بے اختیاری میں لکھا گیا ایک خط


میرے پیارے!

بہت سوچا لکھوں یا نہ لکھوں لیکن آخر لکھنا ہی پڑا۔ سوچ ذہن میں رہ جائے اس کا مناسب اظہار نہ ہو تو الجھن بن جاتی ہے۔ ہم سے لوگ جو پہلے ہی اس قدر الجھنوں میں ہیں کہ واضح باتیں بھی دھند میں لپٹی دکھائی دیتی ہیں مزید الجھنیں کیونکر پال سکتے ہیں اور یوں بھی گو وقت بدلا ہے، بے تکلفی فی البدیہہ نہیں رہی پھر بھی تمہیں سب کہنے کی عادت من میں آج بھی کہیں زندہ ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ تمہاری یاد تکلیف کا باعث ہے۔ ہاں لیکن ایک ایسا سحر ضرور طاری کرتی ہے کہ جو دکھ انگیز ہے لیکن پھر بھی پر لطف ہے۔ میں اس خود اذیتی کا اس قدر عادی ہو چکی ہوں کہ اس میں لطف آنے لگا ہے۔ تصور میں تم سے باتیں کرتے ہوئے پوچھتی ہوں کیوں یاد آتے ہو تو تمہارا مسکراتا ہوا چہرہ ابھرتا ہے آنکھوں میں اداسی ہے تم کہتے ہو تو کیا اب یاد بھی نہ آوں؟ یاد آو میری جان ضرور آؤ۔ لیکن پہلے کچھ باتیں سن لو۔

میرا تصور محبت بدلا نہیں بدہئیت ہو گیا ہے۔ اس نشتر کی سبب جو سب جان لینے کی خواہش میں ہر احساس ہر جذبے کے بخیے ادھیڑ دیتا ہے۔ دماغ کہتا ہے محبت کچھ نہیں ہے وقتی کشش ہے، جذباتی ابال کا دوسرا نام ہے۔ وہ جس سے محبت کا دعوی ہو اس سے چند دن کٹ کے رہو، کچھ یاد رہ جائے تو کہنا۔ من میں لیکن کوئی اور ہی دنیا بستی ہے۔ نجانے وہاں کون بولتا ہے۔ جو دماغ کی تمام تر دلیلوں، شاطر خیالوں کو اداسی،خوشی، غصہ، نفرت، محبت اور نجانے کتنے رنگوں کے پینٹ سے اپنے رنگ میں یوں ڈھانپ لیتا ہے کہ نہ کوئی دلیل کام آتی ہے نہ ہی کوئی اچھوتا خیال۔

اس فیز سے جب تک انسان نکلتا نہیں مجال ہے کہ کوئی کام کر سکے۔ یوں لگتا ہے دماغ ہاتھ جوڑ کے بیٹھ جاتا ہے کہ رحم کھاؤ جانے دو لیکن وہ بے پرواہ گیانی مسکراتا ہے صبر آزماتا ہے۔ کبھی تو صبر تکلیف دہ ہو جاتا ہے پھر مسکراتے ہوئے آزاد کر دیتا ہے۔ کہتا ہے جاؤ لیکن لوٹ کے یہیں آنا پڑے گا۔ انسان اس بچے کی طرح بھاگ نکلتا ہے جسے سکول سے چھٹی کے بعد سزا کے طور پہ روکا گیا ہو اور یہ سوچنا بھول جاتا ہے کہ جلد ہی وہ سزا پھر ملے گی۔ اس وقت جان چھوٹنے کی خوشی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس جال سے مستقل نکلنے کے لیے کوئی راستے ڈھونڈنے کا خیال ہی نہیں آتا۔ اور جب دوبارہ یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو سوچنا ہی محال ہوتا ہے تو راستے کون ڈھونڈے۔ اسی کھیل میں زندگی گزر رہی ہے۔ عجیب سے بدلاؤ آ رہے ہیں۔ خود فراموشی ہے۔ خیال نہیں رہتا کہ کون سا کام کس وقت کرنا ہے۔ کب سونا کب جاگنا ہے۔ زندگی کو کیسے پلان کرنا ہے۔ تمھیں پتہ ہے یہ خود فراموشی کی کیفیت یوں ہی آکاس بیل کی طرح لپیٹ میں نہیں لے لیتی۔ اس کی وجہ ہے کوئی حصار اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اس سے نکلنے کا خیال ہی نہیں آتا۔

