ٹوپیوں والی سرکار


قبلہ مرشدِ انقلاب کی شان پہ قربان جائوں۔
انہی کے بارے میں شاید احمد فراز کہہ گئے تھے

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

ہمارے قبلہ جب کبھی ولایت سے لوٹیں اور ہم بے چاروں سے ہم کلام ہوں تو ان کے الفاظ‘ سننے والوں کے کانوں میں رس گھولیں۔ پہروں سن لیں، مجال ہے قبلہ ‘وما علینا‘ تک پہنچیں۔ اور پھر پھول کیا قبلہ کے کلام سے تو بشارتیں اور خواب جھڑتے ہیں۔ ان کے نورانی چہرے پر کبھی تھکاوٹ کے آثار نمودار نہیں ہوتے۔ مائیک دیکھتے ہی قبلہ کے تن بدن میں جیسے برقی رو دوڑ جائے۔ انگ انگ میں جیسے شرارے بھڑک اٹھتے ہیں۔ طبیعت ایسی جلالی کہ دوران خطاب لعابِ دہن کی بوندیں سامعین کو‘ مریدین کو معطر کرتی رہیں‘ اللہ اللہ!

کرامات کا کیا ذکر کیجیے کہ اک عمر چاہیے۔ دفتروں کے دفتر بھر جائیں مگر نہ مکمل ہو سکیں۔ چہرہ مبارک ایسا کہ جس کسی نے درشن کیا‘ تا حیات ”رخ روشن‘‘ کا اسیر رہا۔

میرے قبلہ و کعبہ مرشد پاک ٹوپیوں والی سرکار، بچپن سے ہی ‘گْرو’ واقع ہوئے ہیں۔ روایات کے مطابق قبلہ مہان ہی پیدا ہوئے تھے۔ نور یوں ٹپکتا تھا کہ جس طرف نگاہ اٹھے‘ اہل ایمان تاب نہ لا پائیں۔ مشرکین اور کفار کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مرشد پاک سے فیض یاب ہوئی۔ آپ جس راہ سے گزرے اسے شاہراہ بنا دیا یعنی

رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے ”انقلاب‘‘ بنا دیا

کسی بھی شہر کے باسی ہوں‘ جناب کی تپش سے دھمال ڈالتے دیکھے گئے۔ سرکار بنیادی طور پر مادی دنیا میں کم کم ہی پائے جاتے ہیں، عموما آپ کو عالم ارواح میں ‘کنچے’ کھیلتے دیکھا گیا‘ جہاں کئی جن بھوت جناب کے مرید ہوئے۔ قبلہ کی دنیاوی اور روحانی تعلیم بارے خود قبلہ کے بیانات دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مختلف جید ہستیوں نے پندرہ بیس سال تک عالم رویا میں آپ کی تربیت کی۔ بیچ میں کبھی کبھار تڑپتے مریدین کے جگر ٹھنڈے کرنے کے کارن‘ قبلہ اس جہان کا رخ بھی کرتے رہے۔ مگر اس آلودہ زمین پر قیام اکثر ہمیشہ مختصر رہا۔

مدتیں بیت گئیں قبلہ کی بشارتیں سنتے۔ مجال ہے کوئی اک خواب بھی جھوٹا ثابت ہوا ہو۔ حاسدین نے ایڑ ی چوٹی کا زور لگا لیا کہ مرشدی کو غلط ثابت کر سکیں لیکن یہ سائنس بھی آپ کی وسعتِ تخیل کی بلندیوں کو چھو نہ پائی۔

ناچیز کی بدقسمتی دیکھیے، ایک مدت ہوئی قبلہ کے عاشق ہوئے اور دیدار فقط تین بار نصیب ہوا۔ ہر بار دیدار کی تڑپ پہلے کی نسبت دوگنا ہوئی مگر جناب تک ہر کس و ناکس کو رسائی نہیں۔ صرف وہی بار پاتے ہیں جو مقبول بارگاہ ہوں۔ قبلہ محترم کا کرم ہے کہ ناچیز کو بھی بہت قریب سے رخ انور کا دیدار عطا کیا۔ دو ہزار بارہ میں لانگ مارچ کے ہنگام‘ جی ٹی روڈ پر پریس کانفرنس کے دوران تقریباً چند فٹ کے فاصلے سے مسکراتا ہوا نورانی چہرہ دیکھا۔ بہت ہی زیادہ قریب ہونے کے باعث ڈب کھڑبی جلد پر ‘پفنگ پائوڈر‘ کے نشانات دکھائی دیے۔ مارے عقیدت کے ہم نے اسے واہمہ جان کر جھٹک دیا۔ لباس ایسا کہ جس کی کوئی مثال نہیں اور ٹوپیاں ایسی کہ ایک سے بڑھ کر ایک؛ مخروطی، گول، سندھی، چپکی، انگریزی، دیسی، عسکری، مستطیل، چوکور، مکعب نما، اور نہ جانے جانے کس کس ذات اور قبیلے کی زنبیل میں پائی جاتی ہیں۔ خود پہنتے ہیں اور دوسروں کو بھی ٹوپی پہنانے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔

