محترمہ عائشہ گلالئی، چار سال بعد ہی کیوں؟



اچھے اور مناسب سوالات پوچھنا اچھے اور مناسب جوابات ڈھونڈنے سے کئی زیادہ اہم ہے۔ کسی بھی معاملے کو غیر جانبداری سےحل کرنے کے لئے لازم ہے کہ ایسے سوالات پوچھے جائیں جس سے معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تقریباً ہر معاملے میں چاہے وہ سماجی ہو یا سیاسی، تعصب اور جانبداری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور ایسے سوالات کھڑے کئے جاتے ہیں جن کے جوابات پہلے سے ہی سوال کرنے والے کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں اور کبھی کبھار تو اپنی مرضی کے جوابات سننے کے لئے ہی سوال کئے جاتے ہیں۔ عائشہ گلالئی والے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے جس کی وجہ سے اصل معاملے (ہراسمنٹ) کو پسِ پشت ڈال کر نئے تنازعات کھڑے کردیئے گئے ہیں۔

معاملہ چونکہ ہراسمنٹ کا ہے اس لئے قارئین کی خدمت میں ایک نکتہ پیش کرنا لازمی سمجھتا ہوں۔

ہراسمنٹ چاہے جسمانی ہو یا غیر جسمانی اس کا براہ راست تعلق “طاقت” سے ہوتا ہے اسی لئے میری نظر میں یہ ایک جنسی مسئلے سے زیادہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اگر یہ صرف جنسی مسئلہ ہوتا تو اس عمل میں فقط غیر شادی شدہ یا پھر وہی افراد ملوث پائے جاتے جن کی جنسی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں (اس بات سے ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جائے کہ جن لوگوں کی جنسی ضروریات پوری نہیں ہورہیں ہیں ان کا اس عمل میں ملوث ہونا درست ہے)۔ اس کے برعکس دیکھا گیا ہے کہ ہراسمنٹ کے کیسز میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں قسم کے افراد ملوث پائے گئے ہیں۔

اس معاملے میں سب سے پہلے جو سوال اٹھانا چاہیئے تھا وہ یہ ہے کہ “کیا پاکستان میں خواتین ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں؟”۔ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ ہاں۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہر اس جگہ جہاں عورتیں اقتصادی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے کمزور ہو وہاں عورتوں کو ہراساں کئے جانے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ پدرشاہی سماج ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں زیادہ تر کیسز میں ہراسمنٹ کا شکار عورتیں ہی ہوتی ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں مردوں کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی بالا دستی حاصل ہیں۔

ایک اور سوال جو عمران خان کے حامی اٹھا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کارکنان میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے تو پھر عائشہ گلالئی کے ساتھ ہی کیوں ایسا ہوا۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ہراسمنٹ کرنے والوں کے نفسیات کو سمجھنا لازمی ہے۔ ہراسمنٹ کرنے والوں کی مثال ان شکاریوں جیسی ہے جو اپنی بھوک مٹانے کے لئے اپنے اردگرد ممکنہ شکار ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ حملہ صرف انہی پر کرتے ہیں جن کو وہ بآسانی اور کسی مشکل کا سامنا کئے بغیر شکار کرسکیں۔ کمزور شکار کی بے بسی دیکھ کر طاقتور شکاری لطف اندوز ہوتا ہے اور شکار کرنے سے لذت حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی مرد کسی خاتون کو (یا دوسرے مرد کو بھی) ہراساں کرنے سے پہلے ان چیزوں کا بغور جائزہ لیتا ہے اور بڑی چالاکی سے شکار کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں تو کئی خواتین اس کے ارد گرد موجود ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ کام کر رہی ہوتی ہیں لیکن ہوس کی آگ بجھانے کے لئے وہ سب سے کمزور شکار کا انتخاب کرتا ہے جو رتبے میں اس سے کم تر ہو اور جو اقتصادی، سیاسی اور سماجی طور پر غیر محفوظ ہو، تاکہ کل کلاں وہ اس کے لئے کوئی مصیبت کھڑی نہ کر سکے۔

اب آتے ہیں اس سوال کی طرف جس کا استعمال کرکے عمران خان کے حامی عائشہ گلالئی کا مقدمہ کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ عائشہ گلالئی نے جب عمران خان پر سنگین قسم کے الزامات لگائے تو عمران خان کے حامیوں نے سب سے زیادہ جس سوال کا زکر کیا وہ یہی تھا کہ “اگر عمران خان 2013 سے عائشہ گلالئی کو ہراساں کررہے تھے تو عائشہ گلالئی اتنے سال چُپ کیوں رہے اور چار سال بعد ہی کیوں بول پڑی؟”

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک انگریزی فلم کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ فلم کا نام “دی ہینڈ دیٹ راکس دی کریڈل” ہے۔ فلم 1992 میں بنی ہے۔ فلم ایک شادی شدہ جوڑے، مائیکل اور کلیئر کے بارے میں ہے۔ کلئیر حاملہ ہونے کی وجہ سے ایک گائناکالوجسٹ (ماہرِ امراض نسواں)، ڈاکٹر وِکٹر کے پاس چیک اپ کے لئے جاتی ہے تو ڈاکٹر وِکٹر اپنے پیشے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کلیئر کی شرم گاہ سے دست اندازی کرتے ہوئے اسے جنسی اذیت پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ کلیئر خوفزدہ حالت میں گھر جاکر اپنے شوہر مائیکل کو سب کچھ بتا دیتی ہے جو معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کلیئر کو مشورہ دیتا ہے کہ اسے ڈاکٹر وِکٹر کے خلاف مقدمہ دائر کرنا چاہیئے۔ کلیئر کے مقدمہ دائر کرنے کے بعد چار اور ایسے خواتین سامنے آتی ہیں جن کے ساتھ ڈاکٹر وِکٹر نے یہی عمل سرانجام دیا تھا لیکن سماجی دباو اور فیملی کے سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس وقت تک خاموش تھیں۔ فلم میں ڈاکٹر وِکٹر کے ساتھ کیا ہوا یہ آپ کو فلم دیکھ کر پتہ چل جائے گا۔ فی الحال عائشہ گلالئی کے الزامات کی طرف آتے ہیں۔

جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ پدرشاہی سماج ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عورت مرد کے مقابلے میں کافی کمزور ہے اسی لئے ہراسمنٹ جیسے معاملوں میں عورتوں کو ان مسائل کے بارے میں بات کرنے کے لئے بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ دفتروں میں کام کرنے والی خواتین کو اپنے سے سینیئر (عہدے میں) کسی بھی مرد کے خلاف الزام لگانے سے پہلے اپنے انجام کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے اور مرد چونکہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں اسی لئے ان کا نشانہ ہمیشہ ایسی عورتیں ہی ہوتی ہیں جو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے خاموش رہتی ہیں۔

لیکن اگر ان کو یقین ہوجائے کہ ہراسمنٹ کرنے والا انہیں مزید کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا تو ممکن ہے کہ وہ بلا خوف و خطر لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کرسکیں۔ امریکی فنکار بل کاسبی کی مثال سب کے سامنے ہے جس کے خلاف جنسی زیادتی کا الزام لگانے والوں میں ایک ایسی خاتون بھی شامل تھی جس نے چالیس سال بعد اس بات کا اعتراف کیا کہ بل کاسبی نے اسے نشہ آور دوا پلاکر اس سے جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کی تھی۔ تو صرف اس بات کی دلیل پر ان الزامات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ عائشہ گلالئی چار سال تک خاموش رہی اس لئے یہ الزامات سچ نہیں ہوسکتے۔

عائشہ گلالئی کی طرف سے لگائے گئے الزامات سچ ہیں یا جھوٹ اس کا فیصلہ تو عدالت کو کرنا چاہیئے لیکن اس معاملے پر پی ٹی آئی اور ان کے حامیوں کی طرف سے جو طوفانِ بدتمیزی برپا کیا گیا ہے اس سے مجموعی طور پر اور بلاواسطہ عورتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ آج کے بعد مشکل سے ہی ہراسمنٹ کی شکار کوئی عورت اس معاملے پر بات کرنے کی ہمت کرسکے گی خاص کر اس وقت جب ہراسمنٹ میں ملوث فرد کوئی طاقتور عہدہ رکھتا ہو۔

اور اگر عائشہ گلالئی کے الزامات جھوٹے ثابت ہوجاتے ہیں تو عورتوں کا مقدمہ مزید کمزور ہوجائے گا۔ عائشہ گلالئی اور ان کے خیر خواہوں (خاص کر خواتین) سے گزارش ہے کہ سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کاشف عباسی اور مبشر لقمان جیسوں کے شو میں جانے کے بجائے اس معاملے کو عدالت میں لے کر جائے اور اس گمبھیر مسئلے کو اپنے سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لئے استعمال نہ کرے اور پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ سے پرہیز کرے کیونکہ اب یہ معاملہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک پورے طبقے کا معاملہ بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).