تمہیں اندازہ نہیں ہو گا کہ وقت بھی ٹھہر جاتا ہے۔ کوئی لمحہ ایسا ہوتا ہے کہ اس میں ہم یوں جیتے ہیں کہ پھر سب فراموش کر دیتے ہیں۔ ناسٹیلجیا کہہ لو سادہ سے الفاظ میں۔ لیکن یہ جو ماضی میں جینے والے لوگ ہوتے ہیں ان کی سوچ، احساسات، باتیں سب یاسیت میں ڈوبی ہوتی ہیں نارمل لوگوں کو وہ بور لگتے ہیں کیونکہ وہ اپنے گرد بنائے گئے مضبوط خول کے اندر کی دنیا میں جی رہے ہوتے ہیں سو باہر کی دنیا انہیں نظر ہی نہیں آتی۔ اس لیے نارمل لوگ انہیں خوش دلی سے قبول نہیں کرتے۔ وقت ٹھہرا ضرور ہے لیکن پھر بھی میں بور لوگوں میں شمار نہیں ہوتی۔ جانتے ہو کیوں؟ مجھے زندگی سے عشق ہے۔ اس کے ہر لمحے سے محظوظ ہونا چاہتی ہوں۔ بظاہر ہو بھی جاتی ہوں۔ اور حقیقت میں میری کیفیت ڈپریشن کے اس مریض جیسی ہوتی ہے جو ٹرنکلازرز کے زیر اثر بظاہر پرسکون اور نارمل لگتا ہے لیکن اس کے دماغ پہ خمار طاری ہوتا ہے ایک خواب آور سی کیفیت میں جیتا ہے۔ وہ اس کا عادی ہوتا ہے جونہی دوا کا اثر ختم ہو اسے بے چینی آ گھیرتی ہے۔

ایسا ہی میرے ساتھ ہے میں دنیا کے ساتھ چلتی نہیں بھاگتی ہوں لیکن ایک خواب آور سی کیفیت طاری رہتی ہے۔ جیسے ایک ہی جگہ پہ گھومنے کے بعد یوں لگتا ہے کائنات حرکت کر رہی ہے اور ہم اپنی جگہ پہ کھڑے ہیں۔ الیوژن تخلیق ہوتا ہے بس وہی کیفیت ہے۔ مجھے لگتا ہے کائنات گھوم رہی ہے میرا وقت ٹھہر گیا ہے۔ اور اس ٹھہرے ہوئے وقت کا مرکز تم ہو۔ اس کی کشش تمہاری یاد۔ اس محور سے نکلنے کا مطلب فنا ہے تو کیونکر اس سے نکل سکتی ہوں۔ کبھی اس سے نکلنے کی کوشش کروں تو بے چینی آ گھیرتی ہے پھر اسی کیفیت کو دعوت دی جاتی ہے کہ آؤ اور مجھے گھیر لو۔ یہ آنکھ مچولی جاری ہے جانے کب تک رہے گی۔ الیوژن مجھے عزیز ہے اتنا عزیز کہ شاید تمہارا ساتھ بھی اتنا پیارا نہ ہو۔ اس میں سر خوشی اور خمار کی وہ کیفیت ہے جو مجھے عادی بنا چکی ہے اگر وہ نہیں ہو گی تو زندگی بے کیف ہو جائے گی۔ تم سے زیادہ تمہارے خیال کا حصار پرکیف ہے۔ مجھے اسی میں جینے دو۔

تمہاری ثنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).