بھلے وقتوں کی بات ہے کہ ایک بار قبلہ دیارِ غیر سے وطن لوٹے۔ استقبالی ہجوم میں درجن بھر صحافی بھی تھے‘ بن بلائے مہمان تھے۔ اخبار نویس مہمان ہی ہوتے ہیں‘ بلائے جائیں یا نہ بلائے جائیں… بلائے جان! مرشد میڈیا کوریج کے بھوکے نہیں۔ کیمروں سے دور رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔ ہمیشہ آپ کو خود نمائی اور تعریف پر لعنت بھیجتے دیکھا۔ صحافیوں سے حسنِ سلوک سے پیش آئے، اور انہیں ولایتی عطریات و خوشبویات تحفتاً عنایت کیں اور فرمایا، قطعاً علم نہ تھا کہ یہاں درجن بھر صحافی حضرات بھی ہوں گے، اور ہرگز اندازہ نہ تھا کہ تھیلے میں بھی صرف اتنے ہی پرفیوم ہوں گے۔ یہ قبلہ کی کرامت تھی کہ بارہ صحافیوں کے لئے خوشبوئوں کی بارہ ہی شیشیاں مہیا تھیں۔ ایک بھی کم نہیں‘ ایک بھی زیادہ نہیں!

نڈر ایسے کہ ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑے دکھائی دئیے۔ شان و شوکت، دکھاوے اور بڑی بڑی گاڑیوں پر لعنت بھیجی۔ ہمیشہ عوامی سواری کو شوق سے پسند کیا۔ کبھی کسی کنٹینر کا سہارا نہ لیا۔ عوام کے ساتھ بیچ چوراہے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے نمونیا کا شکار ہوئے۔ جب سردی ناقابل برداشت ہوئی تو آپ کا اعجاز یہ تھا کہ یک بیک اسی یخ بستگی میں حرارت کا سامان مہیا ہو گیا۔

ہمیشہ لوگوں سے اپنی دوستیاں اور رفاقتیں نبھائیں؛ چند دہائیاں پہلے فرمایا کہ شریف فیملی اور بڑے میاں صاحب کی محبت کا تادم مرگ احساس رہے گا۔ میاں صاحب سے وہی محبت پائی جو بیٹے کو باپ سے ملتی ہے، فرمایا کہ نواز شریف کے کندھوں پر سوار ہو کر غار حرا تک پہنچا، اور اس بے پایاں خدمت کا سدا قرض دار رہوں گا۔ شاید اسی تعلق اور نسبت کی تجدید کی جا رہی ہے۔

اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہنا قبلہ کو باقی تماشہ گروں سے ممتاز کرتا ہے۔ اپنے انقلابی مقاصد سے آپ کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔ روزِ اول سے ہی انقلابی ہیں‘ یعنی قبلہ کی زندگی میں ہمیں جا بجا انقلاب بکھرے پڑے نظر آتے ہیں۔ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف قبلہ کی جدوجہد کا ایک زمانہ معترف رہا ہے۔ یہ آپ ہی کی انقلابی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ جنرل موصوف وردی اتارنے پر مجبور ہوئے۔ ملک، قوم اور افواج پاکستان پر جب بھی کڑا وقت آیا، قبلہ نے تمام تر مصروفیات ترک کیں اور متاثرین زلزلہ اور سیلاب کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیے۔

اب جبکہ وطن عزیز ایک بار پھر تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، تو قوم کا درد بٹانے‘ ایک بار پھر یعنی چودہ سوٹ کیسوں کے ساتھ ٹہلتے ہوئے آئے ہیں۔ اب کی بار بھی شاید ایک جراب تک وہاں نہیں چھوڑی، اور ہزاروں کتب ساتھ لے کر وطن واپس پہنچے ہیں۔ تو دشمنوں کو اب خبر ہونی چاہیے کہ اب وہ واپس جانے کے نہیں بلکہ انقلاب تک یہیں قیام ہو گا۔ مرنا جینا اب یہیں ہو گا۔ تخت گرائے جائیں گے، تاج اچھالے جائیں گے۔

انقلاب برپا ہو گا، لوٹی دولت واپس لائی جائے گی، پائی پائی کا حساب لیا جائے گا۔ ہر سو پھر امن ہو گا، چین ہو گا، دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی جو القادسیہ سے لاہور ائیر پورٹ، کالا شاہ کاکو سے چھانگا مانگا، چوبرجی سے ٹھوکر نیاز بیگ، شاہدرہ سے رائیونڈ، اور مغلپورہ سے اندرون بھاٹی تک بہا کریں گی۔ انقلاب کو یقینی بنانے کے لیے چوہدری برادران، شیخ جی پنڈی وال اور شاہ محمود قریشی آپ کے دست راست ہوں گے۔

اب آپ ہی کہئے کہ اس انقلابی ریلے کو کس ماں کا لعل روکے گا؟

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami