نواز شریف نے بلوچستان کو آخر دیا کیا ہے؟


28 جولائی 2017ء کے نا اہل قرار دیے جانے کے عدالتی فیصلے میں تین مرتبہ وزیراعظم منتخب کیئے جانے والے نواز شریف کی سیاسی بساط کو لپیٹ دیا گیا ہے۔ نواز شریف کو معزول کیئے جانے کے بعد سے ہی عدالتی فیصلے کی ساکھ پر (قانون دانوں اور قانون سازوں کے ہاں) نقدوجرح کا آغاز ہوگیا ہے لیکن اِس کے ساتھ اِس نکتے کا بھی تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ نواز شریف کی چار سالہ مدت کی بدولت ترقی پذیر پاکستان کو بالعموم اور اِس کے پسماندہ صوبے بلوچستان کو بالخصوص کیا حاصل ہوا؟ 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز بلوچستان میں ایک بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی لیکن اُس کے ابھار کا تعلق عام عوام میں اُس کی مقبولیت کے مظہر سے نہیں ہے۔

بلوچستان کی سیاست میں پارٹی ووٹ بینک کا عنصر نہ ہونے کے برابر کارفرما ہوتا ہے۔ با اثرامیدواران بلوچستان میں کسی پارٹی کے ووٹ بینک کی کسوٹی پر سیاسی صف بندی نہیں کرتے بلکہ وہ بلوچستان سے باہر کی سیاست پر نظر رکھتے ہیں اور جس پارٹی کو دارالحکومت اسلام آباد میں آتا دیکھتے ہیں اُسی کے ساتھ وابستگی کرلیتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان مسلم لیگ نوازصوبہ بلوچستان کی تنظیم دائیں بازو کی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے جارہی تھی لیکن نواز شریف کی مداخلت اور غیرمقبول ’مری معاہدے‘ کے نتیجے میں یہ ہونہیں سکا۔ عام انتخابات کے بعد بلوچستان کی علاقائی جماعتیں بائیں بازو کی پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بائیں ہی بازو کی بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کی قیادت بھی نواز شریف سے مذاکرات کے لئے مری پہنچ گئی تھی جہاں یہ طے پایا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز بلوچستان کی صوبائی تنظیم حکومت سازی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ساتھ شراکتداری کرے گی لہٰذا نواز شریف ہی کے دباؤ پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ مخلوط حکومت نہ بنائی گئی تھی۔

مری معاہدہ بلوچستان کی اندرونی صوبائی سیاست میں کھلی مداخلت تھی جو غیرجمہوری بھی تھی اور صوبائی خودمختاری کے منافی بھی تھی۔ حتیٰ کہ صوبائی خودمختاری کی علمبردار جماعتوں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے اقتدار سے اپنا حصہ لینے کے لئے اِس مداخلت کو قبول بھی کیا تھا اور اِس مداخلت کی مفاداتی فریق بھی بنی تھیں۔ علاوہ ازیں نواز شریف کی مداخلت صرف مری معاہدے تک ہی محدود نہیں رہی تھی بلکہ وقتا فوقتاً جاری رہی تھی مثلاً بلوچستان کابینہ کی تشکیل اس لئے چار ماہ تاخیر کا شکار رہی تھی کہ نواز شریف نے مجوزہ ناموں کی منظوری نہیں دی تھی بعد ازاں 2015 ء کی ابتداء میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے موقع پر نواز شریف نے پھر کوئٹہ میئرشپ کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز بلوچستان کی صوبائی تنظیم کے کوئٹہ شہر کے کونسلروں کو پارٹی امیدوار کی بجائے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے پر مجبور کیا تھا۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد نواز شریف کی صوبائی سیاسی معاملات میں مداخلت سے صوبائی خودمختاری مجروح ہوتی رہی تھی۔ اسی طرح بلوچستان میں کم شدتی لڑائیاں اور احساسِ محرومی اب بھی باقی ہے۔ گزشتہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکج اور این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کا حصہ بڑھا کر محرومیوں کے ازالے کی کسی حد تک کوشش بھی کی تھی لیکن موجودہ حکومت میں ایسا کچھ کیئے جانے کی بجائے بلوچستان کو محروم ہی رکھا جاتا رہا ہے۔

