نواز شریف کی سب کے سو جانے کے بعد تقریر


نواز شریف معاہدے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ ملک کے حالات بگڑ جائیں اور فریقین کے پاس واپسی کا کوئی راستہ باقی نہ بچے۔

غالباً اسی وجہ سے ابتدائی تقریر رات ایک بجے اتنی دیر سے کی گئی ہے جب ٹی وی سے جڑے دوست دشمن سو چکے تھے۔ یہ تقریر عوام کے لئے نہیں بلکہ خواص کے لئے کی گئی تھی۔ جہلم اور گوجرانوالہ کی تقاریر اہم ہوں گی۔ لاہور کی دن میں ہو گی اور تعین کرے گی کہ فریقین باہمی مشاورت سے اپنی حدود کا تعین کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں یا یہ فیصلہ عوام کے سپرد کر دیا جائے گا۔

ابھی تک تحریک انصاف مظلومیت کا کارڈ کھیل رہی تھی۔ ان مسلم لیگ ن یہ کارڈ کھیلتی رہے گی اور گزشتہ چار برس میں تحریک انصاف نے جو ووٹر اپنی طرف راغب کیے ہیں ان کو کھینچنے کی کوشش کرے گی۔ اب الیکشن میں یہ موضوع ہی نہیں ہو گا کہ گزشتہ چار سال میں حکومت کی کارکردگی کیا رہی ہے بلکہ موضوع یہ ہو گا کہ عوام کے منتخب کردہ لیڈر کو حکومت کرنے کا حق دیا جائے گا یا نہیں۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت تو میاں نواز شریف کے خلاف کھڑی ہے لیکن اس کے دل و جان سے فدا نظریاتی کارکن بھی میاں نواز شریف کے جلسے میں شرکت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس موقعے پر پیپلز پارٹی کی قیادت نے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا نہ کیا تو بھٹو کے یہ جذباتی کارکن بھی جمہوریت کی جنگ کے نام پر پیپلز پارٹی کو الوداع کہہ سکتے ہیں۔

ایک بااختیار جمہوری وزیراعظم اچھی بات ہے۔ لیکن دو خدشات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ نواز شریف کی ایسی فیصلہ کن جیت ہو جائے جس میں وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو عوام کی طاقت سے مکمل طور پر بلڈوز کرنے میں کامیاب ہو جائیں یا خود بلڈوز ہو جائیں۔ دونوں صورتوں میں ہمارے نصیب میں فسطائیت کی ایک تاریک اور طویل رات لکھی جائے گی۔ خدا سے دعا ہے کہ نہ تو میاں نواز شریف کو ایردوان جیسی اندھی طاقت دے کہ وہ اپنے ہر سیاسی مخالف کو ملازمت سے محروم کرتے ہوئے اسے جیل میں ڈالتے جائیں اور نہ پاکستان میں مصری جنرل السیسی جیسا صدر بنائے۔

دوسرا خدشہ یہ ہے کہ جیسی سیاسی تقسیم چل رہی ہے، یہ قوم کو فسادات کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ جب کسی طبقے کو مسلسل مایوسی کا شکار کرتے ہوئے یہ یقین دلا دیا جائے کہ اس کا جائز حق اس سے چھینا جا رہا ہے اور قانون اس کی مدد نہیں کرے گا، تو اس طبقے کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماؤف ہو جاتی ہے۔ وہ دیوانہ ہو جاتا ہے۔ دیوانگی میں تو بندہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ تحریک انصاف کا کارکن پی ٹی وی پر حملہ کر سکتا ہے اور مذاکرات کے لئے آئے ایس پی کو تشدد کا نشانہ بنا سکتا ہے، اور مسلم لیگ ن کا کارکن ریلی کے پہلے دن ہی اے آر وائی، بول اور سما کے رپورٹروں سے مار پیٹ کر سکتا ہے اور ان کی ٹی وی وین پر پتھراؤ کر سکتا ہے۔ یہ کارکن شیخ رشید کی لال حویلی پر حملہ آور بھی ہو سکتا ہے اور وزیراعظم کی ووٹنگ کے دن عمران خان کو تشدد سے بچنے کے لئے اسمبلی سے دور رہنے پر مجبور بھی کر سکتا ہے۔ خدانخواستہ اس ریلی میں کوئی المناک حادثہ ہو گیا، یا مایوسی اس حد تک بڑھ گئی کہ دیوانگی طاری ہو گئی، تو کیا ہو گا؟ خدانخواستہ اس ریلی میں نواز شریف کو مخالف کو بلڈوز کرنے والی طاقت مل گئی تو تحریک انصاف کے حامیوں پر طاری ہونے والی دیوانگی سے بقیہ جماعتوں کو کون بچائے گا؟

یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ نواز شریف کا لاہور میں کیا جانے والا آخری خطاب امن لانے والا ہو، شعلے بھڑکانے والا نہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar