مردانگی کے تحفظ اور غیرت کے بچاؤ کے لئے چند تجاویز


بنی نوع انسان کو ہمیشہ یہ مسئلہ درپیش رہا کہ آخر یہ بیٹیاں پیدا کیوں ہوتی ہیں۔ ماضی میں انسان  شعوری ارتقا کی اس منزل پر نہیں پہنچا ہو گا کہ اس مسئلے کا کوئی حل دریافت کر سکے۔ مگر اب تو زمانہ بہت آگے نکل گیا۔ ماضی میں درپیش کیسے کیسے مسائل انسان آج حل کر چکا ہے۔ ہم نے کئی مرتبہ سوچا کہ آخر اس اہم مسئلے سے انسان صرفِ نظر کیسے کر گیا۔ آخر یہ رمز سمجھ میں آ ہی گئی۔ یہ، علم، ترقی، ایجادات وغیرہ، یہ سب تو کفار کے کرنے کے کام تھے( ہم صاحب ایمان لوگوں کی توجہ کا مرکز تو آخرت کی زندگی ٹھہری) اور یہ کفار غیرت، عزت نامی کسی چیز سے کیا واقف؟  سائنس انسان کو بگاڑ ہی سکتی ہے۔ انسانی اخلاقیات کو ایسے بلند تصورات سے آشنا کرنا، سائنس کے حیطہءعمل میں کہاں۔

اس صورتحال میں تو یہ اہم ذمہ داری تو ہم مسلمانوں کے کاندھے پر ہی آن پڑی ہے۔ اور پھر ہم ٹھہرے انسانیت کے وارث۔ تو تمام انسانیت کو اس مسئلے کا حل مہیا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ سو دن رات اسی فکر میں ہلکان رہنے لگے کہ اس خوابیدہ قوم کو اس اہم مسئلے کی جانب کیسے متوجہ کیا جائے کہ کسی طرح اس بیٹیوں کی پیدائش کے مسئلے سے پیچھا چھڑوا لیا جائے تو ہماری عزت بھی محفوظ ہو جائے گی اور ہماری غیرت پر حرف آنے کا امکان بھی معدوم ہو جائے گا۔

پہلے تو یہ خیال ذہن میں آیا کہ کیوں نہ اجتماعی طور پر دعا کی جائے کہ خدا دنیا میں بیٹیاں بھیجنا بند کر دے۔ آخر ہم خدا کی چہیتی امت ہیں، اور ایسے ایسے مومن صفت اور دیندار لوگ خدا کے حضور گڑگڑائیں گے، تو آخر اس کی صفتِ رحمانیت غالب آئے گی ہی اور وہ ہم مسلمانوں کو اس ذلت سے بچانے کا کوئی سبب تو بنا ہی دے گا۔ مگر جب کچھ مزید غوروفکر کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ تبدیلی مسئلے کا حل تو ہے مگر اس سے کئی ضمنی مسائل جنم لینے کااندیشہ ہے۔ اگر بیٹیوں کی پیدائش خدا نے روک دی تو ہم جنم کس کی کوکھ سے لیں گے، اور اگر اس مسئلے کے حل کے لیے خدا سے کےکوئی خصوصی مناجات کر بھی لیں، تو ماں کی ممتا کہاں سے ملے گی، ہماری پرورش کون کرے گا، اور پھر بعد از بلوغت جسمانی تقاضے۔

چلیں اپنی جنسی جبلت کی تسکین کا تو کوئی حل ڈھونڈ ہی لیں، مگر یہ جذباتی تسکین کے لیے شریکِ زندگی کی طلب۔ جب ہمارے جدِ امجد تنہائی برداشت نہ کر سکے، اور خدا سے ایک ہمسفر کے آرزومند ہوئے تو ہم آج کے انسان کس قابل ہیں۔ ان صورتحال سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکا کہ اگر ہم اس طرح کی کوئی التجا بارگاہِ الٰہی میں پیش کرنے کی جسارت کر بھی لیں تو اس پر عمل درآمد تب ہی ممکن ہے جب تخلیقِ انسانی کے نظام اور انسانی فطرت میں ترمیم کی جائے۔ ہمیں اپنی دعا کی قبولیت پر لاکھ یقین سہی مگر کارخانہءقدرت میں دخل اندازی کو مناسب نہ سمجھتے ہوئے اس اقدام سے باز رہنے میں ہی عافیت جانی۔

خیر مایوسی گناہ ہے۔ تو اس اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس مسئلے کوانسانی سطح پر ہی حل کیا جائے، اور اس مہم کا آغاز آج یہیں سے کرتے ہوئے ہم ابتدائی طور پرحکومت اور قانون ساز اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومتی کوششوں اور قانون سازی کے ذریعے درج ذیل اقدامت یقینی بنائے جائیں:

حکومت اپنے سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے مغربی ممالک کی حکومتوں پر دباءو ڈاے کہ وہ اپنے سائنسدانوں سے ایسی دوائیاں تیار کروائیں جن کے استعمال سے صرف اتنی ہی لڑکیاں دنیا میں لائی جائیں جتنی فی الواقعہ ضروری ہوں۔ سنا ہے ان کمبختوں کی آبادی مردوں سے بڑھتی جاتی ہے۔

یہ قانون منظور کیا جائے کہ لڑکیوں کے ہوش سنبھالتے ہیں ان کے گلے میں ایسا آلہ نصب کر دیا جائے کہ گھر سے قدم باہر نکالتے ہی ان کا سر دھڑ سے جدا ہو جائے، اور وہ گھر کی چاردیواری میں رہنے ہی میں عافیت جانیں۔ ایسی فاحشاءوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔

لڑکیوں کی پرورش کے لیے ہر گھر میں ایک پنجرہ بنانا لازم قرار دیا جائے اور لڑکیوں کو اسی میں راشن پانی مہیا کیا جائے۔

لڑکیوں کو صرف اس قدر خوراک ہی دی جائے جو سانسوں کی آمدورفت قائم رکھنے کے لیے کافی ہو۔ بہتر خوراک جسمانی ساخت کو بہتر بنا کر نامحرم مردوں کے لیے کشش کا سامان پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم پر فوری پابندی عائد کی جائے۔ یہی تعلیم نامی بیماری سوچنے پر اکساتی ہے۔ اور سوچیں ہی ذہن کو غلط طرف لے کر جاتی ہیں۔

ذرائع ابلاغ کو لڑکیوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے۔ خصوصاً ہر موبائل کمپنی کے لیے اپنے اشتہار کے بعد دواءوں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں کی طرز پر موبائل کو لڑکیوں کی پہنچ سے دورکھیں کا انتباہ چلانا لازم قرار دیا جائے۔

لڑکیوں کے بننے سنورے اور پرکشش بننے میں مددگار تمام مصنوعات پر پابندی لگائی جائے۔

ان سب اقدامات کے باوجود بھی اگر کوئی لڑکی والد اوربھائی کی عزت وناموس داءو پر لگانے سے باز نہ آئے تو اس کے قتل کرنے والے باپ/بھائی کو اعزازی تمغے اور زرعی زمین سے نوازا جائے، اور اسی نابکار لڑکیوں کے دفن کے لیے الگ قبرستان مخصوص کیے جائیں، جو کہ آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت ہوں۔

یہ چند ابتدائی اقدامات ہیں۔ اس موضوع پر عوامی مباحثے کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ امید ہے کہ اس بارے میں مزید آگاہی پیدا ہونے سے دیگر باشعور انسان بھی اس مہم میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ ہم مردوں کی عزت اور غیرت برقرار رہنے کی صرف یہی ایک صورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).