دلائل اس شدت سے دیے جاتے ہیں کہ عقل خیرہ رہ جاتی ہے۔

عموما جب مجھے کوئی کسی گروپ شامل کرتا ہے تو میں کچھ عرصہ تو گروپس کے لوگوں کی باتیں خاموشی سے سنتی ہوں، باتیں اگر پسند آئیں تو گروپ میں شامل رہتی ہوں ورنہ گروپ سے ایگزٹ کا نسخہ بھی بہت سہل ہے۔ یہ گروپس فیس بک پر بھی ہیں، وٹس ایپ بھی ان مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے، ٹوئیٹر کے بھی گروپس بنے ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ سب سوشل میڈیا پر ہو رہا ہوتا ہے اس لیے آپ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کسی کی اصل شناخت کون سی ہے۔ کس پروفائل پر کس کی تصویر لگی ہوئی ہے، کون کس کے لہجے میں بول رہا ہے، کس کو ڈس انفرمیشن کا حکم ہے اور کون سچی خبر دے رہا ہے۔ ہر گروپ اپنے میں زیادہ سے زیادہ سے لوگوں کے انضمام کو کامیابی سمجھتا ہے۔ کوئی صحافی گروپ میں میسر آجائے تو سب سوال اس سے کیے جاتے ہیں، اس سے ہی تمام جواب طلب کیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک گروپ میں میری باسط فاروقی سے ملاقات ہوئی۔

باسط کا تعلق لاہور سے ہے۔ پورا نام باسط فاروقی ہے۔ والد کاروبار کرتے ہیں۔ مڈل کلاس کے باعزت گھرانے سے تعلق ہے۔ سیاست میں شغف خاندانی ہے۔ چار بھائیوں میں سے بڑے بھائی ہمیشہ سے ن لیگ کے کارکن رہے ہیں۔ بڑے بھائی پیشے کے اعتبارسے پروفیسر ہیں، پروفیسر محمد اسد تدریس کو پیشہ نہیں شوق سمجھتے ہیں۔ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ بے نظیر دور میں نواز شریف کے حق میں ہونے کی وجہ سے مقدمات کا سامنا بھی کیا۔ مشرف دور میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہیں۔ مگر میاں نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ پروفیسر صاحب نے سرکاری نوکری کا لحاظ کیا اور قلم کو راستہ بنایا۔ اب مختلف اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔ مطمع نظر اب بھی جمہوریت اور نواز شریف کی قیادت ہوتا ہے۔ چار بھائیوں میں سے باسط فاروقی کا نمبر تیسرا ہے۔ ان کی تربیت میں بڑے بھائی کی ن لیگ سے والہانہ محبت بھی شامل ہے اور والد کی نیکیاں بھی۔

ذکر ہو رہا تھا سوشل میڈیا گروپ کا۔ ایک گروپ میں باسط فاروقی سے ملاقات ہوئی۔ نواز شریف سے باسط کا عشق دیدنی تھا۔ درست یا غلط کی پرواہ کبھی باسط نے نہیں کی۔ ان کو بس مسلم لیگ ن کی ہر چیز پر بے پناہ پیار آتا ہے۔ وہ ایک مخلص کارکن کے طرح ہر لمحے نواز شریف کی صحت کی دعائیں کرتا ہے۔ جمہوریت کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتی ملکی صورت حال پر باسط کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ ن لیگ کی حکومت کے خلاف کوئی سازش اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ جذباتی ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ مارشل لاء کے امکانی خطرے سے باسط کا خون کھول جاتا ہے۔ چینلوں کے جانبداری پر باسط کی گہری نظر رہتی ہے۔ کس چینل نے کس وقت کیوں فلاں خبر چلائی، باسط کی نظر سب پر ہوتی ہے۔ اینکرز کی چیرہ دستیوں پر بھی بہت پریشان رہتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود کبھی شائستگی کے معیار سے نہیں گرے۔ کبھی گالم گلوچ نہیں کی، کبھی خواتین سے بدتہذیبی نہیں کی۔ باسط اپنے آپ کو نواز شریف کا ادنی کارکن کہنے میں بڑی بڑائی سمجھتے ہیں۔ نواز شریف سے عشق کرتے ہیں۔

Twitter: @BasitFarooqi786

کچھ عرصہ سے باسط کے والد کی طبیعت خراب بھی۔ معاملہ دل کا تھا۔ فیصل آباد کے ہسپتال میں داخلہ کروا دیا گا۔ دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں۔ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ باسط اپنے والد کی خدمت میں لگ گئے۔ لیکن گروپ میں سیاست کے تذکرے سے باز نہیں آئے۔ باتوں باتوں میں ٹوہ لیتے رہے۔ کیا ہو رہا ہے، کیا ہونے والے ہے، کیا امکان ہے؟ باسط کے ہرسوال میں نواز شریف سے محبت چھلکتی تھی۔ مسلم لیگ ن سے عقیدت دکھتی تھی۔ ادھر گھر میں والد صاحب کی طبیعت کی پریشانی تھی اور ادھر میاں صاحب کو نا اہل کرنے کی عدالتی کارروائی چل رہی تھی۔ باسط کے پاس گروپ میں ایک ہی سوال تھا۔ میاں صاحب کو نا اہل تو نہیں کر یں گے نا؟ پھر خود ہی جواب دیتے کہ نا اہل کیسے کر سکتے ہیں کوئی ثبوت ملا ہے۔ سب پروپگینڈا ہے۔ سب سازش ہے۔

