گلزار‘ وہ جو شاعر ہے!


موڈ سخت خراب تھا، چند فضول مصروفیات میں اچھا خاصا وقت گل گیا، نشہ ٹوٹ رہا تھا، طلب شدید تھی، سامنے گلزار کا ذکر آ گیا۔ جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم، جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے۔ مزاج اور طبیعت کی ساری کوفت کافور ہو گئی۔ کتاب کا نشہ بہت ظالم ہوتا ہے، سارا دن روزی روٹی کے چکر میں بھاگتے دوڑتے نکلتا ہے، رات آتی ہے تو کتاب کسی مہربان آغوش کی طرح سمیٹ لیتی ہے۔ گلزار بڑا ظالم آدمی ہے۔ اسے کوئی تنقید نگار خاص لفٹ نہیں کراتا، ثقہ ادیب اس کی پروا نہیں کرتے، دل ہی دل میں وہ دونوں کڑھتے رہتے ہیں اور سمپورن سنگھ ان کی فتوحات پر سے تیرتا ہوا کہیں کا کہیں نکل جاتا ہے۔ گلزار کبھی آپ سے یہ رونے روتا نظر نہیں آئے گا کہ میں نے ادب کی خدمت میں بال سفید کر دیے، میں نے ساری زندگی ادب کو دے دی، میں نے اردو کے لیے یہ کیا، میں نے وہ کیا، مجھ سے اچھا شاعر کوئی نہیں ہے۔

کچھ بھی نہیں، گلزار کبھی کچھ نہیں کہے گا، وہ خاموشی سے، ایک باپ کے جیسی شفقت سے، بڑھ کے ہر پڑھنے والے کو گلے لگا لے گا۔ وہ کہے گا بھئی آپ مجھے پڑھتے ہیں، یہ آپ کا بڑا پن ہے، میں تو جذبوں کی آنچ کاغذ پر منتقل کر دینے والا ایک عام سا آدمی ہوں، ایک سفید پوش ہوں، اتنا مان آپ نے دیا ہے تو یہ آپ کی بڑائی ہے۔ اصل میں وہ سیانا ہے، وہ جانتا ہے کہ اس کی سادہ سی باتیں، اس کے عام سے الفاظ، یہ سب کچھ معمولی سی اردو جاننے والوں کے دلوں میں بھی جا کر ایسے کُھب جاتا ہے کہ نکالے نہیں نکلتا۔ ایمانداری سے بتائیے، آپ میں سے جس کو کبھی بریک اپ نصیب ہوا ہے اس نے کبھی یہ گانا آج تک درد کی تصویر بن کر نہیں سنا، ’میرا کچھ سامان، تمہارے پاس پڑا ہے، وہ بھجوا دو، میرا وہ سامان لوٹا دو۔ ‘‘ پھر اسی گانے میں جب کہا جاتا ہے کہ‘ گیلا من شاید بستر کے پاس پڑا ہو‘‘، یا پھر جب ’ایک سو سولہ چاند کی راتیں، ایک تمہارے کاندھے کا تل‘‘ قسم کی باتیں ہوتی ہیں تو کیا آج تک کبھی ایسا ہوا کہ پورا گانا بے اثر نکل گیا ہو اور آپ نے ساتھ گنگنایا نہ ہو؟ ایسا نہیں ہوتا، اور بس یہی ہے گلزار، جو سب کچھ جاتنا بوجھتا ہے لیکن اسے معلوم ہے کہ درخت پر جیسے جیسے پھل لگتا جاتا ہے، جھک کر دوہرا ہونا اس کی مجبوری بن جاتی ہے۔

رات قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے، لمبی رات کہ جس میں اپنی مرضی سے جاگا جائے اور اپنی نیند سویا جائے، تو اس رات کی حمد و ثنا یا تو ناصر کاظمی پر ختم تھی اور یا گلزار ہے، جو رات کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے۔ رات جب سرحد کے اس طرف اترتی ہے تو اپنا حصہ وصول کرنے گلزار کی چوکھٹ پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ شاعرِ بے نیاز کبھی ایک سکے کی طرح یہ شعر اچھال دے گا؛

رنگ اڑنے لگا ہے چہرے سے
کتنی کمزور ہو گئی ہے رات

اور رات اس شعر کی ممتا سے نڈھال ہوتی رخصت ہو جائے گی۔ چاند یاد آئے گا تو اس کے پیار میں ایک ایسا ہی شعر دوڑتا چلا آئے گا؛

چھو کے دیکھا تو گرم تھا چاند
دھوپ میں کھیلتا رہا ہے چاند

اب چاند اگر شکریہ ادا کر سکتا تو آ کر گلزار کے ہاتھ چوم لیتا۔ اور صرف چاند نہیں، کون ہے جو گلزار کے دربار میں آیا ہو اور ایک نئی طرح سے یاد نہ رکھا جائے۔ گلزار تو کھنڈروں میں بھی جاتا ہے تو اپنے وقت کا اِمرا ئو لقیس بن جاتا ہے؛

شہر کھودا تو پیاس نکلی ہے
ٹوٹے پھوٹے سے کچھ گھڑے ہیں یہاں

گلزار اپنی ماں کو نہیں دیکھ سکا، گلزار کے پاس اپنی ماں کی ایک بھی تصویر نہیں ہے، گلزار جو پوری دنیا کے لیے ممتا کے جذبات لیے بیٹھا ہے وہ خود ماں کی گود سے محروم رہا۔ ‘میں نہیں جانتا میری ماں کیسی دِکھتی ہو گی، اس کی کوئی تصویر بھی موجود نہیں ہے۔ اس بات کی کمی محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنی ماں کے چہرے سے واقف نہیں اور یہ احساس کبھی ختم نہیں ہوا۔ ‘‘

‘گلزار وہ جو شاعر ہے‘‘شمع کاظمی کی یہ کتاب وجاہت بھائی کے ڈیسک پر نظر آئی، کھولتے ہی یہ پڑھا، اس کے بعد پوری کتاب پڑھنا پڑی، تو بس یہ قصہ تھا۔ بہت محنت سے لکھی گئی کتاب ہے، گلزار کی زندگی کے حالات بھی ہیں، شاعری پر بھی گفتگو ہے اور سب کچھ پورے پورے حوالوں کے ساتھ ہے۔ کہیں بھی ایسا نہیں لگتا کہ ہوا میں تیر چلائے گئے ہیں، لکھنے والی کی پوری گرفت اپنے مضمون پر ہے۔ فقیر شمع کاظمی سے واقف نہیں، نہ انہوں نے کبھی سوچا نہ کبھی اِدھر خیال آیا کہ یوں تبصرہ لکھا جائے گا مگر کتاب اپنے آپ کو پڑھوانے کا فن جانتی ہو تو سب کچھ ہوتا ہے۔ پھر کتاب ہو بھی گلزار کے بارے میں تو یہ احسان فراموشی ہو گی۔ وہ گلزار جس نے ماچس جیسی فلم بنائی ہو اور اس میں وہ گانا لکھا ہو، ‘ چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں، جہاں تیرے پیروں کے کنول گرا کرتے تھے‘‘۔ بخدا بادشاہ لوگ سمرقند و بخارا ایسے ہی شاعروں کو دان کرتے ہوں گے، تو ایسے آدمی کے بارے میں نہ لکھنا ذاتی بدنصیبی تو ہو سکتی ہے دوسرا کوئی مطلب نہیں نکلتا۔

شاعری آپ پڑھتے ہوں گے، ہوتا یہ ہے کہ لگاتار بہت سارے شعر یا نظمیں اوپر تلے پڑھنے سے ان کا مجموعی تاثر اکثر غائب سا ہو جاتا ہے، پورا دیوان پڑھ ڈالا اور کتاب بند کر کے سوچا تو کچھ یاد ہی نہیں۔ عین ممکن ہے اس معاملے میں ذاتی کور ذوقی سزاوار ہو لیکن اگر کسی دوسرے کے ساتھ واقعی ایسا ہوتا ہے تو بس پھر اس ٹائپ کی کتابیں پڑھنا شروع کیجیے۔ ہوتا یہ ہے کہ تھوڑی بہت نثر آتی ہے تو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے، گپ شپ محسوس ہوتی ہے، بندہ لائٹ سا ہو جاتا ہے، اتنی دیر میں اگلی سلیکشن سامنے آ جاتی ہے۔ تو وہ جو وقفے وقفے سے شعروں کے ٹیزر نظروں کے سامنے آتے ہیں وہ اکثر بھلے لگتے ہیں بلکہ چند ایک تو یاد بھی رہ جاتے ہیں جیسے وہ مصرعہ تھا، ’بارش ہوتی ہے تو پانی کو بھی لگ جاتے ہیں پاؤں‘‘۔ بارش جس پر بیتی ہو، جس نے بارش محسوس کی ہو، وہی اسے پاؤں لگتے دیکھ سکتا ہے، عام بندہ تو بس وہی حبس دیکھے گا اور لو کی دعا مانگتا پھرے گا، بارشیں جس نے چاہی ہوں وہی قدر جانتا ہے خیر، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح سے پڑھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سی چیزیں دماغ میں گونجتی پھر رہی ہیں۔

شمع کاظمی کہتی ہیں کہ باب ڈیلن جو کہ نغمہ نگار ہیں یا گیت کار ہیں، اگر انہیں ادب کا نوبیل انعام مل سکتا ہے تو گلزار کو بھی مل سکتا ہے، وہ بھی اس کے اہل ہیں۔ دیکھیے نوبیل کے اپنے پیرامیٹرز ہیں، ٹیگور کو مل گیا اقبال کو نہیں ملا، کیا اقبال کی اہمیت کم ہو گئی؟ یا ٹیگور نوبیل کے بعد جانے گئے؟ انتظار حسین کو بھی نوبیل نہیں ملا، بھئی وہ ان کے دھندے ہیں، وہ جانیں، ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ نوبیل اگر انتظار صاحب کو ملتا یا گلزار صاحب کو ملا تو ایوارڈ ذرا معتبر ہو جائے گا، ہمارے بندے تو اس کے بغیر بھی پورے تیوروں سے اپنے اپنے راج استھان پر کھڑے سب کو للکار رہے ہیں، ہم سا ہو تو سامنے آئے۔

یہ کتاب اصل میں شمع بی بی کا تحقیقی مقالہ تھی، انہوں نے اس موضوع پر ایم فل بھی کر لیا اور پڑھنے والوں کی موج الگ ہو گئی۔ جاتے جاتے گلزار کی ایک تروینی؛
پرچیاں بٹ رہی ہیں گلیوں میں

اپنے قاتل کا انتخاب کرو
وقت یہ سخت ہے چناؤ کا!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain