ریاست کے مقتول


\"ziauddin-feat\"سوات کی معروف اور قابل فخر سماجی شخصیات میں ایک اہم اور بڑا نام ’’آزادے بابا‘‘ کا ہے۔ آزادے بابا عرصۂ دراز سے خدا کی راہ میں غریبوں کے علاج اور نادار بچوں کی تعلیم وتربیت پر بہت کچھ خرچ کر رہے ہیں۔ دوسرے بااثر لوگوں کی طرح طالبان کے زمانۂ عروج میں ان کو بھی دھمکیاں ملتی رہیں۔ میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ ’’آزادے بابا! طالبان کو آپ سے کیا شکایت ہے کہ وہ آپ کو مسلسل تنگ کرتے ہیں اور دھمکی دیتے ہیں۔‘‘ تھوڑے سے توقف کے بعد وہ بولے: ’’ان کا میرے اوپر الزام ہے کہ میں کفر بکتا ہوں۔‘‘ یہ سن کر میں مسکرانے لگا اور کہا: ’’وہ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں، تم کفر بکتے ہو اور اسلام پر عمل کرتے ہو اور وہ اسلام کا نام لیتے ہیں اور کفر کرتے ہیں۔‘‘ آزادے بابا میرا جواب سن کر دیر تک ہنستے رہے۔

بہ حیثیت مسلمان ہم سب کے لیے یہ ایک بہت ہی اہم سوال ہے کہ ہم اسلام، اسلام کا ہر وقت نعرہ لگاتے رہتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچا ہے کہ اس کی تعلیمات میں موجود انسانی قدروں اور اخلاقیات پر ہم کتنا عمل کرتے ہیں۔ قول و فعل کے اس ناگفتہ بِہ تضاد نے مذہب کے نام پر پاکستانی معاشرے کو کتنا تقسیم اور برانگیختہ کردیا ہے، اس کی ایک تازہ اور چونکا دینے والی مثال ہم نے اس ردِ عمل میں دیکھی جو مرحوم ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد آیا۔

میڈیا کی بے مثال سنسرشپ کے باوجود ہم نے دیکھا کہ مذہبی جنون سے سرشار انسانوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ سب بھول گئے کہ وہ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ریاست کے مہذب شہری بھی ہیں۔ کسی نے اس ردِ عمل کو عقل و دانش پر جنون و حماقت کا غلبہ سمجھا تو کسی نے اس کو انتہاپسندی کی انتہا قرار دیا۔ ریاستِ مدینہ کا علم  بردار ہونے کا دعویٰ رکھنے والوں نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ نہ قانون کا احترام کیا اور نہ ہی اس آئین کو عزت دی جس پر ان کے سیاسی اکابرین کے بھی دستخط موجود ہیں۔

دوسری طرف این جی اوز کے کچھ سماجی کارکن ہیں، جنھوں نے پھانسی کی سزا کو ایک ناخوش گوار واقعہ قرار دیا ہے لیکن کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر ممتاز قادری کے معافی نامے کو ان کی کمزوری سے تعبیر کیا اور ان کے عشقِ رسول کے اس جذبے کو چیلنج کیا جس کے تحت انھوں نے اقدامِ قتل کیا تھا۔ گویا کہ انھیں طعنہ دیا گیا۔ میرے خیال میں یہ رویہ غیرمنصفانہ اور نقصان دہ ہے۔ سچ پوچھئے تو اگر ممتاز قادری نے حقیقتاً اپنے جرم کا اعتراف کرکے پشیمانی کا اظہار کیا ہو اور معافی کی درخواست بھی دی ہو تو اس کی وجہ جو بھی ہو، یہ ایک قابل تحسین اقدام تھا۔ اس کی زندگی سے محبت معاشرے کو ایک مثبت پیغام دیتی ہے اور اس جذبے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جس کے باعث خود ہی منصف اور خود ہی جج بن کرکسی کو سزا دینے کا باعث بنتا ہے۔

آج پاکستان کے مسلمان نظریاتی طور پر کئی حصوں میں بٹ چکے ہیں۔ کچھ غیر جانب دار ہیں، کچھ انتہاپسندی سے تنگ آ کر مذہب سے بدظن ہیں اور بہت سے مذہب کے نام پر خود سر ہو چکے ہیں۔ اسلام اپنے ایک معانی میں اطاعت اور سرتسلیم خم کرنے کا نام ہے لیکن ہمارے ہاں خود سری کی انتہا ہے۔ میرے والد مرحوم اپنے جمعہ کے خطبے میں انتہائی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اطیعو اللہ و اطیعو الرسولؐ کے بعد’’وَاولی الامر منکم‘‘ کا درس دیتے تھے۔ لیکن آج جب کہ ہر کوئی اولی لاَمر بن کے بیٹھا ہے تو اطاعت گزار کہاں سے لائیں اور جب اطاعت کا تصور ہی ختم ہوجائے اور ضلعی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک کے فیصلوں کا احترام نہ رہے تو پھر امن بھی عنقا ہوجاتا ہے۔

مرحوم سلمان تاثیر اور مرحوم ممتاز قادری میں کون غازی ہے او ر کون شہید ہے۔ کون بخشا گیا ہے اور کون زیر عتاب ہے، یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ میری نظر میں تو دونوں ہی مقتول ہیں۔ دونوں ’’بِاَیِ زنبٍ قتلت‘‘ پر پورا اترتے ہیں۔ اور یہ دونوں ریاست کے مقتول ہیں۔ (معاف کیجئے گا، ریاست کے خلاف رائے دینا غداری ہے، اس لیے چلئے یوں لکھتے ہیں کہ) یہ دونوں ریاست کے بدنام زمانہ بیانئے اور غیرمنصفانہ قوانین کے مقتول ہیں۔ دونوں کا مقدمہ پاکستان کے پرامن شہریوں کی طرف سے مرحوم جنرل ضیاء الحق پر چلایا جائے تو نامناسب نہیں ہوگا۔ مرحوم ضیا الحق کا نام لینے کی جسارت اس لیے کر رہا ہوں کہ وہ اس دارِ فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ ورنہ اَسی کی دہائی میں اس قسم کا اظہارِ رائے میرے جیسے معمولی لکھاری کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اس حوالے سے آزادے بابا کا ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک دن وہ جنرل ضیاء کے مارشل لائی دور میں اپنے مینگورہ والے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک دیوانہ فقیر اچانک ان کے دفتر میں داخل ہوا۔ وہ آزادے بابا کے قریب گیا اور ان کے کان میں چپکے سے کہا ’’مارشل لا مردہ بادلیکن چپکے سے‘‘۔

 

ضیا الدین یوسف زئی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ضیا الدین یوسف زئی

ضیا الدین سف زئی ماہرِتعلیم، سوشل ورکر اور دانش ور ہیں۔ اعلیٰ پائے کے مقرر ہیں۔ ان کی تحریر میں سادگی اور سلاست ہے یہی وجہ ہے کہ گہری بات نہایت عام فہم انداز میں لکھتے ہیں۔ان کا تعلق وادئ سوات سے ہے۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد ہیں۔ ضیا الدین یوسف زئی اقوام متحدہ سے مشیر برائے گلوبل ایجوکیشن کی حیثیت سے بھی وابستہ ہیں۔

ziauddin-yousafzai has 17 posts and counting.See all posts by ziauddin-yousafzai

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments