ہمیں پتہ ہے نوازشریف کی ریلی اور مشن ناکام ہوگا


جس طرح سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی نا اہلی سے پہلے ہی عام و خاص کو پتہ تھا کہ میاں صاحب کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ٹھیک اسی طرح میاں نواز شریف کی جی ٹی روڈ ریلی کے حوالے سے سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تبصرے اور تجزیے جاری ہیں کہ میاں نواز شریف کی ریلی اور مشن ناکام ہوگا۔ میاں نواز شریف کی ریلی ابھی پنجاب ہاؤس اسلام آباد سے نکلی ہی نہیں تھی کہ ہم نے اس کا موازنہ جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو کی ریلیوں اور وکلا لانگ مارچ سے کرںا شروع کر دیا تھا کہ دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب کی مظلومیت والی جی ٹی روڈ کی ریلی لوگوں کو اکٹھا کرنے میں کتنی کامیاب ہوتی ہے۔

اور کچھ ہی گھنٹوں کے بعد کچھ سیاسی اینکرز، تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا کے متوالوں نے اس ریلی اور میاں نواز شریف کے مشن کو مکمل ناکام کر دیا اور کہنے لگے کہ دیکھا میاں نواز شریف کے ساتھ لوگ نہیں ہیں اور ساری گاڑیاں اور لوگ ن لیگی وزیروں، مشیروں، ایم این ایز، ایم اپی ایز اور پٹواریوں کے ہیں۔ نوجوان، عام و خاص لوگ نواز شریف کو چھوڑ چکے ہیں یہ صرف بزنس مڈل کلاس ہے۔ فرض کریں کہ ایک لمحے کے لیے آپ کی بات کو مان لیتے ہیں کہ تنخواہ دار طبقہ، مزدور، کسان، غریب عوام میاں صاحب کی ریلی میں موجود نہیں ہیں اور نہ ہی شامل ہوں گے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو کیسے پتہ ہے کہ ریلی میں تنخواہ دار طبقہ اور غریب عوام شریک نہیں ہیں یا تو آپ کے پاس علم نجوم ہے یا پھر آپ نے پہلے ہی سے یہ فرض کر لیا ہے کہ میاں نواز شریف کی ریلی ناکام ہوگی اور ان کے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا جائے گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔

چایے ن لیگ سے آپ کو کتنا بھی اختلاف ہو مگر ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کے ن لیگ ایک سیاسی حقیقت ہے اور انہوں نے عوام کے ووٹ لے کر حکومت بنائی ہے۔ اور کچھ بھی فرض کرنے سے پہلے ہمیں اس ریلی کو لاھور جانے کی اجازت دینی چایے۔ دوسری طرف ن لیگ کے سیاسی مخالف اس کھوج میں مصروف عمل ہیں کہ میاں نواز شریف یہ ریلی کس کے خلاف نکال رہے ہیں اور اس کے ساتھ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ میاں نواز شریف اس ریلی کے ذریعے اداروں میں تصادم کروانا چاہتے ہیں جو ملک اور جمھوریت کو لیے نیک شگوں نہیں ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کی کوئٹہ والی تقریر اور جمھوریت پسند کامریڈوں نے میاں نواز شریف کی نا اہلی پر افسوس کا اظھار کرتے ہوئی پارلیمان کی بالادستی اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، کی بات کی ہے۔

باقی سارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور کہنے پر مجبور ہیں کہ جمھوریت کا جنازہ نواز شریف اپنے کندھوں پر جی ٹی روڈ سے لاھور لے کر جا رہے ہیں اور اب داتا ہی اس کا رکھوالا ہے۔ اگر پاکستان کی تلخ تاریخ کو دیکھا جائے تو کافی سارے لوگوں کو یہ یقین تھا کہ میاں صاحب ہمیشہ کی طرح اپنی آئینی مدت پوری نہیں کریں گے۔ مگر کچھ لوگ پر امید تھے کہ میاں نواز شریف اپنی جلاوطنی اور میثاق جھموریت پر دستخط کے بعد ملک کی سیاست کو سمجھ پائیں گے۔ مگر جب پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008 میں حکومت بنی تو کئی مواقعوں پر میاں صاحب نے پی پی پی کی حکومت کو ہلانے کی کوششیں کیں اور کالا کوٹ پہن کر میمو گیٹ لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تاکہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت کو کمزور کیا جا سکے۔

اور آج میاں صاحب کو بھٹو شھید اور بے نظیر معصوم اور یوسف رضا گیلانی بے قصور نظر آ رہے ہیں اور میاں صاحب کی ان باتوں پر شدید تنقید کی جا رہی ہے کہ جب وہ نا اہل ہوئے ہیں تبھی ان کو پاکستان پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کی مظلومیت اور جمھوری جدوجہد نظر کیوں آ رہی ہے چلو دیر آید درست آید کو تسلیم کر کے آگے چلتے ہیں اور جس طرح پیپلز پارٹی نے جمھوریت سب سے بڑا انتقام کا نعرہ لگایا اور بھٹو خاندان کی کردار کشی کرنے والوں اور اپنے بدترین سیاسی حریفوں کو معاف کیا اور آصف زرداری نے مفاہمت کا نعرہ لگا کے سیاسی نظام کو پٹڑی پر چلایا ٹھیک اسی طرح میاں نواز شریف کے عذر کو قبول کرنا چاہیے اور جھموریت سے بڑا انتقام جو محترمہ بے نظیر بھٹو کا خواب تھا اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہے جو بھٹو صاحب کا نعرہ تھا اس کی مضبوطی کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ورنہ کرپٹ نظام کو ختم کرنے والے اور عوام کو سستا اور شفاف انصاف دلوانے والے اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).