عائشہ گلالئی کی کہانی اور ہمارا سماجی رویہ



عائشہ گلالئی ہمارے سماج کا وہ کردار ہے جو سماج کے بہت سے کرداروں کی نمائندگی کر رہا ہے۔ عائشہ ایک عورت ہی نہیں بلکہ قومی سطح کی سیاست سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ عائشہ کے انکشافات نے ایک دم معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ وہ طبقہ جو سیاست کر رہا تھا، اسے سیاست ہی سمجھ رہا ہے جب کہ دوسرا وہ طبقہ ہے جو عورت خود ہے، جو عائشہ گلالئی کے انکشافات سے ایک دفعہ پھر خوف و ہراس کا شکار ہو گئی ہے۔ عورت کہاں جائے؟ عورت کیا کرے؟ کیا وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو دبا دے؟ یا وہ یوں تماشا بن جائے جس طرح عائشہ گلالئی کو بنا دیا گیا۔ کیا مرد کبھی اس طرح خوف و ہراس کا شکار ہو سکتا ہے؟ کیا عمران خان بطور جینڈر خوف و ہراس کا شکار ہے؟ یا اسے صرف اپنی سیاست کو داغ دار ہونے سے خود کو بچانا ہے؟

میں سمجھ سکتی ہوں کہ عائشہ گلالئی کس کرب سے گزری ہو گی۔ میں جان سکتی ہوں کہ عائشہ نے پیغامات کو کس طرح دبایا ہو گیا اور آگے بڑھنے کو ہی ترجیح دی ہوگی۔ مجھے معلوم ہے کہ ایک عورت کس طرح مختلف دباؤ کو اپنے اندر گہرے کنویں میں پھینک کے پھر دریا کی موجوں کا ساتھ دینے لگتی ہے۔

عائشہ گلالئی کے الزامات جو مجھے قوی یقین ہے کہ سچ ہیں ایک طاقت ور کے ہاتھوں استحصال کی کہانی ہی نہیں بلکہ ہمارے سماج کے ان کرداروں کو بھی بے نقاب کر رہی ہے جو عورت کو دوسری مخلوق سمجھ کے معاشرے میں قبول کرتے آ رہے ہیں۔ وہ عورت پہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کیا عورت کا استحصال صرف ان میسجز یا براہِ راست دھمکیوں تک محدود ہے؟ نہیں، عورت کا استحصال ہر طرح سے ممکن ہے۔ بہن بنا کے، بیٹی کہہ کے ، اپنی طالبہ بنا کے، استاد بناکے وغیرہ۔

میری اپنی ایک سہیلی کا واقعہ سنیے۔ اُسے جاب مل گئی ۔ وہ جائننگ کے لیے دفتر کے چکر لگانے لگی۔ پہلی پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے خود ہی سارے کام نپٹاتی رہی مگر سماج کب تک برداشت کرتا ہے، آخر اس کے صبر کے بھی ایک حد ہے، زیادہ گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔ ایک طاقت ور آفیسر نے اُسے توجہ دینا شروع کر دی اور وہ اپنی نوکری کو بچاتے بچاتے اُس کے قریب ہوتی گئی۔ بلاخر اُسے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بھاگنا پڑا۔ اور وہ اسی گلالئی کی طرح پھٹ پڑی۔ مگر یہاں تو سارا میڈیا اور سیاسی جماعتیں اُس کا سواگت کرنے کو تیار تھیں لہٰذا وہ مزید طاقت ور ہو گئی۔ مگر سوچیے ان لڑکیوں پر جو کڑوے گھونٹ بھر کے سو جاتی ہیں اور اپنے بدن کی توہین کو اپنے اندر ہی سمو لیتی ہیں۔

عائشہ گلالئی کے اس واقعہ پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے والے یہ جان لیں کہ آپ اس موقع کو ضائع کر دینے سے سماج کی ایک برائی کو مزید بڑھاوا دے رہے ہیں۔ اسے ان ہزاروں لاکھوں خواتین کے حوالے سے سوچیے جو روزانہ دفاتر میں دھکے کھا رہی ہیں اور اپنے ہونے کی تذلیل اٹھا رہی ہیں۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی کو چاہیے کہ عمران خان کی شخصیت اور سیاست بازی سے پرہیز کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کا سوچیں اور کوئی ایسا قانون بنا دیں کہ اگر کوئی خاتون اپنے استحصال کی اطلاع دے تو استحصال کرنے والے کو فوجداری مقدمہ کا سامنا کرنا پڑے۔ باقی رہی بات کہ اگر عورت جھوٹا الزام لگا دے تو۔۔۔ تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ کیا معاشرے اُسے زندہ رہنے دے گا؟ عورت کے لیے یہی خوف اُسے سچ کے سوا کچھ نہیں کہنے دے گا۔ عورت کو آواز دیں تا کہ معاشرے میں عورت کو مقام ملے۔ ہماری بچیوں کو طاقت ملے اور ہم ایک صحت مند معاشرے کی طرف بڑھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).