نواز شریف شو جو دیکھا جو سنا جو اب ہونا ہے


میاں صاحب اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر رٹ کے فیصلے کا انتطار کرتے رہے۔ اس کی خبر آتے خالصہ ٹائم ہو ہی گیا۔ پاکستانی سیاست کے پھر بارہ بج چکے ہیں جب وہ اپنے نئے سیاسی سفر پر جپھیاں ڈالتے روانہ ہوئے۔

روانگی سے پہلے میاں صاحب کا حال ان کے ایک دوست نے یوں بتایا۔ میاں صاحب لال ہو چکے تھے، وہ خاموش تھے۔ وہ کچھ سن نہیں رہے تھے بس سوچ رہے تھے۔ بات کرتے ہوئے وہ کسی کو دیکھنے کی زحمت نہیں کر رہے تھے۔ اس کی تشریح بھی بتانے والے نے خود ہی کر دی کہ میاں صاحب غصے میں تھے۔ وہ اپنے آپ کے ساتھ حالت جنگ میں تھے کہ کتنا بولنا ہے۔

میاں صاحب اب واپس جا رہے ہیں گھر۔ وہ اب بھی کچھ واضح عزائم رکھتے ہیں۔ ان عزائم کا اظہار وہ کھل کر کرنے کے سلسلے میں ایک کشمکش کا شکار ہیں۔ بہت پہلے ہم دوستوں نے ایکسرسائز کی تھی میاں صاحب کو دو لفظوں میں کیسے بیان کریں۔ تو جو نتیجہ ہم نکال سکے تھے وہ پریشر اور ٹائمنگ تھا۔ یعنی یہ ایسے بندے ہیں جو پریشر کب کتنا کہاں ڈالنا یہ جانتے ہیں اس کے ساتھ یہ ٹائمنگ کے استاد ہیں۔

جج بحالی تحریک میں آپ دیکھ لیں۔ گورنر راج تھا انہیں نظر بند کر رکھا تھا حکومت نے۔ یہ نکلے انہوں نے ایک اوپننگ سپیچ کی بڑی کھل کر واضح بات کی۔ جو کرنا چاہتے تھے وہ حاصل کر لیا ستر اسی کلومیٹر کے مختصر سفر میں۔ امریکی وزیر خارجہ اس پاور شو کے بعد پاکستان میں طاقت کے دونوں مراکز پنڈی اسلام آباد سے رابطے میں آ گئی تھیں معاملہ ایک رات میں ختم ہو گیا تھا۔

میاں صاحب ایسے بندے نہیں ہیں کہ وہ یہ بھول چکے ہوں کہ انہیں نکلنے سے پہلے ایک اوپننگ تقریر کرنی ہے۔ وہ انہوں نے نہیں کی یقیناً ان پر ان کے ساتھیوں کا پریشر تھا۔ پارٹی میاں صاحب کی آئندہ حکمت عملی کے حوالے سے دو عملی کا شکار ہے۔ ان حالات میں میاں صاحب جب باہر نکلے تو ان کے کارکن اسلام آباد میں ٹولیوں کی صورت بکھرے ہوئے تھے۔

میاں صاحب کا سارا پنڈی شو مس مینیجمنٹ کی ایک کہانی ہے۔ مسلم لیگ نون جیسی منظم جماعت اپنے لیڈر کی تقریر کے وقت الیکٹرانک میڈیا کو آگاہ تک نہیں کر سکی۔ جو چینل ان کی تقریر کے وقت اللہ توکل موقع پر موجود تھا۔ اس کا کیمرہ مین مجمع کی بجائے میاں صاحب کو دکھاتا رہا۔ میاں صاحب اک ڈھیلی ماٹھی تقریر میں گرم سرد پھونکیں مارتے رہے۔ تقریر بہت بے ربط تھی کچھ گرم جملے کہہ کر باتیں دہرانے لگ جاتے تھے۔

یہ وہ تقریر تھی جس کا پنڈی میں بڑا انتظار تھا۔ افسر اس کے لیے اندازے لگاتے تھکتے رہے۔ تقریر کو ہر ممکن حد تک نرم رکھنے کے لیے میاں صاحب سے مسلسل رابطے ہوتے رہے۔ یہ رابطے ان کی اپنی پارٹی والے ہی کر رہے تھے۔