اسی دوران میاں نواز شریف کو عدالتی فیصلے کے تحت نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اس دن باسط کی کیفیت دیکھی نہ جاتی تھی۔ سوشل میڈیا گروپس پر اگر آنسو نظر آسکتے تو اس دن سارا گروپ ہی باسط کے آنسوں سے تر نظر آنا تھا۔ ان کو یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کس کی سازش ہے؟ جب ثبوت نہیں ملا تو سزا کیسی؟ کیا ساری عمر کے لئے نا اہل کر دیا ہے؟ کوئی واپسی کا رستہ بچا ہے؟ باسط نے سوال کر کر کے گروپ والوں کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ جواب کون دیتا سب ہی ششدر تھے۔ لیکن باسط بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپتے رہے۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ کسی طرح میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی وفاداری کا یقین دلائے۔ اسی دوران میان صاحب نے جی ٹی رود سے لاہور واپسی کا اعلان کر دیا۔ باسط کی تو خدا نے سن لی۔

باسط کو میاں صاحب کے ہر تقریر میں اداس نظر آئے اور ان کی خواہش تھی کی کسی طرح جلد از جلد میاں صاحب کے قافلے میں پہنچ کر انہیں یقین دلائیں کہ آپ پریشان نہ ہوں اپ کے مخلص کارکن آپ کے ساتھ ہیں۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ ادھر جی ٹی روڈ کے قافلے کی تیاری ہورہی تھی ادھر والد صاحب کی طبیعت نہیں سنبھل رہی تھی۔ باپ اپنی اولاد کو سب سے بہتر جانتا ہے۔ باسط کے والد نے باسط کو اپنے پاس بلایا اور خود جی ٹی روڈپر میاں صاحب کے قافلے میں شمولیت کی اجازت دے دی۔ باسط جلدی سے اسلام آباد کو بھاگے۔ خواہش یہی تھی کہ کسی طرح میاں نوازشریف کو دیکھ لیں، کسی طرح میان صاحب کی گاڑی کو چھو لیں، کسی طرح میاں صاحب ان کی جانب ہاتھ ہلا دیں۔ قسمت کی بات ہے کہ باسط سیکیورٹی کے حصار سے بچتے بچاتے میاں صاحب کی گاڑی کے پاس پہنچ گئے۔ گاڑی ابھی پنجاب ہاؤس سے چلی ہی تھی۔ میاں صاحب باسط کی نظروں کے سامنے تھے۔ نیلے شلوار قمیض اور سیاہ واسکٹ میں ملبوس، مسکراتے ہوئے، گاڑی پر پھولوں کی بارش ہو رہی تھی۔ باسط گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگا۔ جیب سے جلدی سے موبائل نکالا اور وڈیو بنانا شروع کر دی۔

اسی لمحے سیکیورٹی کی گاڑی حفاظت کی خاطر آگے بڑھی۔ باسط نے اپنے جنون میں گاڑی کو نہیں دیکھا۔ گاڑی پاوں پر چڑھ گئی۔ ٹائر کے ساتھ پاؤں کے ناخن لپٹ گئے۔ اس لمحے میں پاؤں کے انگوٹھے کے ناخن اتر گئے۔ ٹانگ لہو لہو ہو گئی۔ لیکن باسط کو اپنے زخم کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اس نے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی وڈیو بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی حالت میں باسط پندہ منٹ گاڑی کے ساتھ بھاگتے رہے۔ پاؤں فگار ہو رہے تھے مگر نگاہ میاں صاحب سے نہیں ہٹی۔ پندرہ منٹ کے بعد جب گاڑی آگے نکلی تو باسط نے راستے میں رکاوٹ بننے والے والے ناخنوں کو اپنے ہاتھ سے اکھیڑ دیا۔ اس کے بعد جب پھر گاڑی کی جانب بھاگنے کی کوشش کی تو خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے چکرا کر گر پڑے۔

سرکاری رضا کاروں نے باسط کو سنبھالا، ایمبولینس میں سوار کر کے ہسپتال روانہ کر دیا۔ اسلام آباد کے پمز پیں ڈاکٹروں نے زخم دیکھ کر تشویش کا ظہار کیا۔ پاوں پر پلستر کیا اور ایک ماہ آرام کا مشورہ دیالیکن وہ بضد ہے کہ اس زخم کے باوجود لاہور کے جلسے میں شرکت کرے گا۔ باسط اس وقت موٹر وے سے واپس لاہور جا رہے ہیں۔ پاوں میں زخم، جسم پر لہو اور ہاتھ میں وہ موبائل ہے جس میں میاں صاحب کی وڈیو ہے۔ اس وقت باسط کو نہ زخم کا درد ہورہا ہے نہ لباس پھٹنے کا کوئی احساس ہے اس لئے کہ ان کے ہاتھ میں اس وقت ان کی زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہے۔

باسط نے جو کیا وہ صحیح ہے یا غلط، لیکن اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ جب تک تک باسط جیسے سچے اور مخص کارکن میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں انہیں اس ملک کی سیاست کے کوئی باہر نہیں رکھ سکتا۔ اس کہانی کی صداقت پر اگر آپ کو کوئی شبہ ہو تو ٹوئیٹر پر باسط فاروقی کے ہینڈل پر ان سے خود بات کر سکتے ہیں

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).