علاوہ ازیں آغازِ حقوق بلوچستان پیکج کے تحت بلوچستان حکومت اِس سعی میں لگی رہی تھی کہ اُسے صوبے کے تانبے اور سونے کے سینڈیک ذخائر کی ملکیت حاصل ہوجائے لیکن یہ معاملہ معلق ہی رہا تھا اور نواز شریف کی حکومت میں بھی اس مسئلے کو سلجھانے کی بجائے ایسے ہی حل طلب چھوڑ دیا گیا تھا۔ اِسی طرح وفاقی حکومت کے دباؤ پر بلوچستان حکومت نے 2016 میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ کی لیز کی مدت بڑھائے جانے کے غیرمنصفانہ معاہدے پر بھی دستخط کردیئے تھے۔ پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ کے ساتھ بلوچستان حکومت کی طرف سے بات چیت میں شریک ایک ذمہ دار نے بتایا ہے کہ نواز شریف کی ناراضگی کے ڈر سے صوبائی حکومت نے تول مول میں صوبے کے حق میں بھاؤ تاؤ کی بجائے لچک دیکھائی تھی۔ اِسی طرح ساتواں این ایف سی ایوارڈ بھی 30 جون کو اپنی معیاد پوری کرچکا ہے لیکن حکومت اِسے صدارتی حکم ناموں سے توسیع دیتی آرہی ہے جو کہ آئینی ماہرین کی نظر میں بھی غیرقانونی ہے اور آٹھویں این ایف سی ایوارڈ کی عدم تشکیل کے باعث سب سے بڑھ کر خسارہ بلوچستان کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ درحقیقت ساتواں این ایف سی ایوارڈ محض اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ ہے جس میں شماریاتی ہیراپھیری کے ذریعے بلوچستان کو کم غربت زدہ دیکھا کر اُسے اُس کے اصل حصہ سے محروم رکھا گیا ہے اور بلوچستان اپنے حصہ کے 30 ارب روپے سے محروم رکھا جارہا ہے لیکن نواز لیگ کی موجودہ حکومت کو نئی اور معقول این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل میں کوئی دلچسپی نہیں۔

موجودہ حکومت کی جانب سے بلوچستان حکومت کو ملنے والی محرومیوں میں سے ایک بجلی کی قلت کی بھی ہے۔ یادرہے کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور کھپت کے مطابق بجلی کی بہم رسانی موجودہ حکومت کا انتخابی وعدہ تھا۔ جیسا کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبوں میں بیشتر بجلی کی پیداوار سے متعلق ہیں۔ سابق وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف بھی بجلی کی قلت کے مسائل دور کرنے کے باقاعدگی سے دعوے کرتے رہے لیکن بلوچستان میں اب بھی بجلی کی صورتِ حال مئی 2013ء میں نواز لیگ کے برسراقتدار آنے جیسی ہے۔ بلوچستان میں طلب کی بلندترین شرح کے ساتھ بجلی کی ضرورت 1، 800 میگاواٹ ہے لیکن بلوچستان کے مقامی گرڈ اسٹیشنوں کی بجلی کی بہم رسانی کی استعداد صرف 650 میگاواٹ ہے۔ یعنی کہ اگر ملک میں فاضل شرح کے ساتھ بجلی پیدا ہونے لگ پڑے تو تب بھی بلوچستان650 میگاواٹ سے زائد بجلی حاصل نہیں کرسکے گا۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے گرڈ کی استعداد بڑھانے کے لئے کچھ بھی خرچ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کے سوا بلوچستان کے تمام اضلاع میں 12 گھنٹے سے زائد کی لوڈشیڈنگ رہتی ہے۔

آخر میں یہ کہ منتخب وزیراعظم نواز شریف کو اپنی 5 سالہ آئینی مدت پوری نہ کرنے دیے جانا جمہوریت کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ اگرچہ نواز شریف کو نا اہلی کرنے والی کسوٹی موضوع بحث ضرورہونی چاہیے لیکن یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف بحیثیت جمہوری حکمران بھی بلوچستان کی بھلائی کو بھول گئے تھے۔ نواز شریف نے بلوچستان میں عوام کے ترجیحاً توجہ طلب مسائل کو حل کرنے کی مَد میں موقع پرستوں کو نوازنے ہی کی روایتی حکمتِ عملی اپنائی تھی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).