ہمارے بے تکے سے خبری کی آنکھوں دیکھی اطلاع ہے۔ ایک متوالا تقریر کے دوران موٹر سائیکل کے کرتب دکھا رہا تھا اور کافی سارے متوالے بڑے انہماک سے کرتب دیکھ رہے تھے۔ یہ سب میاں صاحب کے کنٹینر سے چند قدم کے فاصلے پر ہو رہا تھا۔ ہمارے ایک ساتھی کی اطلاع ہے کہ پنڈی کا مقامی ووٹر نکلا تھا کل۔ اس نے میاں صاحب کا انتظار بھی کیا لیکن کافی بڑی اکثریت تقریر بہت دیر سے ہونے کی وجہ سے گھروں کو چلی گئی تھی۔

عالمی میڈیا کی رپورٹیں بڑی مثبت ہیں۔ سفارتی حلقے ہونٹ بھینچ کر کہہ رہے ہیں کہ پارٹی از ناٹ اوور۔ بندے کی سپورٹ ہے اور وہ غیر متعلق نہیں ہوا۔ میاں صاحب کا شو برا نہیں تھا انہوں نے اپنی پارٹی کی وہ مشین متحرک کر لی ہے جو ووٹر سے رابطہ رکھتی ہے۔ یہی مشین ہے جو ووٹر کو الیکشن کے دن گھر سے نکال کر لاتی ہے۔ میاں صاحب خود بھی ان کی یہ ووٹر مشین بھی ردھم میں آتی جائے گی۔

سوال ایک ہی اہم ہے کہ میاں صاحب حاصل کیا کرنے چاہتے ہیں۔ اک موٹا سا مسلم لیگی بتا رہا تھا کہ ہمارا لیڈر اب اپنی بحالی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس موٹے کی اس بات پر ہر گز یقین نہیں کیا جا سکتا، تو پھر کیا کرنا چاہتے ہیں۔

میاں صاحب لاہور پہنچ کر لوگوں کو اپنی صدیوں پرانی تقریر سنائیں گے۔ خود کو نیا قومی مظلوم بتائیں گے۔ لاہوری پہلوان ان کی تقریر سن کر ”ساڈٓا میاں لگتا تو نہیں پر شاید ۔ ۔ ۔“ بول کر پھر ان کے مگرے چل پڑیں گے۔ ضمنی الیکشن کے حوالے سے کپتان اور اس کی پارٹی کے لیے کوئی اچھی خبریں نہیں ہیں۔ میاں صاحب لاہور میں کچھ دن آرام کریں گے۔

مختصر آرام کے بعد وہ ہمیں کے پی میں ہزارہ کی جانب رواں دواں نظر آئیں گے۔ جنوبی پنجاب میں کسان ابھی کپاس کی فصل سنبھال رہے ہیں۔ ان کسانوں کی فراغت میں ابھی ٹائم ہے۔ چند ہفتوں بعد میاں صاحب ہمیں جنوبی پنجاب میں اپنا قصور پوچھتے دکھائی دیں گے۔ اس کے بعد بلوچستان اور پھر سندھ جہاں پر اب میاں صاحب کے گن کر پورے چار عدد ووٹر ہیں۔

پی پی والے نام کے جیالے ہیں دل ان کے موم سے بنے ہوئے ہیں۔ کائرہ صاحب گرج برس رہے ہیں اس پر نہ جائیں۔ میاں صاحب کی جاری مہم کے دوران ہی کہیں پی پی کا دل پاٹ جانے کی اطلاع آئے گی اور ہم ایک نئی آئینی ترمیم کا ڈول ڈلتا دیکھیں گے۔ یہ ترمیم نیب کی حجامت کرے گی۔ مائی لارڈ حضرات کی تقرری برطرفی کا اختیار کلی طور پر پارلیمنٹ کو دے دیا جائے گا۔ آئین کی ایسی تمام شقیں آخری سانس لے لیں گی جو منتخب ممبران کو ان کی مدت پوری کرنے میں آج یا آئندہ حائل ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi